Pasban Islamic Centre

this is an islamic institute in which many of the student get free islamic and other education also there are many online class in which many islamic topic discuss in it.

ذکر الہی کی فضیلت

مفہوم:نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ تم لوگ اللہ تعالی کے ذکر اور قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کیا کرو کہ یہ عمل تمھارے ذکر کا آسمانوں میں سبب بنے گا اورتمہارے لیے ہدایت کا نور ثابت ہو گا.تشریح:انسان ذکر و عبادت کے ذریعے اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بناتا ہے جب ایک انسان زمین پر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ آسمانوں پر اس پر فخر کرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم کی یہ آیت مبارک آپ نے بار ہاسنی ہو گی:فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ“کہ تم مجھے یاد کرو تو میں تمہیں یاد کروں گاوَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠” اور میرے شکر گزار بندے بن کے رہو اور میری نافرمانی نا کرو”اس رویت میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہی ہدایت فرمائی ہے کہ زمین پر اللہ کا ذکر اور قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو . یہ ایسا مبارک عمل ہے کہ اس عمل کے ذریعے آسمانوں میں تمہارے تذکرے ہوں گے اور یہی عمل تمہارے لیے ہدایت کا نور بھی ثابت ہو گا اللہ تعالی مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

Read More

نبی کریم صلی علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنے کی فضیلت

نبی کریم صلی علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنے کی فضیلت عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ (سنن ابی داود، رقم الحدیث:2790) مفہوم حدیث: حضرت حنش روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو دیکھا کہ وہ دو دنبے قربان کر رہے تھے تو میں نے ان سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟(یعنی آپ دو کی قربانی کیوں کررہے ہیں) تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی کہ ان کی جانب سے بھی قربانی کرو ںاس لئے میں ایک دنبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے قربان کر رہا ہوں ۔ تشریح: امت مسلمہ کا ہر فرد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات میں ڈوبا ہوا ہے ۔آپﷺ احسانات کا بدلہ دینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔البتہ بندہ اپنے عشق کا اظہار کرسکتا ہے اور عشق اور محبت کے اظہار کے مختلف طریقے ہیں ۔عید الاضحیٰ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانب سے قربانی کرنامحبت اورعشق کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے اور حضرت علی رضی اللہ ہو تعالی عنہ کے اس عمل سے بھی اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ وہ دود نبوں کی قربانی کر رہے تھے ایک اپنی جانب سے اور ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اور ساتھ یہ فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی کے الفاظ ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی، اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے قربانی کو کبھی ترک نہ کروں گا ۔(ترمذی:1495) اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی مسلمان کو اللہ تعالی ٰنے توفیق دی ہو،تو اسے چاہیے کہ ایک قربانی اپنی جانب سے کرے تاکہ اس کا وجوب ساقط ہوجائے اور دوسری قربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کرے ۔

