رات کو سونے سے پہلے وضو کرنے کے فوائد

قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’مَنْ بَاتَ طَاهِرًا، بَاتَ فِي شِعَارِهِ مَلَكٌ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ إِلَّا قَالَ الْمَلَكُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِكَ فُلَانٍ، فَإِنَّهُ بَاتَ طَاهِرًا‘‘۔ (ابن حبان،محمد بن حبان بن أحمد،م: 354ھ،صحيح ابن حبان،رقم الحدیث: 1051، ص:3/328، مؤسسة الرسالة، بيروت،ط: الأولى، 1408 ھ) مفہومِ حدیث: نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ جو آدمی رات کو باوضو ہو کر سوتا ہے تو فرشتہ اس کے جسم کے ساتھ لگ کر رات گزارتا ہے ۔اور جب بھی وہ بیدار ہوتا ہے تو فرشتہ اس کے لیے دعا کرتا ہے کہ یا اللہ اپنے اس بندے کی مغفرت فرما دیجیے کیوں کہ یہ رات کو باوضو ہو کر سویا ہے ۔ تشریح: مختلف روایات میں نبی کریمﷺ نے رات کو باوضو ہو کر سونے کے فضائل بیان فرمائے ہیں ۔چنانچہ اس روایت میں آپ نے سنا کہ اگر رات کو وضو کر کے سوئیں گے تو بظاہر تو یہ ایک چھوٹا سا عمل ہے۔لیکن یہ چھوٹا سا عمل آپ کو اتنا بڑا فائدہ دے رہا ہے کہ فرشتہ آپ کے لیے دعا کرتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت پر فرشتے کو مامور کر دیتا ہے اور وہ آپ کے لیے مغفرت کی دعا بھی کرتا ہے۔فرشتہ معصوم مخلوق ہے اور جب ایک معصوم مخلوق آپ کے لیے مغفرت کی دعا کرے تو یقیناً اللہ تعالیٰ انسان کی مغفرت فرما دیتے ہیں ۔ ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے رات کو باوضو ہو کر سونے کی یہ فضیلت بیان فرمائی ہےکہ اگر کوئی شخص رات کو وضو کر کے سوئے اور اسی رات اس کا انتقال ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید شمار ہوتا ہے۔(شعب الایمان : 2529) یہ باوضو ہو کر سونے کی اخروی فضیلت ہے ۔اور دنیاوی فضیلت اس کی یہ ہے کہ رات کو باوضو ہو کر سونا انسان کی صحت کی ضمانت ہے ۔کیوں کہ جب آدمی دن بھر کام کاج کرتا ہے تو اس کے جسم کے اعضاء پر مختلف قسم کے جراثیم لگ جاتے ہیں ۔ انسانی جسم کے اندر جراثیم جانے کے دو کھلے ذرائع ہیں ۔ایک تو آپ کے منہ کے ذریعے جراثیم اندر جاتے ہیں اور دوسرا ناک کے ذریعے اندر جاتے ہیں ۔اور جب انسان وضو کرتا ہے تو وضو میں کلی بھی کرتا ہے ،غرارے بھی کرتا ہے اور ناک میں بھی پانی ڈالا جاتا ہے ،ہاتھ بھی دھوئے جاتے ہیں ۔اس طرح جہاں ہاتھ،پاؤں اور چہرہ جراثیم سے پاک ہوتا ہے وہاں ناک اورمنہ کے جراثیم بھی ختم ہوتے ہیں۔ کھانے کے ذرات اگر منہ میں پھنسےہوں وہ بھی نکل جاتے ہیں ۔پھر انسان ساری رات جراثیم سے محفوظ ہو کر سوتا ہے ۔ بظاہر تووضو کر کے سونا یہ چھوٹا ساعمل ہے لیکن یہ چھوٹا سا عمل آپ کو آخرت کے اجر کے ساتھ ساتھ صحت کی بھی ضمانت دیتاہے۔اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں ۔

