نبی کریم ﷺ کا لباس

نبی کریم ﷺ کا لباس رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اہل عرب کا عمومی لباس دو چادروں پر مشتمل ہوتا تھا۔جس چادر سے جسم کے اوپر والے حصے کو ڈھانپتے اسے ردا کہا جاتا۔اور جس چادر سے جسم کے نچلے حصے کو ڈھانپا جاتا اسے ازار کہا جاتا۔نبی کریم ﷺ کا عمومی لباس بھی یہی تھا۔اسی لباس میں رسول اللہﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا۔ حضرت ابوبردہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے ہمیں پیوند لگی ہوئی ایک چادر اور موٹی لنگی دکھائی۔ اور فرمایا۔کہ آنحضرتﷺ کا وصال ان دو کپڑوں میں ہو۔ چادر مبارک لمبائی میں چار ہاتھ اور چوڑائی میں اڑھائی ہاتھ ہوتی۔ایک روایت کے مطابق لمبائی چھ ہاتھ اور چوڑائی تین ہاتھ اور ایک بالشت ہوتی۔ لباس کے معاملے میں نبی کریم ﷺ تکلف نہ فرماتے۔جس طرح کا بھی لباس میسر ہوتاآپﷺ زیب تن فرما لیتے۔عام طور پر نبی کریم ﷺ نے سادہ لباس زیب تن فرمایا ہے ۔لیکن قیمتی کپڑوں کا پہننا بھی نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے۔چنانچہ ایک روایت میںہے کہ نبی کریم ﷺ نے ستائیس اونٹنیوں کے عوض ایک جوڑا خریدکر زیب تن فرمایا۔ غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے ایک رومی جبـہ زیب تن فرمایا تھا،جو ظاہر ہے غیر ملکی اورقیمتی تھا۔ قیمتی لباس بھی نبی کریمﷺ نے پہنا ہے۔اگرچہ وقتی طور پر ہے۔البتہ عمومی لباس آپﷺ کا سادہ ہوتا تھا۔                   آپﷺ کو سفید رنگ مرغوب تھا۔عموماً آپ کا لباس سفید رنگ کا ہواکرتا تھا۔البتہ بعض روایات میں نبی کریم ﷺ سے سبز اور سرخ (دھاری دار) رنگ کے جوڑے زیب تن فرمانا بھی ثابت ہے۔درج ذیل روایات ملاحظہ فرمائیے حضرت ابی رِمثہ رفاعہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺکو دو سبز کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔ رسول اللہﷺ کو سرخ یمنی چادر مرغوب تھی۔ حضرت براء فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں نے آپ ﷺ کو سرخ (دھاریوں والی) چادر میں ملبوس دیکھا۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کوئی خوب صورت منظر نہیں دیکھا۔ نبی کریم ﷺ کا عمومی لباس دو چادروں پر مشتمل تھا۔البتہ آپﷺ سے کرتا پہننا بھی ثابت ہے۔شمائل ترمذی کی روایت ہے عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:كَانَ أَحَبَّ الثِّيَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺالْقَمِيص۔ ترجمہ: ’’حضرت امّ سلمیٰ  سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو تمام کپڑوںمیں سے کرتہ زیادہ پسند تھا۔ کُرتا آنحضرت ﷺ کوپسند تھا۔کیونکہ یہ جسم کو زیادہ بہتر طریقے سے ڈھانپ لیتا ہے۔آپ ﷺ کی قمیص کے جو اوصاف احادیث میں مذکور ہیں ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں ٭… آپ ﷺ کی قمیص کا رنگ عموماً سفید ہوا کرتا تھا۔ ٭ …آپ ﷺ کی قمیص تقریباً نصف پنڈلی تک ہوا کرتی تھی۔ ٭ … آپ ﷺ کی قمیص کی آستین عموماً پہونچے تک ہوا کرتی تھی۔ بعض روایات میں آستین کا انگلیوں تک ہونا بھی مذکور ہے۔علماء نے یوں تطبیق دی ہے۔کہ قمیص کی آستین کلائیوں تک ہوتی،البتہ جبہ یا عبا کی آستین انگلیوں تک ہوتی تھی۔ ٭… قمیص اور قمیص کی آستین کشادہ ہوا کرتی تھی۔ ٭… قمیص میں گریبان سینہ کے مقام پر ہوتا تھا ۔ سراویل (شلواریا پائجامہ) کا استعمال رسول اللہﷺ کی عادت شریفہ لنگی باندھنے کی تھی۔سراویل (شلوار یا پائجامہ) پہننے کے بارے میں علماء کی آراء مختلف ہیں۔اتنی بات طے ہے۔کہ رسول اللہﷺ کے پاس شلوار موجود تھی۔جو بعض روایات کے مطابق آپﷺ کے ترکہ میں بھی شامل تھی۔ مسند ابی یعلیٰ میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے ۔وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کے ہمراہ ایک دن بازار گیا۔ آپﷺ ایک دکان میں تشریف فرما ہوئے ۔ ایک سرا ویل (پائجامہ) چار درہم میں خریدا۔ بازار کےایک وزان (تولنے والا) سے حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ۔وزن کرو اور خوب اچھی طرح ٹھیک وزن کرو۔ وزن کرنے والا کہنے لگا۔میں نے یہ بات کسی سے نہیں سُنی۔ حضرت ابو ہریرہ  نے اس سے فرمایا :افسوس ہے تجھ پر، تو نہیں جانتا آپ ﷺ ہمارے نبی ہیں۔ وہ شخص تراز وچھوڑ کر حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک کی طرف جھکا اور چاہا کہ دست ِ مبارک کو بوسہ دے۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنا دست ِ مبارک کھینچ لیااور فرمایا اے فلاں! ایسا عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔میں بادشاہ نہیں ہوں۔میں تمہی میں سے ایک ہوں۔ آپﷺ نے سراویل لے لی۔ حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ میں نے چاہا کہ میں اٹھالوں ۔آپﷺ نے فرمایا مال کا مالک زیادہ حق دار ہے کہ وہ خود اپنے مال کو اُٹھائے ۔البتہ اگر وہ کمزور یا مجبور ہو اور اٹھانے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ تو ایسے مسلمان بھائی کا مال لے جانے میں مدد دینی چاہئے۔ حضرتابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا پہننے کے لئے سراویل خریدی ہے ۔فرمایا ہاں! میں اسے سفر و حضر اور دِن اور رات میں پہنوں گا۔ اس لئے کہ مجھے خوب ستر پوشی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے بہتر ستر پوش دوسرا لباس نہیں دیکھا اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے سراویل (شلوار) خریدی ہے۔اور ظاہر ہے کہ پہننے کے لئے ہی خریدی ہوگی۔متعدد روایات میں رسول اللہﷺ سے شلوار پہننا بھی ثابت ہے۔نیز صحابہ کرام بھی رسول اللہﷺ کی اجازت سے پہنتے تھے۔ لنگی یا شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا رسول اللہﷺ اپنی لنگی نصف پنڈلی تک رکھتے تھے۔ٹخنوں سے لنگی یا شلوار نیچے لٹکانا آپﷺ کو ناپسند تھا۔ ایک روایت میں آپﷺ کا ارشاد ہے۔جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا کپڑا (ٹخنوں سے نیچے) گھسیٹے۔ اللہ تعالیٰ اسکی جانب قیامت کے دن نظر عنایت نہیں فرمائے گا۔(بخاری:3665) اس روایت میں تکبر کی وجہ سے ٹخنوں سے لباس نیچے لٹکانے کی ممانعت بیان فرمائی گئی۔البتہ ایک روایت میں علی الاطلاق ممانعت بھی موجود ہے۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے کہنبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا۔کہ مسلمان کا لباس آدھی پنڈلی تک رہنا چاہئے۔نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان کی اجازت ہے۔لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو۔وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل روایت بڑی سبق آموز ہے ’’حضرت عبید بن خالد کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں…