Read More

قربانی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول

قربانی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي كُلَّ سَنَةٍ. (سنن ترمذی ،رقم الحدیث:1507) مفہوم حدیث: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال تک تشریف فرما رہے ہے اور ہر سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ تشریح: قربانی کرنا بندے کی طرف سے اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار ہے ،اس لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اہتمام کے ساتھ قربانی سر انجام دیا کرتے تھے ۔اس روایت میں حضرت ابن عمر ؓنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بیان فرما رہے ہیں کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس سال تک مدینہ منورہ میں تشریف فرما رہے ہیں، اور ہر سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرنے کا اہتمام فرماتے تھے ۔دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو سیاہ و سفید سینگوں والے دنبے قربان فرماتے تھے،ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے۔ عیدگاہ میںجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید سے فارغ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے جانور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس قربانی کے جانور کو ذبح فرمایا کرتے تھے ۔حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دم شکر کے طور پر سو اونٹ قربان فرمائے تھے، ان میں سے 63 اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے قربان فرمائے تھے اور باقی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کیے تھے، پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربان فرمائے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ سفر کے موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کرنا منقول ہے ۔ صحیح مسلم میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے قربانی فرمائی اور پھر مجھے ارشاد فرمایا کہ ثوبان اس گوشت کا اہتمام کرنا ، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کووہی گوشت کھلاتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔(صحیح مسلم:1975) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے اور سفر کی حالت میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے قربانی فرمائی ، اور پھر اپنے خادم حضرت ثوبانؓ سے ارشاد فرمایا کہ اس گوشت کو اہتمام کے ساتھ رکھو ۔چنانچہ حضرت ثوبانؓ پورے راستے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی قربانی کا گوشت اہتمام کے ساتھ کھلاتے رہے۔ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی علیہ وسلم بڑے ذوق کے ساتھ قربانی کی عبادت سر انجام دیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ہمارے لیے بھی یہ ایک راستہ نکلتا ہے کہ ہمیں بھی ذوق اور شوق کے ساتھ قربانی کی عبادت سرانجام دینی چاہیے۔ اگر کوئی وسعت رکھتا ہے تو وہ اچھا جانور قربانی کے لئے خریدے اور اگر کوئی تنگی کا سامنا کر رہا ہے تو وہ کوشش کرے کہ اجتماعی قربانی میں اپنے لیے کوئی حصہ حاصل کرلے تاکہ اسے بھی قربانی کا ثواب ملے ۔

Read More

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قربانی کا جانور کیسا ہوتا تھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قربانی کا جانور کیسا ہوتا تھا  أو عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان «إذا أراد أن يضحي، اشترى كبشين عظيمين، سمينين، أقرنين، أملحين موجوءين، (سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث:3122) مفہوم حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرنے کا ارداہ فرماتے تو دو بڑے،موٹے تازے ، سینگوں والے ، سیاہ و سفید رنگ والے، خصی دنبے خریدا کرتے تھے ۔ تشریح: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کی عبادت بڑے اہتمام کے ساتھ فرمایا کرتے تھے ،قربانی کا جانور لینے میں بھی آپﷺ کا مخصوص ذوق تھا۔چنانچہ مختلف روایات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانور کی خصوصیات مذکور ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا دنبہ ذبح کرتے جس کی آنکھیں بھی سیاہ ہوتیں، اس کا سینہ اور پیٹ بھی سیاہ ہوتا،اور اس کے پاؤں بھی سیاہ ہوتے اور باقی جسم سفید ہوا کرتا تھا ۔ (ابو داؤد:2792) آج کے درس کی روایت جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ ہو تعالیٰ عنہ سےمروی ہے ا س میں تفصیل کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانور کی خصوصیات مذکور ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے لئے دنبہ خریدتے تھے اور اس میں تین خصوصیات ہوتیں: ۱۔موٹا تازہ اور فربہ ہوتا۔ ۲۔سینگوں والا ہوتا۔ ۳۔خصی ہوتا۔ حضرت امام عبدالرزاق نے اپنی تصنیف میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک ایسا دنبہ لے کر گزرے جو سینگوں والا اور بڑی بڑی آنکھوں والا تھا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور دیکھ کر شوق کا اظہار فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا کہ اس قربانی کے جانور کے مشابہت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دنبے کی طرح ہے ۔حضرت معاذ بن عفراء قریب کھڑے تھے ،جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق ملاحظہ فرمایا تو یہ جانور خرید کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوہدیہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسکی قربانی کی ۔(مصنف عبدالرزاق :8131)