Read More

وضو اہتمام کے ساتھ کیجئے

وضو اہتمام کے ساتھ کیجئے فَقَالَ (ابوہریرہ): إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ ’’إِنَّ أُمَّتِي يُدْعَوْنَ يَوْمَ القِيَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ آثَارِ الوُضُوءِ۔‘‘(بخاری،محمد بن اسماعیل البخاری م:256ھ،صحیح البخاری رقم الحدیث :136،ص:39،ج:1،ناشر:دار طوق النجاہ،ط:الاولیٰ1422ھ) مفہومِ حدیث: حضرت ابوہریرہ h سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کو جب قیامت کے دن بلایا جائے گا، تو ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں وضو کے اثرات کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے۔ تشریح: طہارت وپاکیزگی اور شریعت کے مقررہ کردہ طریقہ کار کے مطابق طہارت حاصل کرنا ،یہ ایک ایسا مبارک عمل ہے کہ جس کی وجہ سے انسان شیطانی اثرات سے دور اور فرشتوں کےا ثرات کے قریب جاتا ہے۔اس لیے انسان جب حالت طہارت میں ہوتا ہےتو گناہ کی طرف اس کا میلان بہت کم ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وضو کا طریقہ کار گذشتہ امتوں میں بھی موجود تھا۔مگر اس امت کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے امتیازات عطا فرمائے ہیں ،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وضو بھی ان کے لئے ذریعہ متیاز بنایا گیا ہے۔ اس روایت میں آپ نے سنا کہ جب قیامت والے دن اس امت کے افراد کو بلایا جائے گا تو ان کے چہرے، ہاتھ ، پاؤں سمیت تمام اعضاء وضو طہارت کی وجہ سے چمکتے دمکتے ہوں گے ،اور یہی ان کی پہچان کا ذریعہ ہوگا کہ یہ سرکار دو عالم ﷺ کی امت کے باسعادت افراد ہیں۔ اسی لئے ہمارے ہاں جو ایک عام طریقہ کار ہے کہ بغیر سوچے سمجھے ، بغیرتوجہ دیے، بغیرکسی اہمیت کے وضو کر لیتے ہیں،یہ عادت ختم کرنی چاہیے وضو کو اہمیت دینی چاہئے اور سنت کا استعمال وضو میں کرنا چاہئے۔نبی کریم ﷺکے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق سوچ سمجھ کر اہتمام کے ساتھ وضو کرنا چاہیے۔

Read More

وضو کے بعد کی دعا

وضو کے بعد کی دعا ’’مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ الْوُضُوْءَ، ثُمَّ يَقُولُ حِينَ يَفْرُغُ مِنْ وُضُوئِهِ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةُ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا ۔‘‘(ابو داوود سلمان بن اشعث م: 275 ھ ،سنن ابی داوود، رقم الحدیث:169 ص:43ج:1ناشر:المکتبۃ العصریہ صیدا بیروت) مفہومِ حدیث: نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر وہ مسلمان جو اچھے طریقے سے وضو کرنے کے بعد آسمان کی طرف منہ اٹھا کر یہ کلمہ پڑھے (اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ) تو اس کے لئے جنت کے 8 دروازے کھل جاتے ہیں کہ وہ جس سے چاہے گا داخل ہوگا ۔ تشریح: ایک مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے بندگی کے اظہار کا سب سے اہم طریقہ نماز پڑھنا ہے۔ نماز کی اسی اہمیت کے پیش نظر شریعت نے یہ لازم قرار دیا ہے ،کہ جب کوئی مسلمان نماز شروع کرے تو اس کا بدن پاک ہونا چاہیے اور بدن کے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ اس کے بدن کے ساتھ ساتھ اس کا دل بھی روحانی نجاستوں اور گندگی سے پاک ہو ۔ اب یہ دواہم چیزیں ہیں کہ نماز شروع کرنے سے پہلے آپ کا بدن بھی پاک ہو اور آپ کا دل بھی پاک ہو ۔ بدن کی طہارت کے لئے انسان وضو کرلیتا ہے ،کہ جب وضو کرتا ہے تو اس کا جسم طہارت حاصل کر لیتا ہے۔اور دل کی طہارت ایمان کے ذریعے ہوئی ہے اسی مقصد کے لئے وضو کرنے کے بعد کلمہ شہادت کو مسنون قرار دیا گیا ہے۔جب مسلمان وضو کرے تو وضو کرنے کے بعد کلمہ شہادت کے ذریعے اپنے ایمان کی تجدید کرے اور ایمان کی تجدید کرنے کے ذریعے وہ اپنے دل کو گندگیوں سے پاک کریں۔ جب یہ دونوں کام ہو جائیں گے کہ وضو کرے اور بعد میں کلمہ شہادت پڑے گا۔(بعض روایات میں اس پر ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ  مِنَ  الْمُتَطَھِّرِیْنَ کہ اللہ تعالیٰ مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا دے اور مجھے پاک صاف لوگوں میں بنا دیجئے۔جب یہ دعا مکمل وضو کرنے کے بعد پڑھی جائے گی) اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بندے کا بدن بھی پاک ہے اور اس کا دل بھی پاک ہے اور ان دونوں کی طہارت کے بعد جب وہ نماز جیسی اہم عبادت میں داخل ہوگا تو یقیناً اسے نماز کے فوائد اور برکات بھی حاصل ہوں گی۔