Read More

رسول اللہﷺ کی مہر نبوت

رسول اللہﷺ کی مہر نبوت رسول اللہﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان گوشت کا ایک ابھار تھا۔جو بائیں شانے کے قریب تھا۔یہ کبوتری کے انڈے کے برابر اور بعض روایات کے مطابق مسہری کی گھنڈی جتنا تھا۔اس کے ارد گرد بال تھے۔ درمیان میں چمکیلا اور ارد گرد بالوں سے ڈھکا ہونے کی وجہ سے یہ نہایت خوشنما معلوم ہوتا تھا۔یہ رسول اللہ ﷺ کی مہر نبوت تھی۔درج ذیل روایت ملاحظہ ہو عنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ الْخَاتَمَ بَیْنَ کَتِفَيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ غُدَّۃً حَمْرَاءَمِثْلَ بَیْضَۃِ الْحَمَامَۃِ۔ ترجمہ:’’حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے کندھوں کے درمیان (نبوت کی) مہر کو دیکھا ہے۔ یہ سرخ رنگ کے غدود کی مانند اور مقدار میں کبوتری کے انڈے کے برابر تھی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ایک روایت کے مطابق اس پر’’سر فانت المنصور‘‘ (تم جہاں چاہے جاؤ تمہاری مدد کی جائے گی) لکھا ہوا تھا۔حافظ ابن حجر نے ان روایات کی تردید کی ہے۔(دیکھئے فتح الباری،ص6/563) یہ مہر رسول اللہﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی علامت تھی۔علماء بنی اسرائیل آپﷺ کو اس مبارک مہر سے پہچانتے تھے۔یہ آپﷺ کی ولادت سے ہی جسد اطہر پر موجود تھی۔حضرت حلیمہ سعدیہ کے ہاں رسول اللہﷺ کا پہلا شق صدر ہوا تھا۔جس میں حضرت جبرئیل و حضرت میکائیل نے جنت سے لائی گئی برف کے ساتھ رسول اللہﷺ کا قلب اطہر دھویا تھا۔بعض روایات میں ہے کہ اس موقع پر انہوں نے مہر نبوت بھی لگائی تھی۔ مولانا ادریس کاندھلوی نقل کرتے ہیں کہ مہر نبوت تو ولادت سے ہی موجود تھی۔البتہ اس موقع پر جبرئیل نے سابقہ مہر نبوت کی تجدید کی تھی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد یہ مہر غائب ہوگئی تھی۔اور حضرت اسماء  نے رسول اللہﷺ کے سانحہ ارتحال پر استدلال مہر نبوت کے غائب ہونے سے کیا تھا۔ یہ مہر کیوں لگائی گئی تھی۔اس سلسلے میں یہ تو واضح ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کے خاتم النبیین کی علامت تھی۔حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ایک شخص نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے باری تعالیٰ! مجھے دکھا دیجئے کہ شیطان بندوں پر کس طرح حملہ آور ہوتا ہے۔تو اللہ نے اسے دکھا دیا۔اس نے دیکھا کہ قلب کے بالمقابل پشت کے بائیں حصے کی جانب سے شیطان کا حملہ ہوتا ہے۔حافظ ابن حجر امام سہیلی کے حوالے سے کہتے ہیں۔کہ عین اسی مقام پر رسول اللہﷺ کی پشت مبارک پر مہر لگانے میں یہ حکمت بھی ہوسکتی ہے۔کہ اس مقدس مقام تک شیطان کی رسائی مکمل طور پر روک دی جائے۔

