Hafiz Hassan

نبی کریم ﷺ کی گفتگو کے انداز

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا، قَالَتْ:’’مَا كَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ هَذَا، وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ يُبَيِّنُهُ، فَصْلٌ، يَحْفَظُهُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ۔‘‘ (ترمذی،محمد بن عیسی الترمذی، م:279ھ،سنن الترمذی،رقم الحدیث:5/3639، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، مصر،ط: الثانية، 1395 ھـ) مفہوم حدیث: حضرت عائشہ کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ نبی کریم ﷺ تم لوگوں کی طرح مسلسل تیزی کے ساتھ گفتگو نہیں فرماتے تھے۔ بلکہ آپ ﷺ کی گفتگو میں ہر لفظ اس طرح جدا جدا ہو ا کرتا کہ سننے والا شخص اس کو یاد بھی کرسکتا تھا۔ تشریح: نبی کریم ﷺ کی گفتگو کا انداز اس قدر دلکش تھا کہ مخاطب اس کو سنتے ہی اپنے د ل میں بسا لیا کرتا ۔آپ ﷺ کی گفتگو نہ اس قدر طویل ہوتی کہ سننے والا اُکتا جائے ،اور نہ اس قدر مختصر ہوتی کہ سننے والے کو سمجھ ہی نہ آئے۔نبی ﷺ نہایت اعتدال اور توازن کے ساتھ کلام فرماتے تھے۔ چنانچہ اس روایت میں آپ نے سنا کہ حضرت عائشہ k نبی کریمﷺ کا طرز تکلم بیان فرما رہی ہیں۔کہ نبی کریم ﷺ کی گفتگو کے انداز میں تیزی نہیں تھی۔بلکہ آپ ﷺ جب بات چیت فرماتے تو ہر لفظ جدا جدا کر کے ادا فرماتے۔یہاں تک کہ سننے والا اگر چاہتا تو اس کو سن کر یاد بھی کرلیتا۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ بعض اوقات مخاطب کی ضرورت کے لئے ایک بات کوتین با ر بھی دہرایا کرتے۔(ترمذی،3640) حضرت عبداللہ بن عباس h نبی کریم ﷺ کے کلام کی خوبصورتی کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ گفتگو فرماتے، تو ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے نبی کریم ﷺ کے دندان مبارک سے نور پھوٹ رہا ہو۔(سنن الدارمی،59) یہ ہمارا بنیادی فرض ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک ایک عادت کو پڑھیں اور پھر اس پر عمل کریں، یہ ایمان کا تقاضا ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Read More