Read More

باجماعت نماز کی اہمیت

باجماعت نماز کی اہمیت قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہ عَنْہُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ فِتْيَتِي فَيَجْمَعُوا حُزَمًا مِنْ حَطَبٍ، ثُمَّ آتِيَ قَوْمًا يُصَلُّونَ فِي بُيُوتِهِمْ لَيْسَتْ بِهِمْ عِلَّةٌ فَأُحَرِّقَهَا عَلَيْهِمْ۔‘‘ (ابوداود،سلمان بن اشعث،م:275ھ،سنن ابی داود، رقم الحدیث:549، ص:1/150، المكتبة العصرية، صيدا بيروت) مفہوم حدیث: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میری خواہش ہے کہ میں اپنے کچھ نوجوانوں کو بلاؤں اوروہ میرے لئے بہت سارا ایندھن جمع کریں اور پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بغیر کسی عذر کے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ان کے گھروں کو جلا ڈالوں۔‘‘ تشریح: اسلام ایک معاشرتی مذہب ہے اور معاشرے کے لوگوں کے درمیان اجتماعیت قائم کرنا یہ اسلام کا اولین مقصد ہے۔ معاشرے کے لوگوں کے درمیان الفت،محبت،بھائی چارہ قائم کرنا،یہ بھی اسلام کے پیش نظر ہے۔کہ لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں،ایک دوسرے کے حال احوال پوچھا کریں، اسی طرح سے لوگوں میں مساوات قائم کرنا یہ بھی دین اسلام کا اہم مقصد ہے۔ اب ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے شریعت نے جہاں مختلف احکامات جاری کئے ہیں۔ باجماعت نماز کے ذریعے بھی ضمنی طور پر ان مقاصد کو حاصل کیا جاتا ہے۔نماز ایک اہم عبادت ہے اور شریعت نے مردوں کو پابند کیا ہے کہ وہ مسجد میں میں جا کر فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام کریں۔ جب انسان باجماعت نماز میں شریک ہوتا ہے تو جہاں وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر عمل کرتا ہے۔ وہاں شریعت کے یہ مقاصد بھی حاصل ہوتے ہیں۔کہ نماز باجماعت کے ذریعے اجتماعیت پیدا ہوتی ہے۔ پورے محلے کےلوگ پانچ وقت مسجد میں جمع ہوکر نماز پڑھتے ہیں۔باہمی محبت بڑھتی ہے، بھائی چارہ بڑھتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات پروان چڑھتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ جماعت میں مساوات حاصل ہوتی ہے ، سب لوگ ایک صف میں کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے ہیں ،اس میں کسی امیر غریب کی کسی کالے اور گورے کی یا کسی رنگ سے تعلق رکھنے کا امتیاز نہیں رکھا جاتا۔ باجماعت نماز کی ادائیگی میں شریعت کے یہ مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے حکم پر عمل ہوتا ہے۔اسی لئے نبی کریمﷺ نے باجماعت نماز کی ادائیگی مردوں کے لئے لازم قرار دی ہے۔ اس روایت میں آپ نے سنا کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرمارہے ہیں کہ میری یہ خواہش ہے کہ میں کچھ لوگوں کو حکم دوں کہ وہ میرے لئے ایندھن جمع کریں اور پھر میں جاکر ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو بغیر کسی عذر کے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں ۔ باجماعت نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ حضرت عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ عنہ وہ نابینا صحابی تھے وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کروں ؟کیونکہ مجھے کوئی مسجد لانے والا نہیں ہے تو نبی کریمﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم اذان سنتے ہو ؟تو انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں اذان تو میں سنتا ہوں۔آواز آتی ہے گھر میں۔تو نبی کریم ﷺ نے ان کو پابند کیا کہ مسجد آکر نماز ادا کیا کرو۔(سنن ابی داؤد،552) اور بھی درجنوں روایات ہیں جو نماز کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں۔اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ فرض نماز مسجد میں جا کر ادا کرنی چاہیے ۔جب آپ مسجد جائیں گے گھر سے تو آپ کو ہر ہر قدم پر ثواب ملے گا ۔ پھر آپ جب مسجد میں نماز کا انتظار کریں گے۔تو ہر ہر لمحہ آپ کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزرے گا۔باجماعت نماز کو اپنی عادت بنائیے،اللہ تبارک تعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیے۔آمین