Read More

نبی کریم ﷺ کی گفتگو کاانداز

نبی کریم ﷺ کی گفتگو کاانداز نبی کریم ﷺ کی گفتگو کا انداز اس قدر دلکش تھا کہ مخاطب اس کو سنتے ہی اپنے د ل میں بسا لیا کرتا ۔آپ ﷺ کی گفتگو نہ اس قدر طویل ہوتی کہ سننے والا اُکتا جائے ،اور نہ اس قدر مختصر ہوتی کہ سننے والے کو سمجھ ہی نہ آئے۔نبی ﷺ نہایت اعتدال اور توازن کے ساتھ کلام فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ آپﷺ  کے انداز گفتگو کو یوں بیان فرماتی ہیں مَا كَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ هَذَا، وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ يُبَيِّنُهُ فَصْلٌ، يَحْفَظُهُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ۔ ترجمہ: ’’نبی کریم ﷺ کی گفتگو کے انداز میں تم لوگوں کی طرح تیزی نہیں تھی۔بلکہ آپ ﷺ جب بات چیت فرماتے تو ہر لفظ کو واضح اور جدا جدا کر کے ادا فرماتے۔یہاں تک کہ سننے والا اگر چاہتا تو اس کو سن کر یاد بھی کرلیتا۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ بعض اوقات مخاطب کی ضرورت کیلئے ایک بات کوتین بار بھی دہرایا کرتے۔(ترمذی،3640) حضرت عبداللہ بن عباس نبی کریمﷺ کے کلام کی خوبصورتی کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ گفتگو فرماتے، تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے آپ ﷺ کے دندان مبارک سے نور پھوٹ رہا ہو

Read More

نبی کریمﷺ کا انداز تبسم

نبی کریمﷺ کا انداز تبسم نبی کریم ﷺ کو تند خوئی اور خشک مزاجی ناپسندتھی۔ عمومی معاملات میں رسول اللہﷺ خوش طبعی اور شگفتہ مزاجی کو پسند فرماتے تھے۔آپﷺ صحابہ کرام سے خوش طبعی کے ساتھ پیش آتے ،مختلف مواقع پر صحابہ کرام کے ساتھ نبی کریم ﷺ مذاق بھی فرمالیا کرتےتھے۔ اوراکثر اوقات صحابہ کرام کی دل جوئی کے لئے نبی کریم ﷺ کے چہرئہ انور پربڑی دلفریب مسکراہٹ چھائی رہتی۔ چنانچہ ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔  حضرت جریر کہتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے جب بھی مجھے دیکھا،تو مسکرا دیتے۔ یہ آپﷺ کی خوش طبعی کا انداز تھا۔ آپﷺ کا ہنسنا مسکراہٹ اور تبسم تک ہی محدود رہتا، یہ مسکراہٹ اتنی دل آویز ہوتی،کہ جب آپ ﷺ مسکراتے، تودندان مبارک اولوں کی طرح شفاف و تروتازہ دکھائی دیتے، صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے اس دل فریب تبسم سے شاداب اور فرحاں ہو جایا کرتے۔ آپﷺ قہقہہ لگانے کی بجائے تبسم فرمایا کرتے۔ حضرت عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ آپ ﷺ مسکرانے پر ہی اکتفا فرماتے تھے۔ :سرکار دوعالم ﷺ کی مسکراہٹ کا تفصیلی بیان آپ ﷺ کے نواسے حضرت حسن نے نقل فرمایا ہے عن الحسن بن علي رضی اللہ تعالیٰ عنہ، قال:سألت خالي هنداً عن صفة ضحك رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، فقال: جُلُّ ضحكه التبسم، يَفْتر عن مِثْل حَبِّ الغمام۔ ترجمہ: ’’سیدنا امام حسن سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نےاپنے ماموں حضرت ہند بن ہالہ سے دریافت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ہنسنے کی کیفیت کیسے ہوتی تھی؟تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ہنسنا تبسم ہی ہوا کرتا ۔جب آپ ﷺمسکراتے تو آپﷺ کے دندان مبارک اولوں کی طرح شفاف، تروتازہ اور آبدار نظر آتے۔‘‘

