کھانا کھلانے کی فضیلت

کھانا کھلانے کی فضیلت عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ قَالَ: ’’تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ۔ (بخاری،محمد بن اسماعیل البخاری،م:256ھ،صحیح البخاری،رقم الحدیث:12، ص:1/12، دار طوق النجاہ،ط:1422ھ) مفہوم حدیث: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا، اسلام کے اعمال میں سے سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر ایک کو سلام کرنا خواہ وہ تمہیں جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ تشریح: اسلام میں مخلوقِ خدا کی خدمت کو اہم مقام حاصل ہے۔مخلوق کی خدمت خالق تک پہنچنے کا آسان راستہ ہے۔اسلامی تعلیمات اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ مخلوق کی خدمت کے حوالے سے بظاہر معمولی نوعیت کے امور کو بھی باقاعدہ موضوع بنا کر سمجھایا گیا ہے۔اس روایت میں بھی دو ایسے آسان افعال کا ذکر ہے،جن کا تعلق مخلوقِ خدا کی خدمت سے ہے۔ یہ نہایت آسان ہے کہ آپ راستے میں آتے جاتے کسی کو سلام کریں، خواہ آپ اس کو جانتے ہوںیانہ جانتےہوں۔ اسی طرح بندوں کو کھانا مہیا کرنا بھی نہایت عظیم عمل ہے۔ کھانا کھلانا ایساعمل ہےکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ اس کی تاکید فرمائی ہے، اور استطاعت کے باوجود لوگوں کو کھانا نہ کھلانے پر مذمت بیان فرمائی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ایک جگہ جنتی لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیںکہ یہ جنتیوں کا ایک نمایاں وصف ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔اہلِ جہنم کے نمایاں اوصاف بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کی آیت ہے: مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۝۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۝۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۝۴۴ۙ (سورۃ المدثر:۴۲ تا ۴۴) ’’جب جہنمی لوگوں سے سوال ہوگا کہ تم کو جہنم میں کس چیز نے  پہنچایا ہے؟ تو وہ جواب میں کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے  تھے اور مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔‘‘ ان دونوں آیات میں یہ واضح کردیا کہ کھانا کھلانا اہل جنت کے اوصاف میں سے ہے اور کھانا نہ کھلانا یا بخل کرنا اہلِ جہنم کے اوصاف میں سے ہے۔ معاملہ میرے اور آپ کے ہاتھ میں ہے کہ ہم جنتیوں کا وصف اختیار کرتے ہیں جا جہنمیوں کا۔نیز یہ بھی سمجھ لیجئے کہ کھانا کھلانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی کو مہنگا کھانا کھلائیں یا پرتکلف ڈش کھلائیں۔ بلکہ یہ تو آپ کی وسعت پر ہے کہ آپ کتنا اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کے وسعت کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے جس شخص کا جتنا بس چلے، جتنا اس کا اختیار ہو اسی قدر وہ لوگوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام کرے۔