رات کو سونے سے پہلے وضو کرنے کے فوائد

قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’مَنْ بَاتَ طَاهِرًا، بَاتَ فِي شِعَارِهِ مَلَكٌ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ إِلَّا قَالَ الْمَلَكُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِكَ فُلَانٍ، فَإِنَّهُ بَاتَ طَاهِرًا‘‘۔ (ابن حبان،محمد بن حبان بن أحمد،م: 354ھ،صحيح ابن حبان،رقم الحدیث: 1051، ص:3/328، مؤسسة الرسالة، بيروت،ط: الأولى، 1408 ھ) مفہومِ حدیث: نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ جو آدمی رات کو باوضو ہو کر سوتا ہے تو فرشتہ اس کے جسم کے ساتھ لگ کر رات گزارتا ہے ۔اور جب بھی وہ بیدار ہوتا ہے تو فرشتہ اس کے لیے دعا کرتا ہے کہ یا اللہ اپنے اس بندے کی مغفرت فرما دیجیے کیوں کہ یہ رات کو باوضو ہو کر سویا ہے ۔ تشریح: مختلف روایات میں نبی کریمﷺ نے رات کو باوضو ہو کر سونے کے فضائل بیان فرمائے ہیں ۔چنانچہ اس روایت میں آپ نے سنا کہ اگر رات کو وضو کر کے سوئیں گے تو بظاہر تو یہ ایک چھوٹا سا عمل ہے۔لیکن یہ چھوٹا سا عمل آپ کو اتنا بڑا فائدہ دے رہا ہے کہ فرشتہ آپ کے لیے دعا کرتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت پر فرشتے کو مامور کر دیتا ہے اور وہ آپ کے لیے مغفرت کی دعا بھی کرتا ہے۔فرشتہ معصوم مخلوق ہے اور جب ایک معصوم مخلوق آپ کے لیے مغفرت کی دعا کرے تو یقیناً اللہ تعالیٰ انسان کی مغفرت فرما دیتے ہیں ۔ ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے رات کو باوضو ہو کر سونے کی یہ فضیلت بیان فرمائی ہےکہ اگر کوئی شخص رات کو وضو کر کے سوئے اور اسی رات اس کا انتقال ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید شمار ہوتا ہے۔(شعب الایمان : 2529) یہ باوضو ہو کر سونے کی اخروی فضیلت ہے ۔اور دنیاوی فضیلت اس کی یہ ہے کہ رات کو باوضو ہو کر سونا انسان کی صحت کی ضمانت ہے ۔کیوں کہ جب آدمی دن بھر کام کاج کرتا ہے تو اس کے جسم کے اعضاء پر مختلف قسم کے جراثیم لگ جاتے ہیں ۔ انسانی جسم کے اندر جراثیم جانے کے دو کھلے ذرائع ہیں ۔ایک تو آپ کے منہ کے ذریعے جراثیم اندر جاتے ہیں اور دوسرا ناک کے ذریعے اندر جاتے ہیں ۔اور جب انسان وضو کرتا ہے تو وضو میں کلی بھی کرتا ہے ،غرارے بھی کرتا ہے اور ناک میں بھی پانی ڈالا جاتا ہے ،ہاتھ بھی دھوئے جاتے ہیں ۔اس طرح جہاں ہاتھ،پاؤں اور چہرہ جراثیم سے پاک ہوتا ہے وہاں ناک اورمنہ کے جراثیم بھی ختم ہوتے ہیں۔ کھانے کے ذرات اگر منہ میں پھنسےہوں وہ بھی نکل جاتے ہیں ۔پھر انسان ساری رات جراثیم سے محفوظ ہو کر سوتا ہے ۔ بظاہر تووضو کر کے سونا یہ چھوٹا ساعمل ہے لیکن یہ چھوٹا سا عمل آپ کو آخرت کے اجر کے ساتھ ساتھ صحت کی بھی ضمانت دیتاہے۔اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں ۔

Read More

وضو اہتمام کے ساتھ کیجئے

وضو اہتمام کے ساتھ کیجئے فَقَالَ (ابوہریرہ): إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ ’’إِنَّ أُمَّتِي يُدْعَوْنَ يَوْمَ القِيَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ آثَارِ الوُضُوءِ۔‘‘(بخاری،محمد بن اسماعیل البخاری م:256ھ،صحیح البخاری رقم الحدیث :136،ص:39،ج:1،ناشر:دار طوق النجاہ،ط:الاولیٰ1422ھ) مفہومِ حدیث: حضرت ابوہریرہ h سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کو جب قیامت کے دن بلایا جائے گا، تو ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں وضو کے اثرات کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے۔ تشریح: طہارت وپاکیزگی اور شریعت کے مقررہ کردہ طریقہ کار کے مطابق طہارت حاصل کرنا ،یہ ایک ایسا مبارک عمل ہے کہ جس کی وجہ سے انسان شیطانی اثرات سے دور اور فرشتوں کےا ثرات کے قریب جاتا ہے۔اس لیے انسان جب حالت طہارت میں ہوتا ہےتو گناہ کی طرف اس کا میلان بہت کم ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وضو کا طریقہ کار گذشتہ امتوں میں بھی موجود تھا۔مگر اس امت کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے امتیازات عطا فرمائے ہیں ،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وضو بھی ان کے لئے ذریعہ متیاز بنایا گیا ہے۔ اس روایت میں آپ نے سنا کہ جب قیامت والے دن اس امت کے افراد کو بلایا جائے گا تو ان کے چہرے، ہاتھ ، پاؤں سمیت تمام اعضاء وضو طہارت کی وجہ سے چمکتے دمکتے ہوں گے ،اور یہی ان کی پہچان کا ذریعہ ہوگا کہ یہ سرکار دو عالم ﷺ کی امت کے باسعادت افراد ہیں۔ اسی لئے ہمارے ہاں جو ایک عام طریقہ کار ہے کہ بغیر سوچے سمجھے ، بغیرتوجہ دیے، بغیرکسی اہمیت کے وضو کر لیتے ہیں،یہ عادت ختم کرنی چاہیے وضو کو اہمیت دینی چاہئے اور سنت کا استعمال وضو میں کرنا چاہئے۔نبی کریم ﷺکے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق سوچ سمجھ کر اہتمام کے ساتھ وضو کرنا چاہیے۔