Read More

نماز کیلئے چلنا

نماز کیلئے چلنا عَنْ جَابِرٍ،أَنَّہٗ قَالَ: أَرَادَ بَنُوْ سَلْمَۃَ أَنْ یَّبِیْعُوْادَیَارَھُمْ، یَنْتَقِلُوْنَ قُرْبَ الْمَسْجِدِ، فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ’’دِیَارُکُمْ فَإِنَّمَا تُکْتَبُ اٰثَارُکُمْ۔‘‘(ابن حنبل ،احمد بن حنبل م:241ھ مسند احمد بن حنبل ،رقم الحدیث:14991 ص:241، ج:23، ناشر:مو سسۃ الرسالۃ ،ط:الاولیٰ1421ھ) مفہوم حدیث: حضرت جابر h سے روایت ہے کہ بنو سلمہ کے لوگوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے مکانات بیچ کر مسجد نبوی کے قریب منتقل ہو جائیں، نبی کریمﷺ کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اپنے مکانات میں ہی رہو کیونکہ تمہارے قدموں کے نشانات کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ تشریح : مدینہ طیبہ میں بنو سلمہ انصار کا ایک قبیلہ تھا ،ان کے مکانات مسجد نبوی سے کچھ فاصلے پر تھے۔ تو مسجد نبوی کے شوق میں انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے مکانات بیچ کر مسجد نبوی کے قریب زمین حاصل کرکے مکانات تعمیر کیے جائیں۔ رسول ﷺ کو جب یہ خبر ہوئی تو ان کو آپﷺ نے منع کیا ،اور فرمایا کہ اپنے مکانات میں ہی رہو، اگرچہ تمہارے مکانات کچھ فاصلے پرہیں ۔لیکن تم جب مسجد نبوی چل کر آتے ہو تو تمہارے قدموں کے نشانات کاثواب بھی تمہارے نامہ عمال میں لکھا جاتا ہے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں: پہلی بات یہ کہ انسان الله جل جلالہ کی مرضی کے لئے جو بھی عمل کرتا ہے ، الله تعالیٰ اسکا اجر بڑھا چڑھا کر اسکے نامہ عمال میں لکھتے ہیں۔نیک عمل کا اجر الگ سے لکھا جاتا ہے، اور عمل کرنے کے لئے جو اسباب انسان اختیار کرتا ہے ان کا اجر الگ سے لکھا جاتا ہے۔مثلاً آپ مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، نماز جیسے عظیم فریضے کی انجام دہی کا جو ثواب ہے وہ تو آپ کو ملتا ہی ہے۔ مگر اس نماز کے لئے جو اسباب آپ نے اختیار کیےکہ آپ گھر سے نکلے ،آپ راستے میں چلے پیدل ہوں، یا سواری پر، اور وضو آپ نے کیا، صفائی ستھرائی آپ نے اختیار کی،ان تمام اسباب کا ثواب نامہ عمال میں الگ سے لکھا جاتا ہے۔انسان کے ساتھ یہ الله تعالیٰ کی رحمت کا معاملہ ہے کہ جب وہ کوئی نیک کام کرتا ہے،الله تعالیٰ کی طرف بڑھتا ہے، خواہ ایک قدم ہی کیوں نہ ہو،تو الله تعالیٰ کی طرف سے انسان کی اس کاوش کی بھر پور قدر کی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں ، یہ انسان کے حق میں گواہی بھی دے گی، آپ اس پر جو نیک کام ،یا غلط کام کرتے ہیں۔ دونوں قسم کے امور کی گواہی یہ زمین انسان کے حق میں یا اسکے خلاف دے گی ۔ ارشاد ربانی ہے: يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا۝۴ۙ (سورۃ زلزال:۴) ’’اس دن زمین اپنی تمام خبریں بیان کرے گی۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے ایک روایت نقل کی ہے، حضرت ابوہریرہ hفرماتے ہیں،کہ رسولﷺ سے سوال کیا گیا کہ یا رسول الله! وہ کیا چیزیں ہوں گی جو زمین الله تعالیٰ کی بارگاہ میں بیان کرے گی؟تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم جو عمل کرتے ہو اس روئےزمین پر ،تو یہ زمین تمہارا ہر عمل الله تعالیٰ کی بارگاہ میں بیان کرے گی۔(ترمذی : 3353) حضرت علی المرتضیٰ h کے حالات میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ جب وہ بیت المال کا سارا مال لوگوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے، توبیت المال میں وہ دو رکعت نفل پڑھتے تھے، اور زمین کو مخاطب کرکے فرماتے تھے ۔کہ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ گواہی دینا کہ میں نے حق کے سلسلے میں مال جمع کیا،اور حقداروں میں تقسیم کر دیا۔ تو معلوم ہوا اس زمین پر آپ جو بھی کام کرتے ہیں تو زمین الله تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کے حق میں یا آپ کے خلاف اس کی گواہی دے گی۔ آپ جب اس زمین پر چلتے ہوئے نماز کے لئے مسجد آتے ہیں، تو آپ کے قدموں کے نشانات کا اجر بھی لکھا جاتا ہے، اور زمین قیامت کے دن آپ کے حق میں گواہی بھی دے گی۔کہ یہ میرے اوپر چل کر مسجد جایا کرتا تھا۔