Read More

توکل کی حقیقت

توکل کی حقیقت عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لو أنكم كنتم توكلون على اللہ حق توكله لرزقتم كما يرزق الطير تغدو خماصا وتروح بطانا۔ (ترمذی ،محمد بن عیسی الترمذی م: 279ھ ،جا مع الترمذی،رقم الحدیث: 2344،ص: 151،ج: 4 ،دار الغر ب الاسلامی -بیروت) مفہوم حدیث: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا اگر تم اللہ جل جلالہ پر مکمل طریقے سے ایمان یا توکل کرتے تو تمہیں پرندوں کی طرح رزق دیتا ، جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ کے ساتھ واپس آتے ہیں ۔ تشریح: اس روایت میں توکل کی اہمیت کا بیان ہے ،توکل ایمان کی حقیقت اور بنیاد ہے ۔انسان کا توکل جتنا زیادہ ہوتاہے اس قدر اس کا ایمان مضبوط اور حلاوت والا ہوتا ہے۔ توکل اللہ تعالیٰ پر بھروسے کو کہتے ہیں کہ اپنے شب و روز کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ،اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا یہ توکل کہلاتا ہے ۔لیکن ایک اہم بات سمجھ لیجیے کہ توکل بیکار بیٹھنے کا نام نہیں، بلکہ عمل اور محنت کر لینے کے بعد نتیجہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے کا نام توکل ہے۔ اس کی وضاحت یوں ہے کہ انسان کا جو بھی عمل ہوتا ہے وہ دو مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ 1۔آپ کی محنت 2۔اور محنت کے بعد اس کا فائدہ محنت کے مرحلے میں یہ توکل نہیں ہے ،کہ میں گھر بیٹھ جاؤں، بیمار ہوں ،یا بیروزگار ہوں،اور میں گھر بیٹھ کر شفا یا رزق کا انتظار کرو ں،اس معاملے میں توکل نہیں ہوتا، بلکہ انسان نے محنت کرنی ہوتی ہے۔ اگر بیمار ہے تو شفا کے اسباب تلاش کرے، ڈاکٹر تلاش کرے، اگر بیروزگار ہے تو روزگار کا کوئی ذریعہ تلاش کرے،سبب اختیار کرنے کے بعد نتیجہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے یہ توکل ہے۔ توکل کرلینے کے بعد انسان کی دنیا بھی آسان اور آخرت بھی آسان ہو جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے ایک اور روایت ہے کہ ایک صحابی نبی کریم ﷺسے اونٹنی کے بارے میں پوچھتے میں کہ ’’یا رسول اللہﷺ! میں اونٹنی کو کھلا چھوڑ دو ں اور توکل کروں یا اس کو باندھ دوں اورتوکل کروں؟ ‘‘ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِعْقِلْھَا ثُمَّ تَوَکَّلْ۔(سنن الترمذی :2517) ’’پہلے اونٹنی کو اچھے طریقے سے باندھواسکے بعد پھر توکل کرو‘‘۔ اس حدیث سے بھی یہی بات واضح ہوئی ہےکہ کہ جب کوئی بھی معاملہ ہو، انسان خود محنت کرے،مشقت اٹھائے، پھر اس کے بعد نتیجے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے اسی کا نام توکل ہے۔ اور اسی سے آدمی کے ایمان میں حلاوت پیدا ہوتی ہے ،اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہوتا ہے۔

Read More

مہمان کا اکرام

مہمان کا اکرام وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ۔ (مسلم،مسلم بن حجاج القشیری(م :261ھ،صحیح المسلم، رقم الحدیث74،ص1/68، داراحیاء التراث العربی،بیروت) مفہوم حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ تشریح: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ہر ایک بندے پر ایک دوسرے کے حقوق مقرر کیے ہیں۔ان حقوق میں سے ایک حق مہمان نوازی ہے۔ کہ اگر کوئی مہمان آپ کے پاس آتا ہے تو اس کا آپ کے اوپر حق ہے کہ آپ اس کا اکرام کریں۔اس کی مہمان نوازی کریں،شریعت کی تعلیمات بڑی آسان ہوا کرتی ہیں، شریعت آپ کو اس چیز کا پابند نہیں کرتی کہ آپ کوئی ایسا کام کریں جوآپ کے بس میں نہ ہو۔مہمان نوازی کے سلسلے میں بھی شریعت نے بڑی آسان تعلیمات دی ہیں کہ جو کچھ آپ کے بس میں ہے آپ مہمان کے لیے کریں ۔ حضرت سلما ن رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نَھَانَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَّتَکَلَّفَ لِلضِّیْفِ مَا لَیْسَ عَنْدَنَا۔ (مجمع الزوائد:13629) ’’نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ مہمان نوازی کے لیے ایسا کام نہ کریں جو ہمارے بس میں نہ ہو ، (تکلفات میں نہ پڑیں۔بلکہ جو کچھ گھر میں موجود ہو وہ مہمان کے سامنے لاکر حاضر کریں)۔‘‘ یہ شریعت کا ایک سیدھا سادہ اصول ہے،اس کے برعکس ہماری ترجیحات مختلف ہوتی ہیں ۔جب ہمارا کوئی مہمان ہم سے ملنے آتا ہے،اگر وہ ہماری جان پہچان کا ہو اس کے ساتھ دوستی ہوگی ،یا ہمارا کوئی مفاداس سے وابستہ ہوگا تو پھر اس کے لیے مختلف قسم کےتکلفات کئے جاتے ہیں، اور اپنی استطاعت سے بڑھ چڑھ کر اس کے لیے اہتمام کیا جاتا ہے۔اور بعض اوقات اس اہتمام کے سلسلے میں مشکلات بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔لیکن اگر کوئی غریب مسلمان ہم سے ملنے آئے جس سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو، تو بعض اوقات اس کو مہمان خانے میں بٹھانے سے بھی گریز کیا جاتا ہے،اس کے اکرام کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ شریعت کی تعلیمات کا تقاضا یہ ہے کہ میں اور آپ اپنی ترجیحات تبدیل کریں، اگر کوئی ملنے کے لیے آپ کے گھر آتا ہے تو اس کو مہمان سمجھتے ہوئے اس کا حق ادا کریں،البتہ کسی تکلف میں نہ پڑیں ۔ حضرت سلمان فارسی h کا ایک واقعہ ہے کہ انکے پاس کچھ مہمان آئے،جو کچھ گھر میں موجود تھاانہوں نے مہمانوں کوپیش کیا۔ روایت میں آتا ہے کہ روٹی کے ساتھ نمک انہوں نے مہمان کی خدمت میں حاضر کیا اور فرمایا کہ ہمیں نبی کریم ﷺنے تکلف سے منع کیا ہے۔ تو یہ جو کچھ تھا آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ مہمان نے نمک میں ڈالنے کے لیے کوئی چیز مانگی جو حضرت سلمانh کے ہاں نہیں تھی، تو انہوں نے اپناوضو کرنے والا برتن سبزی والے کے پاس رہن رکھوا کر ان کا مطالبہ پورا کیا ۔(کھانے کے بعد) مہمان نے دعا کی کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے ہمیں موجودہ حالات پر قناعت کرنے کی توفیق عطا کی۔ تو حضرت سلمان hنے فرمایا کہ اگر تم موجود ہ رزق پر قناعت کرتے تو پھر میرا وضو کا برتن سبزی والے کے پاس نہ رکھا ہوتا ۔(مستدرک حاکم: 7146) اس روایت سے یہ ادب معلوم ہوا کہ مہمان کو چاہئےکہ میزبان جو کچھ بھی پیش کرے، اسے محبت کے ساتھ قبول کرے، اور کسی قسم کی شکایت نہ کرے۔ مہمان اور میزبان کے سلسلے میں یہ بڑی سیدھی سادھی تعلیمات ہیں۔ اگر ان پر عملدرآمد ہو اور ہر آنے والے ملاقاتی کو اہمیت دی جائے، اللہ تعالیٰ کا بندہ سمجھ کراس کو مہمان کا حق دیا جائے، تو پھر معاشرے میں محبتیں پھیلتی ہیں اور لوگوں کے درمیان اچھے تعلقات پروان چڑھتے ہیں۔