Read More

وضو کے بعد کی دعا

وضو کے بعد کی دعا ’’مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ الْوُضُوْءَ، ثُمَّ يَقُولُ حِينَ يَفْرُغُ مِنْ وُضُوئِهِ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةُ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا ۔‘‘(ابو داوود سلمان بن اشعث م: 275 ھ ،سنن ابی داوود، رقم الحدیث:169 ص:43ج:1ناشر:المکتبۃ العصریہ صیدا بیروت) مفہومِ حدیث: نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر وہ مسلمان جو اچھے طریقے سے وضو کرنے کے بعد آسمان کی طرف منہ اٹھا کر یہ کلمہ پڑھے (اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ) تو اس کے لئے جنت کے 8 دروازے کھل جاتے ہیں کہ وہ جس سے چاہے گا داخل ہوگا ۔ تشریح: ایک مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے بندگی کے اظہار کا سب سے اہم طریقہ نماز پڑھنا ہے۔ نماز کی اسی اہمیت کے پیش نظر شریعت نے یہ لازم قرار دیا ہے ،کہ جب کوئی مسلمان نماز شروع کرے تو اس کا بدن پاک ہونا چاہیے اور بدن کے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ اس کے بدن کے ساتھ ساتھ اس کا دل بھی روحانی نجاستوں اور گندگی سے پاک ہو ۔ اب یہ دواہم چیزیں ہیں کہ نماز شروع کرنے سے پہلے آپ کا بدن بھی پاک ہو اور آپ کا دل بھی پاک ہو ۔ بدن کی طہارت کے لئے انسان وضو کرلیتا ہے ،کہ جب وضو کرتا ہے تو اس کا جسم طہارت حاصل کر لیتا ہے۔اور دل کی طہارت ایمان کے ذریعے ہوئی ہے اسی مقصد کے لئے وضو کرنے کے بعد کلمہ شہادت کو مسنون قرار دیا گیا ہے۔جب مسلمان وضو کرے تو وضو کرنے کے بعد کلمہ شہادت کے ذریعے اپنے ایمان کی تجدید کرے اور ایمان کی تجدید کرنے کے ذریعے وہ اپنے دل کو گندگیوں سے پاک کریں۔ جب یہ دونوں کام ہو جائیں گے کہ وضو کرے اور بعد میں کلمہ شہادت پڑے گا۔(بعض روایات میں اس پر ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ  مِنَ  الْمُتَطَھِّرِیْنَ کہ اللہ تعالیٰ مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا دے اور مجھے پاک صاف لوگوں میں بنا دیجئے۔جب یہ دعا مکمل وضو کرنے کے بعد پڑھی جائے گی) اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بندے کا بدن بھی پاک ہے اور اس کا دل بھی پاک ہے اور ان دونوں کی طہارت کے بعد جب وہ نماز جیسی اہم عبادت میں داخل ہوگا تو یقیناً اسے نماز کے فوائد اور برکات بھی حاصل ہوں گی۔