Read More

آپ ﷺ کے کچھ دیگر اوصاف قرآن کریم کی روشنی میں

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺکی مختلف صلاحیتوں کا ذکر کرکے ان کے درست ہونے کی گواہی دی ہے ۔ آپ ﷺکی عقل مبارک کے بارے میں فرمایا: مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى۝۲ۚ (۳۴) ’’(اے مکہ کے باشندو!)یہ تمہارے ساتھ رہنے والے صاحب نہ راستہ بھولے ہیں ،نہ بھٹکے ہیں۔‘‘ آپ ﷺ کی قوت گو یائی کے بارے میں ارشاد ہے: وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۝۳ۭ (۳۵) ’’اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔‘‘ آپ ﷺ کے علم کے بارے میں فرمایا: عَلَّمَہٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى۝۵ۙ (۳۶) ’’انہیں ایک ایسے مضبوط طاقت والے (فرشتے)نے تعلیم دی ہے۔ ‘‘ آپ ﷺ کی قوت بصارت کا ذکر اس انداز سے فرمایا: مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى۝۱۷ (۳۷) ’’(پیغمبر ﷺکی) آنکھ نہ تو چکرائی، اور نہ حد سے آگےبڑھی۔‘‘ آپ ﷺ کی بصیرت کے بارے میں گواہی خداوندی ہے : مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى۝۱۱ (۳۸) ’’جو کچھ انہوں نے دیکھا،دل نے اس میں کوئی غلطی نہیں کی۔‘‘ آپ ﷺ کے اخلاقِ فاضلہ کے بارے میں فرمایا: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۝۴ (۳۹) ’’یقیناًتم اخلاق کے اعلیٰ درجے پر ہو۔‘‘

Read More

ایک دوسرے کو سلام کرنا

ایک دوسرے کو سلام کرنا مفہوم حدیث: نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کرتا ہے تو ان دونوں‌کے گناہ ایسے جڑھتے ہیں جیسے تیز ہوا میں درخت کے پتے جڑھتے ہیں اور ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے اگرچہ ان کے گناہ سمندر کی جاگ کے برابر ہوں‌. تشریح: ایک پرامن اور پر سکون معاشرہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور انسان کی سب سے اہم ضرورت ہےکہ اس کے ماحول میں امن اور سکون ہو اور وہ اطمنانیت کے ساتھ زندگی بسر کرے دوسرے نظاموں کے برعکس اسلام نے اپنے پیروکاروں کو معاشرے میں‌اپن برپا کرنے کا آسان طریقہ بتایا ہے. مثال کے طور پر اس روایت میں‌بیان کردہ تعلیم کو لے لیجئے سلام جیسے آسان عمل کے ذریعے معاشرے میں حصول امن کو ممکن بنایا جا رہا ہے. معاشرہ پر امن اس وقت بنتا ہے جب اس کے افراد کے درمیان محبت ہو ، بھائی چارہ ہو ، ایک دوسرے کے لیے ہمدردی کے جذبات ہوں اور اسلام نے اس کی تعلیم یوں‌دی کہ ایک دوسرے کو سلام کیا کروایک دوسرے کی عیادت کیا کرو . جب انسان کسی بیمار کی عیادت کے لیے جاتا ہے یا دوسرے مسلمان کے حقوق کو پورا کرتا ہے بالخصوص اس کو سلام کرتا ہے تو دوسرے کے دل میں اس کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھرتے ہیں اور جب وہ کہیں آپ کوملے گا تو وہ بھی آپ کو سلام کرے گا. سرکار دوعالم ﷺ نے اپنے مختلف فرامین و ارشادات میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کی اہمیت بیان کی ہے . جیسے یہ روایت آپ نے سنی کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور پھر آگے بڑ کر مصافحہ بھی کرتا ہےتو نتیجیتا ان دونوں کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے کسی درخت کے پتے جڑھتے ہیں یہ جو اتنا بڑا اجر ارشاد فرمایا ہے اس کے پیچھے یہی فلسفہ ہے کہ سلام و مسافحہ کرنے کی وجہ سے ان دونوں افراد کے درمیان محبت پیدا ہوتی ہے ، باہمی ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور پھر معاشرے میں‌امن بھی قائم ہوتا ہے اور افراد سکون سے رہتے ہیں . ضرورت اس بات کی ہے کہ شریعت نے یہ جو چھوٹے چھوٹے اصول ہم کو تعلیم کیے ہیں‌ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے جذبات پیدا کرنے کے لیے ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں محبت پیدا ہو گی امن و سکون بھی آجائے گا.