Read More

توکل کی حقیقت

توکل کی حقیقت عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لو أنكم كنتم توكلون على اللہ حق توكله لرزقتم كما يرزق الطير تغدو خماصا وتروح بطانا۔ (ترمذی ،محمد بن عیسی الترمذی م: 279ھ ،جا مع الترمذی،رقم الحدیث: 2344،ص: 151،ج: 4 ،دار الغر ب الاسلامی -بیروت) مفہوم حدیث: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا اگر تم اللہ جل جلالہ پر مکمل طریقے سے ایمان یا توکل کرتے تو تمہیں پرندوں کی طرح رزق دیتا ، جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ کے ساتھ واپس آتے ہیں ۔ تشریح: اس روایت میں توکل کی اہمیت کا بیان ہے ،توکل ایمان کی حقیقت اور بنیاد ہے ۔انسان کا توکل جتنا زیادہ ہوتاہے اس قدر اس کا ایمان مضبوط اور حلاوت والا ہوتا ہے۔ توکل اللہ تعالیٰ پر بھروسے کو کہتے ہیں کہ اپنے شب و روز کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ،اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا یہ توکل کہلاتا ہے ۔لیکن ایک اہم بات سمجھ لیجیے کہ توکل بیکار بیٹھنے کا نام نہیں، بلکہ عمل اور محنت کر لینے کے بعد نتیجہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے کا نام توکل ہے۔ اس کی وضاحت یوں ہے کہ انسان کا جو بھی عمل ہوتا ہے وہ دو مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ 1۔آپ کی محنت 2۔اور محنت کے بعد اس کا فائدہ محنت کے مرحلے میں یہ توکل نہیں ہے ،کہ میں گھر بیٹھ جاؤں، بیمار ہوں ،یا بیروزگار ہوں،اور میں گھر بیٹھ کر شفا یا رزق کا انتظار کرو ں،اس معاملے میں توکل نہیں ہوتا، بلکہ انسان نے محنت کرنی ہوتی ہے۔ اگر بیمار ہے تو شفا کے اسباب تلاش کرے، ڈاکٹر تلاش کرے، اگر بیروزگار ہے تو روزگار کا کوئی ذریعہ تلاش کرے،سبب اختیار کرنے کے بعد نتیجہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے یہ توکل ہے۔ توکل کرلینے کے بعد انسان کی دنیا بھی آسان اور آخرت بھی آسان ہو جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے ایک اور روایت ہے کہ ایک صحابی نبی کریم ﷺسے اونٹنی کے بارے میں پوچھتے میں کہ ’’یا رسول اللہﷺ! میں اونٹنی کو کھلا چھوڑ دو ں اور توکل کروں یا اس کو باندھ دوں اورتوکل کروں؟ ‘‘ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِعْقِلْھَا ثُمَّ تَوَکَّلْ۔(سنن الترمذی :2517) ’’پہلے اونٹنی کو اچھے طریقے سے باندھواسکے بعد پھر توکل کرو‘‘۔ اس حدیث سے بھی یہی بات واضح ہوئی ہےکہ کہ جب کوئی بھی معاملہ ہو، انسان خود محنت کرے،مشقت اٹھائے، پھر اس کے بعد نتیجے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے اسی کا نام توکل ہے۔ اور اسی سے آدمی کے ایمان میں حلاوت پیدا ہوتی ہے ،اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہوتا ہے۔