Read More

نبی کریم ﷺکے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو

نبی کریم ﷺکے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو رسول اللہﷺ کا جسد اطہر ہمیشہ معطر رہتا۔آپﷺ جس راستے سے گزرتے۔وہ مہک اٹھتا۔صحابہ کرام راستے میں پھیلی خوشبو سے نبی کریم ﷺکاوہاں سے گزرنا معلوم کرلیتے۔یہ خوشبو رسول اللہﷺ کی ذاتی تھی۔آپﷺ کو عطر یا خوشبو لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ آپﷺ کا مبارک پسینہ منفرد خوشبو کا حامل تھا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت انس کی والدہ نے آپﷺ کا مبارک پسینہ ایک شیشی میں جمع کر رکھاتھا۔ آپﷺ کے مبارک ہاتھوں میں منفرد خوشبو ہوتی۔ہاتھ ملانے والا اپنے ہاتھ معطر کرکے لوٹتا۔اور عرصے تک یہ خوشبو محسوس کرتا۔ آپﷺ کے دست اقدس ریشم کی طرح ملائم تھے۔ان میں برف کی طرح خوشگوار ٹھنڈک رہتی۔دست اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو کے بارے میں درج ذیل روایات ملاحظہ ہوں۔ حضرت جابر بن سمرہ اپنے بچپن کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے، کچھ بچے موجود تھے۔ آپﷺ نے ان کو بلاکر ان کے چہروں پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا ، میرے رخسار پربھی نبی کریم ﷺ نے اپنا دست ِ اقدس پھیرا ۔ تو میں نے نبی کریمﷺ کے مبارک ہاتھوں میں (فرحت آمیز) ٹھنڈک محسوس کی۔ آپﷺ کا ہاتھ میں نے ایسا معطر پایا جیسے ابھی آپﷺ نےعطار کی ڈبیا سے ہاتھ نکالا ہو۔(مسلم :2329) رسول اللہ ﷺ کا دست ِ اقدس ہمیشہ معطر رہا کرتا تھا چاہے آپ خوشبو لگاتے یا نہ لگاتے ۔جو شخص ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سے مصافحہ کرلیتا تو وہ دن بھر اپنے ہاتھوں میں نبی کریمﷺ کی خوشبو کو محسوس کرتا ۔اگر کسی بچے کے سر پر ہاتھ پھیر لیتے ،تو وہ اپنے سر کی خوشبو کی وجہ سے اپنے ہم جولیوں میں ممتاز ہوجاتا۔ حضرت مستورد بن شداد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں، کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔میں نے نبی کریم ﷺ کا دستِ اقدس تھاما ،تو مجھے سرکاردوعالم ﷺ کا دست ِ اقدس ریشم سے زیادہ نرم ملائم اور برف سے زیادہ ٹھنڈا لگا۔ حضرت ابو جحیفہ کی روایت ہے ۔کہ نبی ﷺ نے مسجد میں نماز پڑھائی اس کے بعد کھڑے ہوئے تو صحابہ کرام نبی کریم ﷺ سے ملنے لگے اور برکت کے لئے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ اپنے چہروں پر ملنے لگے، میں بھی حضوراکرمﷺ سے ملا، میں نے نبی کریم ﷺ کا دست ِ اقدس اپنے ہاتھوں میں تھاما ،تو میں نے آپﷺ کا دست اقدس برف کے اولوں سے زیادہ ٹھنڈا اور معطر پایا۔(مسلم :2329) حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ بیمار تھا، نبی کریم ﷺ میری عیادت کیلئے تشریف لائے تو آپ ﷺ نے میرے سر اور سینے پر اپنا دست ِ اقدس شفقت کیلئے رکھا ،میں آج تک نبی کریم ﷺکے مبارک ہاتھ کا لمس اور اس کی ٹھنڈک اپنے جگر تک میں محسوس کرتا ہوں۔ (بخاری:5659) ان خصوصیات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ کے مبارک ہاتھوں میں منفرد تاثیر رکھی تھی۔کتب حدیث اور سیرت میں مختلف واقعات ملتے ہیں۔جن میں نبی کریم ﷺ کےدست ِ اقدس کی تاثیر معجزاتی طور پر ظاہر ہوئی ہو۔درج ذیل روایات ملاحظہ ہوں: غزوہ بدر میں حضرت عکاشہ بن محصن کی تلوار ٹوٹ گئی، نبی کریمﷺ نے ان کو ایک لکڑی عطا فرمائی، وہ لکڑی ان کے ہاتھ میں جا کر تلوار بن گئی ۔ غزوئہ اُحد میں ایک صحابی حضرت عبداللہ بن جحش کو حضوراکرامﷺ نے کھجور کی ایک خشک ٹہنی عطافرمائی، جو ان کے پاس جاکر تلوار کی صورت میں بدل گئی ۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ مجھے اسلام لانے کے بعد تین بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ رسول اللہﷺ کی رحلت،حضرت عثمان کی شہادت اور میرا توشہ دان۔ لوگوں نے پوچھا کونسا توشہ دان؟ تو فرمایا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔مجھ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا۔تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک توشہ دان میں کچھ کھجوریں ہیں۔فرمایا لے آؤ۔میں کھجوریں نکال کر لے گیا۔ رسول اللہﷺ نے اپنا دست مبارک ان پر رکھا اور فرمایا۔دس آدمیوں کو بلاؤ۔میں نے بلایا۔وہ آئے اور کھجوریں کھا کر سیر ہوکر چلے گئے۔د س دس کی جماعت نے باری باری وہ کھجوریں کھائیں ۔یہاں تک کہ پورا لشکر سیر ہوگیا۔ اور توشہ دان میں اب بھی کھجوریں باقی تھیں۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا۔ اے ابوہریرۃ! جب تمہارا دل چاہے اس توشہ دان میں ہاتھ ڈال کر کھجوریں نکال کر کھاتے رہو لیکن اس کو انڈیلنے سے پرہیز کرنا۔حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا۔پھر حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان  کے ادوار میں بھی کھاتا رہا۔جب حضرت عثمان شہید ہوگئے۔تو میرا مال چوری ہوگیا۔اس میں یہ توشہ دان بھی تھا۔میں تمہیں کیا بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کتنی کھجوریں کھائی ہونگی۔؟ دو سو وسق سے زیادہ کھائی ہونگی۔اس میں یہ توشہ دان بھی تھا۔میں تمہیں کیا بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کتنی کھجوریں کھائی ہونگی۔؟ دو سو وسق سے زیادہ کھائی ہونگی۔ ایک مرتبہ بارش میں حضرت قتادہ عشاء کی نماز میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا ۔نماز کے بعد میرے پاس آنا۔نماز کے بعد وہ حاضر ہوئے تو رسول اللہﷺ نے ان کو ایک لکڑی عطا فرمائی ۔اور فرمایا کہ یہ پکڑ لو یہ تمہیں (اس اندھیری اور طوفانی رات میں) روشنی دے گی۔ آپ ﷺ کے دست مبارک میں شفا تھی، غزوہ خیبر کے موقع پرجب حضرت علی المرتضیٰ  آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا تھے تو آپﷺ نے اپنا لعاب دہن ان آنکھوں میں لگا دیا۔جس سے حضرت علی المرتضیٰ  شفایاب ہوگئے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوزید انصاری کی داڑھی پر اپنا دست اقدس پھیرا۔ دست اقدس کے لمس کی برکت سے تقریباً سو(۱۰۰) سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔حضرت ابوزیدکی اپنی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہوجاؤ۔ پھر آپﷺ نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا کی: الٰہی! اِسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کردے۔ راوی کہتے…