Read More

مصافحہ کرنے کے آداب

مصافحہ کرنے کے آداب مفہوم حدیث: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ سلام کی تکمیل مصافحہ یعنی ہاتھ ملانے سے ہوتی ہے. تشریح: اس روایت میں نبی کریم ﷺ نے سلام کی تکمیل مصافحہ یعنی ہاتھ ملانے کو قرار دیا . ایک مسلمان جب کسی دوسرے مسلمان سے ملتا ہےتو بوقت ملاقات اس کی تعظیم اور اس کا اکرام بحثیت مسلمان کے اس کا حق ہے. ملنے والے کی تعظیم اور اکرام کے دو درجات ہیں‌پہلا درجہ سلام کرنا ہےزبان سے السلام علیکم کہا جاتا ہے، جس پر دس نیکیاں ملنے کا وعدہ ہے. اور دوسرا درجہ ہاتھ ملانا ہے. جس کو مصافحہ کہا جاتا ہے. یہاں دو باتیں سمجھنا بہت ضروری ہیں‌ایک تو یہ کہ ایک انسان جب دوسرے انسان سے ملا قات کرے تو ہاتھ ملانے سے پہلے زبان سے السلامعلیکم لازما کہے کیونکہ اگر زبان سے السلام علیکم کہنے پر جو نیکیاں ملنی تھیں وہ نہیں‌ملیں گی. اور دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہاتھ ملانے سے پہلے اپنی اور اپنے مخاطب کی صورت حال کو دیکھ لیا جائےبعض اوقات انسان کے ہاتھ گیلے ہوتے ہیں ، یا سردیوں میں ہاتھ ٹھنڈے ہوتے ہیں اس طرح اگر ہاتھ ملائے گے تو دوسرے کو ناگواری ہو گی دوسر ے مسلمان کو ناگواری سے بچانا ہاتھ ملانے سے زیادہ ضروری ہے. اسی طرح اگر آپ دوسرے مسلمان سے ہاتھ ملائے گے تو پہلے اس کی صورت حال بھی دیکھ لینی چاہیے ہو سکتا ہے اس کے ہاتھ میں چائے کا کپ ہو پانی کا گلاس ہو یا لکھنے کے لیے قلم اس کے ہاتھ میں‌ہو جب آاپ اس سے ہاتھ ملائے گے تو اس کو وہ چیز رکھنی پڑے گی اس سے بھی اس کو ناگواری ہو گی تو ہاتھ ملانے سے پہلے اپنی اور اپنے ملنے والے کی صورت حال کو دیکھ لیا جائے. اگر بغیر ناگواری کے ہاتھ ملانا ممکن ہو تو ملا لیا جائے ، ورنہ السلام علیکم زبان سے کہنے پر ہی اکتفاء کر لیا جائے. اللہ رب العالمین مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے.