Read More

دعوت قبول کرنا

دعوت قبول کرنا عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’أِذَا دُعِیَ أَحَدُکُمْ فَلْیُجِبْ، فَإِنْ شَاءَ طَعَمَ، وَ إِنْ شَاءَ تَرَکَ۔‘‘ (ابن حنبل ،احمد بن حنبل ،م:241ھ ،مسند احمد بن حنبل،رقم الحدیث ؛15218 ص:386ج:23،ناشر:موسسۃ الرسالۃط:الاولیٰ1421ھ) مفہوم حدیث: حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کودعوت دی جائے تو دعوت کوقبول کیا کرو ،اور پھر اگرکھانے کی خواہش نہ ہو تو مت کھاؤ ۔ تشریح: شریعت نےایک معاشرے میں امن اور سکون کے قیام کے لئے جو سیدھے سادھے اصول بتلا رکھے ہیں ،ان میں ایک اہم اصول یہ بھی ہےکہ جب معاشرے کا کوئی فرد آپ کو دعوت دے کھانے کے لئے ،باہمی محبت پھیلانے کے لئےیا، ایک دوسرے کے لئے دل میں محبت کے جذبات پیدا کرنے کے لئے،تو یہ ضروری ہے کہ دوسرے کی دعوت کو قبول کیا جائے۔اور اس میںاس بات کو پیش نظر نہ رکھا جائے میرا سٹیٹس تو اونچا ہے،یا میری شان تو اعلیٰ ہےاور جو دعوت دے رہا ہےوہ کمتر درجے کا ہے۔ یہ فرق رکھنا اسلام کی روح کے منافی ہے۔ سرکاردوعالمﷺ کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ نبیﷺ غلاموں کی دعوت بھی قبول فرمایا کرتے تھے،خواہ وہ جوکی روٹی پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو۔ اس زمانے میں غلاموں کا طبقہ سب سے کمزور شمار کیا جاتا تھا یہ وہ لوگ تھے جن کا نہ کوئی گھر تھا، نہ کوئی رہائش تھی ، بلکہ اپنی جان پر بھی انکی ملکیت نہیں تھی، کسی دوسرے کی ملکیت میں ہوا کرتے تھے ۔اس طرح کا کوئی غریب انسان اگر نبی کریمﷺ کی دعوت کرتا تو آپ ﷺ اس کی دعوت کو بخوشی قبول فرما لیا کرتے، رسول اللہ ﷺ کو چاہے زمین پر بیٹھ کر ہی کیوں نہ کھانا پڑے ۔لیکن ایسےطبقات کی دعوت قبول کرتے تھے۔ اس میںمیرے اورآپ کےلئےدرس ہےکہ معاشرےکاکوئی فرد بھی آپ کو دعوت دے ، اوراس کی دعوت قبول کرنے میں آپ کے اوقات کا اور مصروفیات کا کوئی حرج نہ ہوتا ہو، تو مناسب یہ ہوتا ہے کہ اس کی دعوت کو قبول کرلیا جائے۔ اور اگر کھانے کی طلب نہ ہو پھر بھی انسان کو جانا چاہئے، تاکہ اس کی دعوت قبول ہوجائے۔ پھر اپنی سہولت کیلئے کھانا کھانے سے انکار کی گنجائش ہے۔ یہ شریعت کے وہ اہم اصول ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے کسی بھی معاشرے میں افراد کے درمیان باہمی محبت پیدا ہوتی ہے، بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے، دلوں  میں دوریاں کم ہوتی ہیں اور لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔

Read More

مسلمان بھائی کا احترام کیجئے

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’لَا تُمَارِ أَخَاكَ، وَلَا تُمَازِحْهُ، وَلَا تَعِدْهُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَهُ۔‘‘ (ترمذی،محمد بن عیسی الترمذی،م:279ھ،سنن الترمذی،رقم الحدیث:1995، ص:4/359، شرکہ المکتبہ ومطبعہ مصطفیٰ البابی الحلبی مصر،ط:الثانیہ 1395ھ) مفہوم حدیث: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریمﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہےکہ تم اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا مت کرو،اور نہ اس کے ساتھ ایسا مذاق کرو جو جھگڑے کا سبب بنے،اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کروجس کو تم پورا نہ کر سکو۔ تشریح: انسان اس دنیا میں مختلف تعلقات کی بنیاد پر زندگی بسر کرتا ہے۔ گھر کے اندر انسان کے رشتے اور تعلقات ہوتے ہیں اور گھر کے باہر محلے داری ہوتی ہے، دوستیوں کے رشتے ہوتے ہیں۔ اور جب یہ تمام رشتے اورتعلقات خوش گوار ہوں، توانسان کی زندگی معمول کے مطابق ہوتی ہے۔اور اگر ان رشتوں میں تلخیاں پیدا ہوں، تو انسان کی زندگی معمول سے ہٹ کر تلخ ہو جاتی ہے۔ایسا انسان ذہنی طور پر بھی دباؤ میں رہتا ہے۔اور یہ بات طے شدہ ہےجو انسان ذہنی طور پر پریشان حال ہووہ نہ دینی طور پر کوئی کارنامہ انجام دے سکتا ہے،اور نہ ہی دنیاوی طور پر کام کاج کرنے کے لائق ہوتا ہے۔کوئی بھی اہم کام کرنے کے لئےانسان کا ذہنی طور پر مطمئن ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جھگڑا اوراختلافات انسان کو ذہنی طور پرپریشان کرنے کے اہم اسباب میں سےہیں۔اس لئے رسول اللہﷺ نےاختلافات ختم کرنے کی ہدایات دیں اور جھگڑے نہ کرنے کے احکامات صادر فرمائے۔ ایک روایت میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: ’’کیا میں تم لوگوں کو ایسی چیز نہ بتاؤں جو نماز ،روزےاور زکوۃسے بھی زیادہ افضل ہو‘‘اور پھر اس اہم چیزکی نشان دہی کرتے ہوئےنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’آپس کے تعلقات کو بہتر بنالینا گویا نفلی نماز ،زکوٰۃ،صدقہ سے بھی افضل ہے‘‘ اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ،کہ آپس کے تعلقات کو خراب کر دیناانسان کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ جو روایت ہم نے آج پڑھی، اس میں بھی نبی کریمﷺ نےہدایت کی ہےکہ جھگڑا کرنے سے پرہیز کرو۔زبان ِنبوت انسانی نفسیات کی باریکیوں کا بھی ادراک رکھتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے تعلقات میں خرابی اور جھگڑا کرنے کے دو اہم اسباب بیان فرمائے،کہ اکثر اوقات جب دو دوست آپس میں مذاق کرتے ہیں، یا دو رشتے دار مذاق میںحدود پار کر جاتے ہیں، تو اس طرح کا مذاق بھی جھگڑے کا سبب بنتا ہے۔اس لئے نبی کریمﷺ نےایسا مذاق کرنے سے منع کیا ہے جو آدمی کے تعلقات میں دراڑیں پیدا کرے۔ بعض اوقات آدمی کسی سے وعدہ کر لیتا ہےاور اس کو پورا نہیں کر پاتا اس کی وجہ سے اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔تو جھگڑے کے دوسرے سبب کی نشاندہی کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نےایسا وعدہ کرنے سے منع فرمایاجس کو ہم پورا نہ کر سکیں اور اگلے بندے کی توقعات جو ہم سے وابستہ ہوں پوری نہ ہوں،اور پھر اختلافات پیدا ہوں،آپس کی رشتہ داریاں نبھانی چاہئیں اور اچھے تعلقات رکھتے ہوئےجب انسان کی زندگی معمول پر ہو پھر انسان عبادت بھی سر انجام دے سکتا ہے اور دنیاوی کام کاج بھی توجہ سے کر سکتا ہے۔