Read More

سبحان اللہ وبحمدہ کی فضیلت

سبحان اللہ وبحمدہ کی فضیلت عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي المِيزَانِ: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللہِ العَظِيمِ ۔‘‘ (بخاری،محمد بن اسماعیل البخاری م:256ھ صحیح البخاری،رقم الحدیث6406:ص:86ج:8،ناشر؛دار طوق النجاہ۔ط؛الاولیٰ1422ھ) مفہوم حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دو کلمےایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں اور میزان عمل میں بہت بھاری ہیں اور اللہ تعالی کو بہت محبوب ہیں اور وہ دوکلمے یہ ہیں: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ تشریح: انسان کی اخروی کامیابی اور نقصان کا دارومدار اس کے نامہ اعمال پر ہے اگر اعمال نامہ بھاری نکلا تو کامیاب ہوجائے گا۔ قرآن کریم کی سورۃ المؤمنون آیت ۱۰۲ میں بھی اس کا ذکر ہےـ(فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ) کہ جس شخص کا میزان بھاری نکلے گا اس نےنیکیاں زیادہ کی ہوگی تو وہ شخص ہمیشہ کے لئے فلاح پا جائے گا اور (وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ) جس کا میزان عمل ہلکا پڑ جائیگا ،اس میں نیکیاں کم ہوںگی ـ(فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فِيْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ) تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈالا، اور یہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ معلوم ہوا کہ نجات کا دارومدار میزان عمل پر ہے، حسنات کی مقدار پر ہے اگر نیکیاں زیادہ ہوگی تو کامیابیوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس روایت میں نبی کریم ﷺ نے نامہ اعمال کو وزنی کرنے کا ایک آسان نسخہ بتایا ہے کہ دو کلمات ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں انسان لمحہ بھر میں ان کو پڑھ لیتا ہے۔مگر نامہ اعمال کے لئے یہ ایک لمحہ بھی بہت وزنی ہے۔ ان کی ایک اور خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کو یہ دو کلمے بہت محبوب ہیں۔ اور وہ دو کلمے یہ ہیں(سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ ) کہ میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اور (سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ ) میں اللہ کی پاکیزگی بیان کرتاہوں جونہایت عظمتوں والا ہے۔یہ انتہائی خوبصورت کلمات ہیں ۔لہذا آپ کوشش کیجیے کہ اپنی زندگی کے معمولات میں ہر روز مناسب مقدار میں پڑھیں تاکہ اس کی وجہ سے آپ کا کا نامہ اعمال روزانہ کی بنیاد پر وزنی ہوتا رہے۔