Read More

نبی کریم ﷺ کے مبارک بالوں کی خصوصیات

نبی کریم ﷺ کے مبارک بالوں کی خصوصیات دیگر اعضاء شریفہ کی طرح آپﷺ کے بال مبارک بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے ۔آپ ﷺ کے بال بالکل گھنگریالے تھے نہ بالکل سیدھے۔بلکہ ہلکا سا خم لئے نہایت خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللَّهِﷺ إِلَى نِصْفِ أُذُنَيْهِ ’’ نبی کریم ﷺ کے بال مبارک کانوں کے نصف حصے تک پہنچتے تھے۔‘‘(الشمائل المحمدیہ:رقم24) جبکہ بعض روایات میں دیگر صحابہ کرام نے مختلف مقداریں بھی بیان کی ہیں چنانچہ ایک روایت میں کندھوں تک کا ذکر ہے کہ رسول اللہﷺ  کے بال مبارک لمبائی میں کندھوں تک پہنچتے تھے ۔ بعض روایات میں کان کی لو تک کا ذکر ہے۔کہ کان کی لو یا اس سے کچھ نیچے ہوا کرتے تھے۔ روایات کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے مبارک بالوں کی مقدار مختلف اوقات میں مختلف رہی ہے۔کبھی کان کے درمیانی حصے تک،کبھی کان کی لو تک،کبھی کان کی لو سے نیچے کندھوں تک ہوا کرتے تھے۔ جس صحابی نے نبی کریم ﷺ کو جس حالت میں دیکھا ،اس نے وہی حالت روایت کردی۔نبی کریم ﷺ نے چند مرتبہ سر مبارک کا حلق بھی کروایا ہے۔ جس صحابی نے بال منڈوانے کے کچھ عرصے بعد دیکھا تو اس نے بالوں کو چھوٹا دیکھا ہوگا ،جس نے کچھ عرصے بعد دیکھا تو اس نے نبی کریم ﷺ کے لمبے بال ملاحظہ کئے ہونگے۔ہر صحابی نے اپنے مشاہدے کے مطابق روایت بیان کردی۔بعض محدثین نے روایات کے اس اختلاف کو یوں تطبیق دی ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک کے اگلے حصے کے بال کان کے وسط تک پہنچتے تھے۔جس نے آنحضرتﷺ کے مبارک بال کان کے وسط تک ہونا بیان کیا ہے۔اس کی مراد سر مبارک کے اگلے حصے کے بال ہیں۔ اور سر مبارک کے درمیانی حصے کے بال کان کی لو تک پہنچتے تھے۔جن روایات میں آنحضرتﷺ کے بال کان کی لو تک ہونا مذکور ہے۔اس سے مراد سر مبارک کے وسطی حصے کے بال ہیں۔اور سر مبارک کے پچھلے حصے کے بال کان کی لو سے نیچے کندھوں تک پہنچتے تھے۔بال مبارک کے کندھوں تک ہونے کی روایات سے مراد سر مبارک کے پچھلے حصے کے بال  ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے مبارک بالوں میں کنپٹی کے پاس کچھ سفیدی آئی تھی۔باقی بال سیاہ ہی رہے۔بعض صحابہ کرام نے رسول اللہﷺ  کے سفید بالوں کی بھی مقدار بیان کی ہے۔چنانچہ ایک صحابی نے 14 کا عدد بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے مبارک بالوں اور اور داڑھی مبارک کے کل 14 بال سفید ہوئے تھے۔اور ایک روایت میں 20کا بھی ذکر ہے۔