Read More

حُسنِ اخلاق کی اہمیت

حُسنِ اخلاق کی اہمیت عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’مَا مِنْ شَيْءٍ أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ۔‘‘ (ابو داود سلیمان بن اشعث م:275 ھ سنن ابی داود،رقم الحدیث:4799 ص:253/ج:4، ناشر:المکتبہ العصریہ،صیدا-بیروت) مفہوم حدیث: حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہےکہ قیامت والے دن انسان کے حسن اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ تشریح: انسان اس دنیا میں جو بھی عمل کرتا ہے،یازبان سے جو بھی لفظ نکالتا ہے،قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر لفظ اورعمل کاحساب دینا ہوگا۔حساب کتاب کے لیے اللہ تعالیٰ ایک ترازو قائم فرمائیں گے۔اس ترازو میں نیکیوں کا پلڑہ بھاری ہونے کی صورت میں انسان کوابدی کامیابی ملے گی۔ اورنیکیوں کے پلڑے کے ہلکا ہونے کی صورت میں انسان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ۝۶ۙ فَہُوَفِيْ عِيْشَۃٍ رَّاضِيَۃٍ۝۷ۭ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ۝۸ۙ فَاُمُّہٗ ہَاوِيَۃٌ۝۹ۭ (سورۃ القارعہ: ۶ تا ۹) ’’جس شخص کا ترازو بھاری پڑ گیا تو اس کو ایک اچھی سہولت والی زندگی ملے گی ۔اور جس کا ترازو ہلکا پڑ گیا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔‘‘ گویا انسان کی اس دنیا میں تمام اعمال کا دارومداراس ترازو کے بھاری ہونے پر ہے،کہ اگر اس میں حسنات کا پلڑہ بھاری پڑ گیا،نیکیوں کی تعداد زائد ہوئی، تو انسان کو ہمیشہ کے لئے کامیابی ملے گی۔ آج کل طلباءامتحان کی تیاری اس انداز سے کرتے ہیں کہ اہم سوالات کی تیاری کرلی،یا کوئی خلاصہ،نوٹس کی تیاری کرلی، اس طریقےسے امتحان میں کامیابی یقینی بناتے ہیں۔ سرکار دوعالم ﷺ نے اس روایت میں آخرت کی تیاری کے لئے ایک اہم سوال کی نشان دہی فرمائی ہے۔ اور وہ ہے’’اچھے اخلاق‘‘ اگر کسی کی خواہش ہو کہ میرے نامہ اعمال میں ایک ایسی چیز ہو،جوترازو کو جھکانے میں، حسنات کا پلڑہ بھاری کرنے میں اہم کردار ادا کرےتو وہ آپ کے اچھے اخلاق ہیں۔ اچھے اخلاق کا مطلب بندے کے ساتھ اپنےبرتاؤ اور روئیے کو درست رکھنا ہے۔چاہے وہ آپ کے والدین ہوں،اعزہ و اقربا ہوں ،دوست احباب یا ملنے جلنے والے ہوں ،ان کے ساتھ اپنا روایہ اچھا رکھنا۔ قول اور فعل سےکسی کی ایذاءرسانی سے پرہیز کرنااور اس بات کوشش کرنامیرے ہر عمل اور قول سےکسی نہ کسی شخص کو فائدہ ہو،اچھے اخلاق کے زمرے میں آتا ہے۔ بعض اوقات آپکے دوست یا تعلق والے کچھ مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے موقع پر کسی مصیبت زدہ شخص کو تسلی کے دو لفظ کہہ دینا بہت بڑی نیکی ہے۔کسی بزرگ کو سڑک پار کروانا،کسی بیوہ کو گھر کا سودا سلف لادینا،ایسے افعال ہیں،جو اچھے اخلاق میں شمار ہوکر قیامت کے دن انسان کے نامہ اعمال کو رونق عطا کرتے ہیں۔