Read More

شکر اور قناعت کی اہمیت

شکر اور قناعت کی اہمیت مفہوم حدیث: حضرت ابومطر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تین درہم کا کپڑا بازار سے خریدا اور اس کے بعد ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، جس نے مجھے زینت کے کپڑوں‌میں سے ایسا لباس عطا کیا جس کے ذریعے لوگوں میں‌زینت اختیار کرتا ہوں‌اور اپنا ستر چھپاتا ہوں اور اس دعا کے پڑھنے کے بعد فرمایا کہ میں‌نے نبی کریم ﷺ کو یہی دعا پڑھتے ہوئے دیکھا تھا تشریح: اس روایت سے دو باتیں‌معلوم ہوتی ہیں‌کہ یہ کہ انسان کو ہر ھالت میں‌اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے بالخصوص اگر اللہ انسان کو کسی نعمت سے نوازے جیسے نیا لباس آپ کو عطا کرے اور ایسے موقع پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا ہتمام کرنا چاہیےاور اگر ہو سکے تو اس موقع کی مناسبت سے جو الفاظ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوں ، ان مبارک الفاظ کے ساتھ اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے. اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں قناعت کا وصف اختیار کرنا چاہیےقناعت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو جتنی بھی نعمتیں دی ہیں‌انسان ان پر اکتفا کرے اور دنیاوی معاملات میں اپنے سے اوپر والے کو نہ دیکھے. حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ جو آپ نے سنا کہ تین درہم کا کپڑآ خریدا اور اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا تین درہم کا کپڑا اس زمانے میں بڑا معمولی لباس سمجھا جاتا تھا اور بعض مورخین لکھتے ہیں‌کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ آپ کے دور خلافت سے متعلق ہے. یعنی امیر المومنین ہیں . اسلامی ریاست کے حکمران ہیں لیکن تین درہم کے معمولی سے لباس پر اکتفا کر رہے ہیں. میرے اور آپ کے لیے اس میں‌بڑا اہم سبق ہےکہ نہ شکری سے گریز کرنا چاہیےہمارے معاشرے میں ایک چیز عام ہے کہ نعمتوں کے لحاظ سے اپنے سے بڑے کو دیکھا جاتا ہےکہ فلاں کی تنخوا کتنی ہےفلاں کی کی آمدنی کتنی ہے میری آمدنی کم ہے میرا لباس کم تر ہے.جب انسان اس قسم کے خیالات دل میں لاتا ہےتو وہ نا صرف ناشکری کرتا ہے بلکہ اس کی زندگی کا اپنا پن ختم ہو جاتا ہے. اس لیے قناعت اختیار کرنی چاہیےقناعت اختیار کرنے سے انسان اللہ کا شکر گزار بندہ بنتا ہے.اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں اطمینان اور سکون آ جاتاہے.

Read More

شکر کی اہمیت

شکر کی اہمیت مفہوم: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ رب العالمین کو وہ بندہ انتہائی پسند ہے کہ جو کھانے کہ ہر لقمے کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرے اور پانی کے ہر گھونٹ کے ساتھ اس کا شکر ادا کرے. تشریح: شکر ایک ایسا عمل ہے جس سے نہ صرف اللہ تعالی راضی ہوتے ہیں‌بلکہ بندے پر اپنے انعامات کا اضافہ فرما دیتے ہیں‌. قرآن کریم کی آیت ہے: لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ “اگر تم شکر کرو گے تو میں اور اضافہ کر دوں گا” یعنی اپنے انعام ، فضل اور اکرام میں اضافہ کر دوں‌گا. شکر کرنے والے لوگ انتہائی کم ہوتے ہیں‌چنانچہ اللہ قرآن کریم میں حضرت داوُد علیہ السلام کی آل سے مخآطب ہو کر فرماتے ہیں کہ: اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا “کہ اے آل داود شکر کیا کرو” اور ساتھ ہی فرمایا کہ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ “اور میرے بندوں‌میں‌سے شکر گزار بہت کم ہیں” یہ خود اللہ کا فرمان ہے کہ بندے تو بہت ہونگے لیکن شکر کرنے والے بہت کم ہونگے.شیطان نے بھی اللہ کے سامنے یہی اظہار کیا تھا. وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ. “کہ آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائیں‌گے.” ہمارا فرض ہے کہ اپنے اوپر ان انعامات کو دیکھیں اپنے جسم کے اندر اپنے بیرونی سہولیات کا مشاہدہ کریں. اور ہر وقت چلتے پھرتے اللہ کا شکر ادا کریں. بلخصوص جب کھانا کھایا جائے تو کھانے کے دوران دل اللہ کے شکر کے جزبات کے ساتھ لبریز ہونا چاہیے. جیسے اس حدیث میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جو بندہ کھانے کے ہر لقمے کے ساتھ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہےاور پانی کے ہر گھونٹ کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو وہ بندہ اللہ کو انتہائی پسند ہوتا ہے. اللہ تعالی مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی توفیق دے.