Read More

دوشِ اقدس کا حسن و جمال

دوشِ اقدس کا حسن و جمال رسول اللہﷺ کے جسد اطہر کا ہر حصہ باکمال تھا۔دیکھنے والے کے لئے یہ فیصلہ مشکل ہوتا کہ جسد اطہر کے کس حصےکو ترجیح دوں۔کندھے انسانی جسم کی خوبصورتی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کے دوش اقدس حسن و جمال میں یکتا تھے۔حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں: کانَ النَّبِيُّﷺمَرْبُوعًا، بَعِيدَ مَا بَيْنَ المَنْكِبَيْنِ . ’’ نبی کریم ﷺکا قد درمیانہ تھا اور آپ ﷺ کے دونوں کاندھوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ آپ ﷺ کے مبارک کندھے گولائی میں تھے، دبلے پتلے نہیں، بلکہ بھرے بھرے ،مضبوط و توانا تھے۔ دونوں کندھوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا۔ اس فاصلے کی وجہ سے سرکار دوعالم ﷺکا سینہ مبارک فراخ اور کشادہ نظرآتا۔ اگردھوپ یا ہوا کی وجہ سے دوش ِاقدس سے چادر ہٹتی،اور گردن مبارک کی جھلک نظر آتی تو یوں لگتا جیسے چاندی سے تراش کر بنائی گئی ہو،کندھوں کی رنگت کے سامنے چاندی کی سفیدی اور سونے کی سرخی ماند پڑجاتی۔چنانچہ حضرت انس کی ایک روایت ہے کہ بعض اوقات کوئی دیہاتی آتا،آداب سے لاعلمی کی وجہ سے آپ ﷺکی قمیص مبارک یا چادر مبارک کو کھینچتا ،تو آپ ﷺ کے مبارک کندھے نظر آنے لگتے، وہ خوبصورتی اور چمک میں اتنے بے مثال ہوتے کہ ہمیں ایسا معلوم ہوتا جیسے ہم چاند کا کوئی ٹکڑا دیکھ رہے ہوں۔

Read More

نبی کریمﷺ کے چلنے کا انداز

نبی کریمﷺ کے چلنے کا انداز انسان کے چلنے کا انداز اس کے رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔اگر کوئی آدمی بہت آہستہ چل رہا ہو تو یہ اس کی کاہلی یا بیماری کی علامت ہے۔اگر کوئی بہت تیز قدموں کے ساتھ چل رہا ہو۔ تو یہ اس کی عجلت پر دلالت کرتا ہے۔زیادہ سر اٹھا کر چلنا تکبر کی نشانی ہے۔بہت زیادہ سر جھکا کر چلنا خوف یا بیماری کی علامت ہے۔پاؤں گھسیٹ کر چلنا بھی مہذب لوگوں کے ہاں ناپسند یدہ ہے۔چلنے میں مناسب انداز استعمال کرنا چاہیے۔جیسے قرآن کریم کی ایک آیت ہے: وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ۔ (سورۃ لقمان:۱۹) ’’اور اپنی چال میں اعتدال پیدا کرو ۔‘‘ دیگر معاملات کی طرح چلنے کے باب میں بھی رسول اللہﷺ کے طرز عمل میں ہمارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے۔حضرت علی المرتضیٰ رسول اللہﷺ کے چلنے کا انداز یوں بیا ن فرماتے ہیں:(سنن الترمذی:3637) إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ تَكَفُّؤًا كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ۔ ’’جب نبی کریم ﷺ چلتے تو یوں پاؤں جما کر چلا کرتے جیسے آپ ﷺ کسی بلندی سے اتر رہے ہوں۔‘‘ بلندی سے اترنے والا احتیاط سے پاؤں جماکرچلتا ہے کہ کہیں پاؤں پھسل نہ جائے۔ نبی کریم ﷺ کا یہ عام معمول تھا کہ جب آپﷺ چلا کرتے تو زمین پر مضبوطی کے ساتھ پاؤں جما کر چلتے۔ حضرت ابوطفیل فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا رنگ ملاحت لئے ہوئے سفید تھا، آپﷺ جب چلتے تو ایسا لگتا جیسے ڈھلوان کی طرف جارہے ہوں۔(ابو داؤد:4864) حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت امام احمد نے نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے زیادہ تیر رفتارکوئی نہیں دیکھا۔ گویا کہ زمین آپ ﷺکیلئے لپیٹ دی گئی ہو۔ہم لوگوں کو نبی کریمﷺ کا ساتھ دینے میں مشکل پیش آتی۔ حالانکہ سرکاردوعالم ﷺ اپنے عام معمول کے مطابق چلا کرتے۔(احمد،8604) اس روایت میں نبی کریم ﷺ کے ایک معجزے کی طرف اشارہ ہے کہ ویسے تو حضور اکرمﷺ اپنی عام معمول کی رفتار کے مطابق چلتے، لیکن صحابہ کرام نبی کریم ﷺکے ساتھ قدم ملا کر چلنے میں مشکل محسوس کرتے اور ایسا لگتا جیسے سرکاردوعالم ﷺکے لئے اللہ تعالیٰ نے زمین لپیٹ دی ہو۔ ان روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ زمین پر پاؤں جما کر چلا کرتے۔جس طرح کوئی نشیب کی طرف جاتے ہوئے قدم جما کر چلتا ہے۔ آپﷺ پاؤں گھسیٹ کر چلنا ناپسند فرماتے تھے۔ہمت اور قوت کے ساتھ پاؤں اٹھا کر چلا کرتے۔ آنحضرتﷺ کی رفتار میں اعتدال ہوتا۔