Read More

خیانت سے بچیں

خیانت سے بچیں قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الغُلُولَ فَعَظَّمَهُ وَعَظَّمَ أَمْرَهُ، قَالَ: ’’لاَ أُلْقِيَنَّ أَحَدَ كُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ، عَلَى رَقَبَتِهِ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللہِ  أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ، وَعَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللہِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ، وَعَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللہِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ، أَوْ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللہِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ۔‘‘ (بخاری ،محمد بن اسماعیل البخاری م: 256ھ،صحیح البخاری،رقم الحدیث :3073ص :74،ج:4/ناشر :دارطوق النجاہ،ط: الاولیٰ 1422ھ) مفہوم حدیث: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا مفہوم ہےکہ نبی کریم ﷺایک مرتبہ خطبہ دینے کےلیے کھڑے ہوئےاورآپ نے غلول یعنی خیانت کا تذکرہ کیا۔اوراس کو آپ نےعظیم جرم اور بھاری گناہ قرار دیا،اور آپﷺ نے ارشاد فرمایاتم میں سے کوئی شخص قیامت میں مجھ سے اس حال میں نہ ملےکہ اس کی گردن پر بکریاں ممیا رہی ہوں،یا گھوڑے ہنہنا رہےہوں۔اور وہ مجھ سے کہےیا رسول اللہ میری مدد کیجیےاور میں اس سے کہوںمیں تمھارے معاملے میں کچھ اختیار نہیں رکھتاکیونکہ میں تم تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا چکا تھا۔اور اس کی گردن پر سونے یاچاندی کےٹکڑے لادے ہوں،اور وہ مجھ سے مدد طلب کرےاور میں اس سے کہوںکہ میں تمہارے معاملے میں کچھ اختیار نہیں رکھتامیں تو تم تک پیغام پہنچا چکا تھا۔اور یا اس کی گردن پرکپڑے کے ٹکڑےحرکت کررہے ہوں،اور وہ مجھ سے مدد طلب کرےاور میں اس سے کہوںمیں تمہارے معاملےمیںاختیار نہیں رکھتا میںتوتم تک پیغام پہنچا چکا تھا۔ تشریح: قرآن کریم کی ایک آیت ہےکہ جو شخص خیانت کرے گاقیامت والے دن وہ اپنی خیانت کردہ ،یا چوری کردہ چیز کو لے کر حاضر ہوگا۔لفظ ِغلول خاص طور پرمال غنیمت میں چوری کو کہا جاتا ہے۔لیکن اس کا استعمال ہر قسم کی خیانت اور چوری میں ہوتا ہے۔شریعت نے مسلمان کی تربیت اس منہج پر کی ہےکہ مسلمان اعلیٰ قسم کا امین ہو۔ اس لیےرسول اللہ ﷺ نے خیانت کوجرم قرار دیا۔ آج جو روایت پڑھی گئی ہے،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چوری اور خیانت ایسا جرم ہے کہ اس گناہ کی نحوست کی وجہ سے وہ آدمی رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے بھی محروم رہے گا۔ رسول اکرم ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔اور اس میں خیانت کو آپ نے بد ترین جرم قرار دیا،اور مختلف اموال کا ذکرکیااس زمانے میں گھوڑے،مویشی،کپڑا اور سونے ہی کو مال سمجھا جاتا تھا۔ نبیﷺنے مال کی ان مختلف اقسام کاذکر فرمایا اور امت کو وصیت فرمائی کہ ایسا نہ ہوکہ تم دنیا میں چوری کرو،اور خیانت کرو،اور قیامت والے دن وہ مال تمہاری گردن میں لادا ہوا ہو۔چاہے وہ گھوڑے ہوں ،بکریاں ہوں،چاہے وہ سونا یا چاندی ہو، کپڑے ہوں،یا آج کل کے اعتبار سے کرنسی کی چوری ہو،خواہ کسی بھی قسم کی چوری ہو، قیامت والے دن انسان وہ مال اپنی گردن پر لاد کر حاضر ہوگا اور رسول اللہ ﷺ سے جب وہ امداد طلب کرے گایا شفاعت طلب کرے گا۔تو نبی کریم ﷺ اس کی شفاعت سے انکار فرمائیں گے، کہ میں تمہارے معاملے میں اختیار نہیں رکھتا میں تو تم تک پیغام پہنچا چکا تھا۔اب تم نے اس پر عمل نہیں کیااور خیانت کے مرتکب ہوئے ہو، لہٰذا آج بارگاہ الٰہی میں قیامت کے دن میری شفاعت سے تم محروم رہوگے۔ اس روایت میں میرے اور آپ کے لیے بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ جو لوگ ملازمت پیشہ ہوتے ہیں،جائےملازمت اور دفتر ان کے لئے امانت کی جگہ ہے،دفتر میں جتنی بھی اشیاء ہوں ،وہ ملازم کے پاس امانت ہوتی ہیں۔بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام لمحات میں امانت و دیانت کا پابند ہے۔کسی قسم کی خیانت کرنا نبی کریم ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔

Read More

اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کیجئے

اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کیجئے عن علي بن أبي طالب، قال: كنت شاكيا فمر بي رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وأنا أقول: اللهم إن كان أجلي قد حضر فأرحني، وإن كان متأخرا فارفعني، وإن كان بلاء فصبرني۔ فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: ’’كيف قلت؟ ‘‘ فأعاد عليه ما قال، قال: فضربه برجله وقال: ’’اللهم عافه، أو اللهم اشفه۔‘‘ (ابن حنبل،احمد بن حنبل م:241ھ، مسند احمد بن حنبل رقم الحدیث:841، ص:205، ج:2، ناشر:موءسسہ الرسالہ، ط:الاولیٰ1421ھ) مفہوم حدیث: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ بیمار تھا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ یا الله! اگر میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے تو مجھے اس بیماری سے راحت عطا فرما،اور مجھے اپنے پاس بلا لیجئے ۔اور اگر ابھی وقت نہیں آیا تو مجھے اٹھا لیجئے، اور اگر یہ بیماری میری آزمائش کیلئے ہے تو مجھے صبر عطا فرمائیں۔نبی کریمﷺ کا گزر میرے پاس سے ہوا تو میں یہ دعا کر رہا تھا ،رسول اللهﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کیا کہا؟ تو میں نے اپنے کلمات دہرا دئیے توحضوراکرم ﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور یہ دعا فرمائی کہ یاالله! اس کوعافیت عطا فرما اور شفاءعطافرما۔ تشریح: اس دنیا میں انسان پر کبھی خوشی آتی ہے، اور کبھی اسے مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خوشی بھی ایک قسم کی آزمائش ہوتی ہے،اور انسان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ بھی اس کے لئے امتحان ہوتا ہے۔الله تعالیٰ کبھی انسان پر اپنی نعمتیں کھول دیتے ہیں، اور کبھی انسان کو اپنی کچھ نعمتوں سے محروم فرما دیتے ہیں، اس لئے ہر وقت الله تعالیٰ سے عافیت طلب کرنی چاہئے۔ یہ عافیت یوں تو ایک لفظ ہے۔ لیکن یہ اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔انسان کی دینی اور دنیاوی زندگی میں،یا اس دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی میں، ہر قسم کے خیر کا حصول اور ہر قسم کے شر سے حفاظت کوعافیت کہتے ہیں۔ اور اسکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ رسول اللهﷺ الله تعالیٰ  سے بہت کثرت سے عافیت طلب کیا کرتے تھے۔ بعض محدثین فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے الله تعالیٰ سے سب سے زیادہ عافیت کی دعا مانگی ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریمﷺ صبح وشام یہ کلمات دہرایا کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَ دُنْیَایَ۔ (کنز العمال:4957) ’’اے اللہ! میں آپ سے معافی اور عافیت طلب کرتا ہوں دنیا اور آخرت کے امور میں۔‘‘ تو اس میں ہمارے لئے بھی ایک تعلیم ہے کہ ہر وقت الله تعالیٰ سے عافیت مانگنی چاہیے۔ اور آج کی اس روایت میں بھی آپ نے سنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بیماری کے دوران نبی کریمﷺ نے یہی تلقین فرمائی کہ الله تعالیٰ سے عافیت طلب کرو۔ بالخصوص اس فتنوں کے دور میں جس میں میں اور آپ جی رہے ہیں ۔ جہاں انسان کو فتنوں کی آمد کا پتہ نہیں چلتا ،اور انسان دین اور دنیا کےمعاملے میں کسی فتنے کا شکار ہو جاتا ہے۔ تو ایسے دور میں اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ الله تعالیٰ سے ہمیشہ عافیت طلب کی جائے،دنیا کے بارے میں بھی اور آخرت کے بارے میں بھی۔

Read More

پریشانی ختم کرنے کی دعا

پریشانی ختم کرنے کی دعا مفہوم حدیث: حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کرب اور پریشانی کے وقت یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ ’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَ رَبُّ الْأَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ‘‘. ترجمہ : اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے جو بڑا عظیم اور بردبار ہے، اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے جو عرش عظیم کا مالک ہے، اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو زمین و آسمان اور عرش کریم کا رب ہے۔ صحیح مسلم

Read More