Read More

مصیبت کے آغاز سے ہی صبر کرنا چاہئے

مصیبت کے آغاز سے ہی صبر کرنا چاہئے عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَقُولُ اللہُ سُبْحَانَهُ: ’’ابْنَ آدَمَ إِنْ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى، لَمْ أَرْضَ لَكَ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ۔‘‘ (ابن ماجہ،ابو عبداللہ محمد بن یزید،م:273ھ،سنن ابن ماجہ ،رقم الحدیث:1597، ص:1/509، دار احیاء الکتب العربیہ) مفہوم حدیث: ایک حدیث قدسی میں نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیںجس کا مفہوم یہ ہے۔ کہ اے آدم کے بیٹے اگر تم مصیبت کے ابتدائی وقت پر صبر کرو اور مجھ سے ثواب کی امید رکھو تو میں تمہارے لیے جنت سے کم اجر پر راضی نہیں ہوگا ۔ تشریح: یہ دنیا انسان کے لئے ایک امتحان گاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہاں آزمائش کے لیے بھیجا ہے۔ مختلف طریقوں سے انسان کو آزمایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار انسان پر مصیبت بھیج کر اس کی آزمائش کی جاتی ہے۔ گھریلو معاملات میں تنگی پیدا ہوجاتی ہے ، یا رزق میں تنگی آجاتی ہے، ماحول میں گھٹن کا سامنا انسان کوکرنا پڑتا ہے۔ اس قسم کی مصیبت کا شکار کرنے کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ انسان کا ردعمل کیا ہے، اگر انسان صبر سے کام لے تو اس کے لیے بڑا اجر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۱۰ (سورۃ الزمر:10) ’’صبر کرنے والوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ بغیر حساب کے اجر عطا فرمائیں گے۔‘‘ یعنی دیگر لوگوں کو کسی معیار کے مطابق اجر دیا جائے گا۔ مگر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بغیر کسی قسم کے حساب سے اپنی بارگاہ رحمت سے اجرعطا فرمائیں گے۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ جب کسی آدمی کے بیٹے کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ تم نے میرے بندے کے بیٹے کی جان قبض کر لی؟تو وہ کہتے ہیں کہ جی کر لی۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ تم نے اس کے جگر کا ٹکڑا اس سے لے لیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جی لے لیا۔پھر اللہ تبارک وتعالیٰ دریا فت فر ماتے ہیں کہ میرے بندے نےپھر کیا کیا،اس کا رد عمل کیا تھا ؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ آپ کے بندے نے آپ کی حمد و ثناء کی ،اس کے بعد ’’اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ‘‘پڑھا تو اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے بندے کے لیے جنت میں ایک محل بنا دو،اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو۔(ترمذی :1021) اس قسم کی اور بھی روایات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان مصیبت و صدمے کے وقت بغیر بے صبری کا مظاہرہ کیے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرے،اس کو برداشت کرے اور صبر کرے ،چاہے مصیبت کسی بھی قسم کی ہو ،جانی نقصان ہو ،مالی نقصان ہویا اور کسی قسم کی مصیبت ہو ۔انسان اس پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانیاں فراہم کرتے ہیں ۔

