Shan e Sahaba

صحابہ کی شان

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْن وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمَّد وَ عَلَى اَلِهِ وَاَصْحَابِهِ اَجْمَعِيْنَ وَعَلى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاِحْسَانِ اِلَى يَوْمِ الدِّيْنِ اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘-سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِؕ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لا تسبوا أصحابي فوالذی نفسی بیدہ لو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه۔ صدق اللہ العظیم اللہ کا پیغام اور پیغمبر کا واسطہ بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو! اللہ جل جلالہ اپنا پیغام اپنے بندوں تک پیغمبر کے ذریعے پہنچایا کرتے ہیں۔ پیغمبر، اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے درمیان ایک واسطے کی حیثیت رکھتا ہے، جو اللہ کا پیغام وصول کرتا ہے اور اس کے بندوں تک پہنچاتا ہے۔ آگے اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں سے کچھ خاص لوگوں کا انتخاب کیا ہوتا ہے اور انہیں یہ سعادت بخشی ہوتی ہے کہ وہ وقت کے پیغمبر کے براہ راست صحبت یافتہ ہوتے ہیں، اس کی براہ راست تربیت میں رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اور اللہ کے پیغام اس کے پیغمبر کی زبانی سن کر دنیا کے اطراف تک اور دیگر لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ صحابہ کرام  کا منفرد مقام چنانچہ ہر پیغمبر کو اللہ تبارک و تعالی نے ایسے ہی سعادت مند صحبت یافتہ افراد عطا کیے تھے، اور ان صحبت یافتہ افراد کو اللہ تبارک و تعالی نے دیگر لوگوں سے منفرد مقام عطا کیا تھا۔ چنانچہ ان پر آزمائشیں بھی آتی تھیں، امتحانات بھی آتے تھے۔ یہ اللہ کا اصول ہے کہ وہ اپنے بندوں کے درجات کے اعتبار سے ان پر آزمائشیں بھیجتا ہے۔ جتنا کوئی بندہ اللہ کے زیادہ قریب ہو اسی قدر سخت آزمائش اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ سب سے سخت امتحانات انبیاء پہ آتے ہیں کیونکہ وہ روئے زمین پر اللہ جل جلالہ کے سب سے قریب بزرگ شخصیات ہوتی ہیں۔ان کے درجات کے اعتبار سے ان کی آزمائش امتحان بھی سخت ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے پیغمبر کی جو براہ راست متبعین اور ان کے شاگرد ہوتے ہیں، وہ دیگر افراد کے مقابلے میں اللہ کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ کائنات کے دیگر لوگ، جو پیغمبر کے بعد آئیں گے یا پیغمبر سے دور رہتے ہیں اور انہیں پیغمبر کی زیارت اور اس کی مجلس میں بیٹھنے کی سعادت نہیں ملی تو ان لوگوں کی بنسبت ان کا درجہ بلند ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان کی آزمائش بھی عام لوگوں سے سخت ہوا کرتی ہے۔ مختلف پیغمبروں کے براہ راست صحبت یافتہ حضرات پر آزمائشیں آتی رہیں وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے اور کبھی معاملہ برعکس بھی ہوا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کی قربانیاں تاریخ میں آپ نے پڑھا ہوگا حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے بارے میں کہ یہ حواری حضرت عیسی علیہ السلام کے براہ راست صحبت یافتہ تھے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا کلام اور ان کا پیغام سنتے تھے، اور دنیا کے اطراف تک پہنچانے کا اہتمام کرتے تھے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے پیغام کو دور دور تک پہنچانے کے لیے انہوں نے بڑے امتحانات بھی جھیلے۔ چونکہ وہ وقت ایسا تھا کہ دنیا میں یہودیوں کا غلبہ تھا حضرت عیسی علیہ السلام جس ماحول میں آئے تھے، اس ماحول پر یہودیوں کا غلبہ تھا اور یہودی حضرت عیسی علیہ السلام کے دشمن تھے تو ماحول ان کا مخالف تھا۔ مخالفانہ ماحول میں حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے بڑی قربانی دے کر ان کا پیغام دیگر لوگوں تک پہنچایا۔ جب حضرت عیسی علیہ السلام اس زمین پہ نہ رہے اللہ کے ہاں تشریف لے گئے تو ان کے دین کے باقی رکھنے کی ذمہ داری ان حواریوں کی تھی، لیکن اللہ جل جلالہ کی مشیت کچھ اور تھی۔ عیسائیت میں شامل تحریفات چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کے دین کی حفاظت ان کے یہ جلیل القدر حواری بھی نہ کر سکے۔ اور پورس نامی ایک شخص حواری کا روپ دھار کے ان میں شامل ہوا اور اس نے حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کے اصول، اساس اور بنیادیں تک تبدیل کردی۔آج عیسائیوں کے پاس حضرت عیسی علیہ السلام کے نام سے جو کچھ ہے بہت کم تعلیمات حضرت عیسی علیہ السلام کی ہوں گی، ورنہ اکثر اصول اسی پورس نے تراش رکھے ہیں۔ چنانچہ ان کے ہاں کفارے کا عقیدہ ہے اور الوہیت کا عقیدہ ہے اور یہ جو پاپائیت کا نظام ہے یہ تمام تر اصول حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات سے متصادم ہے۔ پورس نے یہ شامل کیے تھے اور عیسائیوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ حضرت موسی علیہ السلام کے جو براہ راست صحبت یافتہ تھے ان کے واقعات معروف ہیں کہ کس قدر مختلف قسم کی وہ حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ فرمائشیں کرتے تھے۔حضرت موسی علیہ السلام اللہ کے حضور دعا کر کے ان کی وہ فرمائشیں پوری کرتے تھے۔ حضرت موسی علیہ السلام کو مصر سے ہجرت کا حکم جب اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو مصر سے نکلنے کا حکم دیا کہ اپنے ان براہ راست صحبت یافتہ حضرات جو بنی اسرائیل قبیلے سے متعلق تھے ان کو لے کے مصر سے نکلے اور جو آپ حضرات کا آبائی علاقہ ہے شام اور فلسطین وہاں جائیں۔ اب شام اور فلسطین میں قوم عمالقہ کا تسلط تھا جو بڑی جابر طاقتور قوم تھی۔ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر نکلتے ہیں، فرعون تعقب کرتا ہے، اللہ تعالی نے ان کی حفاظت فرمائی اور فرعون کو اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کے نکلے اور جب اللہ کا پیغام انہیں سنایا گیا کہ شام اور فلسطین کے علاقے کو عمالقہ کے تسلط سے آزاد کروانا ہے تو ان کی قوم نے سرکشی کی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے قوم عمالقہ کا جائزہ لینے کے لیے پہلے اپنے کچھ قریبی حضرات کو بھیجا کہ وہاں جاؤ اور ان کا جائزہ لو کہ کیا ان کی جنگی تیاری ہے؟ وہ وہاں گئے اور…