Read More

نبی کریم ﷺ کا حلیہ مبارک

نبی کریم ﷺ کا حلیہ مبارکہ اللہ تعالیٰ نےرسول اللہﷺ کوبے مثال حسن و جمال عطا فرمایا تھا۔صحابہ کرام نے اپنے انداز سے رسول اللہﷺ کا جمال بیان کیا ہے۔حضرت جابرکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر حسن و جمال دنیا میں نہیں دیکھا۔آپﷺ کے سامنے چاند کا حسن و جمال بھی ماند پڑجاتا تھا۔حضرت علی کا بیان ہے کہ ہم نے ایسی پاک صورت پہلے کبھی دیکھی،نہ آئندہ دیکھیں گے۔یہاں یہ پیش نظر رہے کہ صحابہ کرامj کے ہاں مبالغہ آرائی نہیں تھی۔نہایت صاف گو تھے۔ حقائق پر مبنی گفتگو کرتے تھے۔ اس لئے ان بیانات میں شاعری و مبالغہ آرائی نہیں، حقیقت کا بیان ہے۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو حسن و جمال ہی ایسا عطا فرمایا تھا۔ کہ جو بھی دیکھتا، مبہوت رہ جاتا۔ ملا علی قاری نے امام قرطبی سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کا مکمل جمال دنیا میں ظاہر نہیں فرمایا۔اگر آپﷺ کا مکمل جمال ظاہر کردیا جاتا۔تو کسی میں آپﷺ کی طرف دیکھنے کی صلاحیت نہ ہوتی۔ ابن حجر نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو چہرے اور آواز کا حسن عطا فرمایا تھا۔اور تمہارے نبی ﷺ چہرہ انور کے جمال اور ابن حجر نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو چہرے اور آواز کا حسن عطا فرمایا تھا۔اور تمہارے نبی ﷺ چہرہ انور کے جمال اور آواز کی خوبصورتی میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ جمال محمدی کو حضرت عائشہ سے بہتر کون بیان کرسکتا ہے۔ام المومنین فرماتی ہیں۔ لَوْ سَمِعُوا فِي مِصْرَ أَوْصَافَ خَدِّهِ لَمَا بَذَلُوا فِي سَوْمِ يُوسُفَ مِنْ نَقْدِ لَوَّامِيْ زلِيخَا لَوْ رَأَيْنَ جَبِينَهُ لَآثَرْنَ بِالْقَطْعِ الْقُلُوبَ عَلَى الْأَيْدِي ترجمہ:’’ مصر والے اگر میرے محبوب کے رخسار مبارک کے اوصاف سُن لیتے تو حضرت یوسف کی قیمتیں لگانا بھول جاتے اور زلیخا کو ملامت کرنے والی عورتیں اگر میرے محبوب کی جبین مبارک کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے اپنے دل کاٹنے کو ترجیح دیتی۔‘‘ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جمال عطا فرمایا تھا۔ جمال کو حسن پر برتری حاصل ہوتی ہے۔حسن رنگ کی سفیدی، جاذبیت اور ظاہری نقشے کے خوبصورت ہونے کو کہتے ہیں۔جبکہ جمال مجموعہ قد کے تناسب،اعضاء کے جوڑ بند کے درست ہونے اور اپنی جگہ موزوں ہونے کو کہتے ہیں۔گویا جمال جسم کے ہر حصے کے بے مثال ہونے سے عبارت ہے۔کہ ہر ہر عضو اتنا کامل ہو۔کہ اس سے آگے کمال کا تصور تک نہ ہو۔نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایساجمال عطا فرمایا تھا۔جس میں کائنات کا کوئی فرد آپﷺ کا شریک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام جب آپﷺ کا سراپا بیان کرتے ہیں۔تو ایک ایک عضو مبارک کی تعریف کرتے ہیں۔کہ بال مبارک ہلکا سا گھنگھریالا پن لئے ہوئےاوربے مثال تھے۔دندان مبارک آبدار موتیوں کی مانند تھے۔سفیدملیح چہرے کے ساتھ چمکدار دانت یوں لگتے جیسے یاقوت کے صندوق میں در نایاب ہوں۔آنکھیں بڑی ، سیاہ اور سرمگیں تھیں۔جن میں سرخ ڈورے تیرتے دکھائی دیتے۔ بصارت اس قدر طاقتور کہ آنحضرتﷺ اوج ثریا پر ستاروں کے جھرمٹ میں گیارہ ستاروںکو صاف اور واضح دیکھ لیتے۔ پیشانی مبارک کشادہ تھی۔سر مبارک بڑا تھا۔ ناک لمبی اور خمیدہ تھی۔ سینہ اور پیٹ برابر تھے۔سینہ مبارک کے اوپر والے حصے اور کندھوں پر چند بالوں کے سوابدن مبارک پر بال نہیں تھے۔پاؤں مبارک کے تلوے اتنے بھرپور اور ہموار تھے کہ زمین پر پاؤں کے نشانات میں یکسانیت ہوتی تھی۔ جسم مبارک کا بالائی حصہ لمبا تھا۔جب محفل میں تشریف فرما ہوتے تو سب سے نمایاں نظر آتے۔حضرت خدیجہ کے صاحبزادے ہند بن ابی ہالہ کے مطابق آنحضرتﷺ چودہویں کے چاند سے زیادہ حسین و جمیل تھے۔ حضرت ام مَعبد نےنہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں رسول اللہﷺ کا حلیہ بیان کیا ہے۔جس کا ترجمہ صفی الرحمٰن مبارکپوری کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے: ’’چمکتا رنگ،تابناک چہرہ،خوبصورت ساخت،نہ توندلے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی۔جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر،سرمگیں آنکھیں،لمبی پلکیں، بھاری آواز،لمبی گردن،سفید و سیاہ آنکھیں،باریک اور باہم ملے ہوئےابرو، چمکدار کالے بال۔ خاموش ہوں تو باوقار، گفتگو کریں تو پرکشش۔ دور سے دیکھنے میں سب سے تابناک و پُرجمال، قریب سے سب سے زیادہ خوبصورت اور شیریں۔گفتگو میں چاشنی،بات واضح اور دو ٹوک،نہ مختصر نہ فضول،انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں۔درمیانہ قد، نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے،نہ لمبا کہ ناگوار لگے،دو شاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو سب سے زیادہ تازہ و خوش منظر ہے۔رفقاء آپ کے اردگرد حلقہ بنائے ہوئے،کچھ فرمائیں تو توجہ سے سنتے ہیں،کوئی حکم دیں تو لپک کے بجا لاتے ہیں، مطاع و مکرم،نہ ترش رو نہ لغو گو۔‘‘ ذیل میں رسول اللہﷺ کے حلیہ مبارکہ پر مشتمل شمائل ترمذی کی کچھ روایات درج کی جاتی ہیں۔ … عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ، وَلَا بِالْآدَمِ، وَلَا بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلَا بِالسَّبْطِ، بَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَلٰى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ، وَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً، وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ۔ ترجمہ:’’حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ نہ بہت لمبے قد کے تھے نہ پستہ قد(جس کو ٹھگنا کہتے ہیں ،بلکہ آپﷺ کا قد مبارک درمیانہ تھا) اور نیز رنگ کے اعتبار سے نہ بالکل سفید تھے چونے کی طرح نہ بالکل گندم گوں کہ سانولہ پن آجائے (بلکہ چودھویں رات کے چاند سے زیادہ روشن پرنور اور ملاحت لئے ہوئے تھے)حضوراکرم ﷺ کے بال نہ بالکل پیچیدہ تھے اور نہ سیدھے تھے (بلکہ ہلکی سی پیچیدگی اور گھنگریالا پن تھا) چالیس سال کی عمر ہونے پر اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو نبی بنایا، اور پھر دس برس مکہ مکرمہ میں رہے ،اس مدت کے درمیان میں حضور اقدس ﷺ پر وحی بھی نازل ہوتی رہی،اس کے بعد دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور پھر ساٹھ سال کی عمر میں حضور اقدسﷺ نے وصال فرمایا،اس وقت آپ ﷺ کے داڑھی اور سر مبارک میں بیس بال بھی سفید نہ تھے ۔‘‘ ملاحظہ: اس روایت میں رسول اللہﷺ کی عمر شریف ساٹھ برس اوربعثت کے بعد مکہ مکرمہ میں آنحضرتﷺ کا قیام دس برس بتایا…

Read More