Read More

راستے کے حقوق

راستے کے حقوق عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’إِيَّاكُمْ وَالجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ‘‘ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِيهَا، فَقَالَ: ’’إِذْ أَبَيْتُمْ إِلَّا المَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ‘‘ قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ’’غَضُّ البَصَرِ، وَكَفُّ الأَذَى، وَرَدُّ السَّلاَمِ، وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ المُنْكَرِ۔‘‘(بخاری،محمد بن اسمعیل بخاری،م: 256) صحیح البخاری-رقم الحدیث 6229،(ص :51ج :8) ناشر دارطوق النجاہ (ط :الاولیٰ 1422) مفہوم حدیث: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا۔ راستے میں بیٹھنے سے پرہیز کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ!راستے میں بیٹھنا ہماری مجبوری ہے، کہ ہم اس میں کبھی کبھار بات چیت کر لیا کرتے ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ راستے میں بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کیا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ راستے کا حق کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ نظروں کو جھکائے رکھنا، گزرنے والوں کو تکلیف دینےسے پرہیز کرنا، سلام کا جواب دینا ،اچھا ئی کی تلقین کرنا اور برائی سے روکنا یہ راستے کے حقوق ہیں۔ تشریح: ایک پرامن اور پرسکون معاشرے کی تشکیل اسلام کی اولین ترجیح ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے شریعت نے ہر چیز کے آداب اور حقوق مقرر کیے ہیں۔ انہی حقوق کی ادائیگی کا نام امن ہے ۔راستے سے انسانی ضروریات وابستہ ہیں اس لیے شریعت نے راستے کے بھی حقوق مقرر کیے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے اس فرمان میں راستے کے مختلف حقوق بیان فرمائے۔اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں اوائل اسلام میں صحابہ کرام معاشی لحاظ سے کچھ تنگ دست تھے۔ بیٹھنے کے لئے گھر میں جگہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ اگر کوئی مہمان یا ملاقاتی آ جاتا تو راستے میں کھڑےہو کر بات چیت ہو جاتی تھی ۔صحابہ کرامj کی اس مجبوری کے پیش نظر نبی کریم ﷺ نے راستہ میں کھڑے ہوکر بات چیت کی اجازت دی،لیکن ان شرائط کے ساتھ کہ نظریں جھکا کر رکھو،سلام کا جواب دیا کرو،اور گزرنے والے کو آپ کے کھڑے ہونے سے کوئی حرج نہ ہو،اچھائی کی تلقین کرتے رہو اوربرائی سے روکتے رہو۔ معلوم ہوا کہ اگر راستے کا استعمال اس طریقے سے کیا جائے، جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہو تو شریعت کی نگاہ میں یہ ناپسندیدہ ہے۔ ان تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنا طرز عمل بھی دیکھ لیں۔آئے دن راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔شادی بیاہ،سوگ،اور دیگر رسومات کے لئے راستے مصروف رکھنا ہماری عادت ہے۔اور اس کو ہم اپنا حق سمجھتے ہیں۔ہمارے اس عمل سے کتنے ہی راہ گیر متاثر ہوں،ہمیں پرواہ نہیں ہوتی۔یہ عادت ختم کرنی چاہئے۔اور لوگوں کے راستے کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