Read More

کام کرنے کی قوت میں‌اضافے کا نسخہ

کام کرنے کی قوت میں‌اضافے کا نسخہ مفہوم حدیث: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ہاتھوں پر نشانات پڑنے کی شکایت کی، اور سرکار دوعالم ﷺ کے پاس خادم کی مطلب کے لیے حاضر ہوئی . اس وقت نبی کریم ﷺ گھر میں‌تشریف فرما نہیں‌تھے تو حضر فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا . جب نبی کریم ﷺ گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت فاطمہ کے آنے کی خبر دی. راوی حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم سونے کے لیے لیٹ چکے تھے ، نبی کریم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے میں حضور اکرم ﷺ کو دیکھ کر اٹھنے لگا رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو پھر آپ ﷺ ہمارے درمیان (حضرت علی اور حضرت فاطمہ ) کے درمیان تشریف فرما ہوئے اس طریقے سے کہ میں نبی ﷺ کے پاوٰں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کر رہا تھا اور پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ کیا میں تم دونوں‌کو ایسی بات نہ بتاوٰں جو تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم دونوں اپنے بستر پر جاوٰ سونے کے لیے تو 33 مرتبہ اللہ اکبر، 33 مرتبہ سبحان اللہ اور 33 مرتبہ الحمداللہ کہہ لیا کرو. تشریح: مختلف روایات کا مفہوم ہے کہ حضرت فاطمہ جو نبی کریم ﷺ کی سب سے لاڈلی صاحبزادی تھی اپنے گھر کا کام کاج خود خود کیا کرتی تھی چکی پیسنے اور دیگر امور خانہ داری کے انجام دہی کی وجہ سے ان کے مبارک ہاتھوں پر نشانات پڑ گئے. ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے پاس کہیں سے خادم آئے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان تقسیم کرنے تھے . حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی حاضر ہوئیں کہ مجھے بھی خادم دے دیا جائے تاکہ وہ میرے کام کر لیاکرے اور میرے کاموں میں آسانی ہو نبی کریمﷺ گھر میں‌نہیں تھے بعد میں‌آپ ﷺ گھر تشریف لائے اور حضرت عئشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو بتایا کہ اس طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ خادم کے سلسلہ میں تشریف لائی تھی نبی کریم ﷺ رات کے وقت اپنی صاحبزادی کے گھر تشرف لے گئے اور وہاں جا کر آپ نے ان دونوں‌کو یعنی حضرت علی اور حضرت فاطمہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ دونوں رات کو بستر پر سونے سے پہلے یہ تسبیح پڑھ لیا کرو تو یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے. یہ تسبیح فاطمی کے نام سے مسلمانوں میں‌معروف ہے اس روایت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں. کہ ایک بات میلوم ہوئی کہ خواتین کو گھر میں کام کاج خود کرنا چاہیے . حضرت فاطمہ کی سنت سے یہی معلوم ہوت اہے،دوسری اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ تسبیح فاطمی”33 مرتبہ اللہ اکبر ، 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمداللہ اگر کوئی آدمی رات کو سونے سے پہلے پڑھ لیا کرے تو اسے دو فائدے ہو نگے ایک تو دن بھر کی تھکن دور ہو جائے گی اور دوسرا اس کی ورکنگ پاور میں آضافہ ہو گا . حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے کام کاج کی شکایت لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس گئی تھیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں یہ نسخہ عطا فرمایا یعنی ان کے کام کاج کی معاونت کے لیے خادم کی بجائے اس نسخے کو مسند فرمایا اس لیے اگر کسی آدمی پر کاموں کا بوج زیادہ ہو جاتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس تسبیح کو اپنا معمول بنائے یقینا تھکن بھی دور ہو جائے گی اور اس کی ورکنگ پاور میں اضافہ ہو گا کام کاج اچھے طریقے سے کر سکے گا اور سب سے بڑھ کر اس ثواب حاصل ہو گا . لہذا ان کلمات کو اپنا معمول بنانا چاہیے انسان کو رات سونے سے پہلے یہ تسبیحات مقررہ تعدا د میں پڑھ لینی چاہیے . اس سے انشاءاللہ کاموں‌میں آسانی بھی ہوگی اور برکت بھی ہو گی.

Read More