Read More

اسلام کے دو اہم اعمال

اسلام کے دو اہم اعمال عَنْ عَمَرِو بْنِ عَبَسَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللہِ، مَنْ مَّعَکَ عَلٰی ھٰذَا الْأَمْرِ؟ قَالَ:’’حُرٌّ وَ عَبْدٌ‘‘ قُلْتُ:مَا الْاِسْلَامُ؟ قَالَ: طِیْبُ  الْکِلَامِ، وَ اِطْعَامُ الطَّعَامِ۔‘‘ (ابن حنبل،احمد بن حنبل، م:241ھ،مسند احمد بن حنبل،رقم الحدیث:19435، ص:32/177، موسسہ الرسالہ، ط: الاولیٰ1421ھ) مفہوم حدیث: حضرت عمرو بن عبسہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میںنےرسول اللہﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! اسلام کیا چیز ہے؟ تو نبی کریم ﷺ نے  ارشاد فرمایا کہ اچھی گفتگو کرنا اور لوگوں کو کھانا کھلانا۔ تشریح: انسان کو اللہ جل جلالہ نے قوت گفتار کی وجہ سے حیوانات سے ممتاز بنایا ہے کہ انسان اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے اور یہ گفتگو انسان کو دوسرے انسانوں سے بھی ممتاز کرتی ہے۔ گفتگوکسی بھی شخص کی شخصیت کاآئینہ دارہواکرتی ہےکہ اگرآپ کسی شخص سےبات کریں،اس کی گفتگوسنیںتوچندلمحات میںہی آپ اس کے اوصاف اور قباحتوں سے واقف ہوجائیںگے۔گفتگوکی اہمیت کی و جہ سےقرآن کریم نے مسلمانوںکوگفتگو کےآداب سکھائےہیں۔مثلاً ایک بہت بڑا ادبی اصول گفتگوکایہ ہےکہ جب انسان کوئی بات کرےتوصاف ستھری ا ور سیدھی بات کرے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا ۔ (سورۃ الاحزاب:۷۰) ’’اےلوگو! اللہ تعالیٰ سےڈرواورصاف ستھری اورسیدھی بات کیاکرو ۔‘‘ قولِ سدید ایسی بات کوکہتےہیںجوسیدھی سادھی ہوکہ مخاطب اس کوایک لمحے میں سن کرسمجھ لے۔ آج کل جوذومعنی اورلچھےدارقسم کی گفتگو کی جاتی ہے وہ شریعت کی نظرمیںناپسندیدہ ہے۔ یہ گفتگوکاپہلااصول ہے۔ ایک اصول گفتگو کا یہ ہے کہ کہ جب بھی بات کرنی ہوتوکوئی اچھی بات کی جائے۔نبی کریم ﷺ نےارشادفرمایاکہ یاتوخاموش رہو اوراگربات کرنی ہو تو کوئی اچھی بات کرو، جس سےمخاطب کوکوئی فائدہ ہو، اسکےپاس کوئی اچھامیسج جائے۔ ایک ادب گفتگوکاہےکہ جب بھی بات کرنی ہوںتولہجہ نرم ہوناچاہیے ۔ چنانچہ قرآن کریم میںاللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰd کا واقعہ نقل کیا، جب ان کوفرعو ن کے پاس بھیجا جارہا تھا توساتھ انہیںنصیحت فرمائی گئی کہ فرعون کے ساتھ نرم لہجہ میں گفتگوکرنا۔ فرعون اس روئےزمین پراللہ تعالیٰ کاسب سے بڑا باغی تھا۔جب اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰd جیسےپیغمبرکونرم لہجے میں گفتگوکرنےکی تلقین فرمائی،تو ایک مسلمان کے ساتھ دوران گفتگو لہجہ سخت کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ اس لیےگفتگوکےمختلف آداب ہیں اوران میںسب سےزیادہ قابل توجہ ادب یہ ہے ،کہ لہجہ نرم رکھا جائے۔ وہ لوگ جن کی ما تحت میں کچھ افرادہوں، ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہےکہ اپنےماتحتوںکےساتھ ہرممکن طریقہ سے نرم اندازسے گفتگوکیاکریں۔ اس روایت سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اپنےملنے جلنے والے، اپنے بھائیوں،اورپڑوسیوںسےجب بھی گفتگوکرنی ہوتواپنے لہجے کو بطور خاص مدنظر رکھنا چاہیے کہ لہجے میں سختی نہ آئے۔ درس حدیث نمبر:39

Read More