Read More

پڑوسیوںکے حقوق

پڑوسیوںکے حقوق عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’مَا زَالَ يُوصِينِي جِبْرِيلُ بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ۔‘‘ (بخاری،محمد بن اسماعیل البخاری،م:256ھ،صحیح البخاری،رقم الحدیث:6014،ص:8/10،دار طوق النجاہ،ط:الاولیٰ1422ھ) مفہوم حدیث: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:کہ حضرت جبرائیلعلیہ السلام مجھے پڑوسیوں کے بارے میں مسلسل تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ ان کو وراثت میں حصہ دار بنا لیا جائے گا۔ تشریح: انسان کو اس دنیا میں رہتے ہوئے مختلف رشتوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ پڑوسی بھی انسان کو روزانہ ملنے جلنے والوں میں شامل ہیں۔ پڑوسی کے ساتھ انسان کا واسطہ کافی زیادہ رہتا ہے۔ اگر پڑوسیوں کے ساتھ انسان کے تعلقات درست ہوں تو زندگی آسان ہوتی ہے۔ اور اگر باہمی حقوق کا خیال نہ رکھا جائے تو محلے میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے متعدد فرامین میں پڑوسیوں کے حقوق کو بڑی اہمیت کے ساتھ واضح انداز میں بیان فرمایا ہے ۔ جیسے آج کی اس روایت میں سرکار دوعالم ﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل پڑوسیوں کے حقوق کی اتنی زیادہ تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہو ا کہ پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دار بنا لیا جائے گا۔ یعنی جس طریقے سے والدین، اولاد، بیوی ،بچے وراثت میں حصہ دار ہیں، تو شاید پڑوسی بھی حصہ دار بن جائیں۔معلوم ہوا کہ پڑوسیوں کے حقوق اہتمام سے ادا کرنے چاہیں۔ ان کی ایذا رسانی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ممکنہ حد تک اپنی ذات سے ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

Read More

اللہ تعالیٰ کی رحمت

اللہ تعالیٰ کی رحمت قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’مَا مِنْ مُصِيبَةٍ تُصِيبُ المُسْلِمَ إِلَّا كَفَّرَ اللہُ  بِهَا عَنْهُ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا۔‘‘ (بخاری،محمد بن اسمٰعیل البخاری،م:256ھ،صحیح البخاری،رقم الحدیث:5640، ص:7/114،دار طوق النجاہ،ط:الاولیٰ1422ھ) مفہوم حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مسلمان کو جب بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرماتے ہیں ،یہاں تک کہ جب اس کو کوئی کانٹا چبھتا ہے، جب بھی اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔ تشریح: اللہ جل جلالہ نے قرآن کریم میں اپنا تعارف بطور کریم رب کے کروایا ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْمِ۝۶ۙ (سورۃ الانفطار:۶) ’’ اے انسان! اپنے کریم رب سے تمھیں کس نے دور کیا ہے؟‘‘ تو اللہ تعالیٰ اپنا تعارف کریم رب سے کرواتے ہیں، کہ میں تمھارے اوپر مہربان ہوں اور تمھارے گناہوں کو تم سے دور کرتا ہوں۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝۴۹ۙ (سورۃ الحجر:49) ’’میرے بندوں کو بتادیجئے کہ میں مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔‘‘ اور یہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کا معاملہ ہے کہ اس نے ایک خودکار نظام وضع کر رکھا ہے ،جس کی وجہ سے بندوں کے گنا ہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔ انسان جو گناہ کرتا ہے وہ دو طرح کے ہیں۔پہلے نمبر پر کبیرہ گناہ جو بڑے درجے کے ہیں۔ دوسرے نمبر پر چھوٹے گناہ آتے ہیں۔جن کوصغیرہ گناہ کہتے ہیں۔ چھوٹے گناہ ہر وقت انسان سے سرزد ہوتے رہتے ہیں۔کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں، البتہ صغیرہ گناہوں کی معافی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نظام وضع کر رکھا ہے ،جن سے وہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔ جب آپ وضو کرتے ہیں تب بھی انسان کے گناہ جھڑتے ہیں، مسجد کی طرف چلتے ہیں جب بھی انسان کے گناہ جھڑتے ہیں۔ جیسے اس روایت میں آپ نے سنا کہ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے، چاہے وہ چھوٹی سے چھوٹی ہی ناگواری کیوں نہ ہو، یا ایک معمولی کانٹا چبھ جائے ،یا جب بھی انسان کو کوئی طبعی طور پر کسی بھی قسم کی ناگواری ہو تو اس ناگواری کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے گناہ معاف فرمادیتے ہیں ۔ یہ اللہ جل جلالہ کی رحمت کا معاملہ ہے انسان کے ساتھ ،کہ انسان کے گناہوں کو اللہ جل جلالہ دور کرتا رہتا ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مزید مضبوط بنایا جائے اور توبہ استغفار کے ساتھ اپنے کبیرہ گناہوں کو معاف کروانے کا اہتمام بھی کیا جائے،اللہ جل جلالہ مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

Read More