Read More

باجماعت نماز کی اہمیت

باجماعت نماز کی اہمیت قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہ عَنْہُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ فِتْيَتِي فَيَجْمَعُوا حُزَمًا مِنْ حَطَبٍ، ثُمَّ آتِيَ قَوْمًا يُصَلُّونَ فِي بُيُوتِهِمْ لَيْسَتْ بِهِمْ عِلَّةٌ فَأُحَرِّقَهَا عَلَيْهِمْ۔‘‘ (ابوداود،سلمان بن اشعث،م:275ھ،سنن ابی داود، رقم الحدیث:549، ص:1/150، المكتبة العصرية، صيدا بيروت) مفہوم حدیث: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میری خواہش ہے کہ میں اپنے کچھ نوجوانوں کو بلاؤں اوروہ میرے لئے بہت سارا ایندھن جمع کریں اور پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بغیر کسی عذر کے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ان کے گھروں کو جلا ڈالوں۔‘‘ تشریح: اسلام ایک معاشرتی مذہب ہے اور معاشرے کے لوگوں کے درمیان اجتماعیت قائم کرنا یہ اسلام کا اولین مقصد ہے۔ معاشرے کے لوگوں کے درمیان الفت،محبت،بھائی چارہ قائم کرنا،یہ بھی اسلام کے پیش نظر ہے۔کہ لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں،ایک دوسرے کے حال احوال پوچھا کریں، اسی طرح سے لوگوں میں مساوات قائم کرنا یہ بھی دین اسلام کا اہم مقصد ہے۔ اب ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے شریعت نے جہاں مختلف احکامات جاری کئے ہیں۔ باجماعت نماز کے ذریعے بھی ضمنی طور پر ان مقاصد کو حاصل کیا جاتا ہے۔نماز ایک اہم عبادت ہے اور شریعت نے مردوں کو پابند کیا ہے کہ وہ مسجد میں میں جا کر فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام کریں۔ جب انسان باجماعت نماز میں شریک ہوتا ہے تو جہاں وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر عمل کرتا ہے۔ وہاں شریعت کے یہ مقاصد بھی حاصل ہوتے ہیں۔کہ نماز باجماعت کے ذریعے اجتماعیت پیدا ہوتی ہے۔ پورے محلے کےلوگ پانچ وقت مسجد میں جمع ہوکر نماز پڑھتے ہیں۔باہمی محبت بڑھتی ہے، بھائی چارہ بڑھتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات پروان چڑھتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ جماعت میں مساوات حاصل ہوتی ہے ، سب لوگ ایک صف میں کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے ہیں ،اس میں کسی امیر غریب کی کسی کالے اور گورے کی یا کسی رنگ سے تعلق رکھنے کا امتیاز نہیں رکھا جاتا۔ باجماعت نماز کی ادائیگی میں شریعت کے یہ مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے حکم پر عمل ہوتا ہے۔اسی لئے نبی کریمﷺ نے باجماعت نماز کی ادائیگی مردوں کے لئے لازم قرار دی ہے۔ اس روایت میں آپ نے سنا کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرمارہے ہیں کہ میری یہ خواہش ہے کہ میں کچھ لوگوں کو حکم دوں کہ وہ میرے لئے ایندھن جمع کریں اور پھر میں جاکر ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو بغیر کسی عذر کے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں ۔ باجماعت نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ حضرت عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ عنہ وہ نابینا صحابی تھے وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کروں ؟کیونکہ مجھے کوئی مسجد لانے والا نہیں ہے تو نبی کریمﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم اذان سنتے ہو ؟تو انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں اذان تو میں سنتا ہوں۔آواز آتی ہے گھر میں۔تو نبی کریم ﷺ نے ان کو پابند کیا کہ مسجد آکر نماز ادا کیا کرو۔(سنن ابی داؤد،552) اور بھی درجنوں روایات ہیں جو نماز کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں۔اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ فرض نماز مسجد میں جا کر ادا کرنی چاہیے ۔جب آپ مسجد جائیں گے گھر سے تو آپ کو ہر ہر قدم پر ثواب ملے گا ۔ پھر آپ جب مسجد میں نماز کا انتظار کریں گے۔تو ہر ہر لمحہ آپ کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزرے گا۔باجماعت نماز کو اپنی عادت بنائیے،اللہ تبارک تعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیے۔آمین

Read More

نماز کیلئے چلنا

نماز کیلئے چلنا عَنْ جَابِرٍ،أَنَّہٗ قَالَ: أَرَادَ بَنُوْ سَلْمَۃَ أَنْ یَّبِیْعُوْادَیَارَھُمْ، یَنْتَقِلُوْنَ قُرْبَ الْمَسْجِدِ، فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ’’دِیَارُکُمْ فَإِنَّمَا تُکْتَبُ اٰثَارُکُمْ۔‘‘(ابن حنبل ،احمد بن حنبل م:241ھ مسند احمد بن حنبل ،رقم الحدیث:14991 ص:241، ج:23، ناشر:مو سسۃ الرسالۃ ،ط:الاولیٰ1421ھ) مفہوم حدیث: حضرت جابر h سے روایت ہے کہ بنو سلمہ کے لوگوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے مکانات بیچ کر مسجد نبوی کے قریب منتقل ہو جائیں، نبی کریمﷺ کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اپنے مکانات میں ہی رہو کیونکہ تمہارے قدموں کے نشانات کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ تشریح : مدینہ طیبہ میں بنو سلمہ انصار کا ایک قبیلہ تھا ،ان کے مکانات مسجد نبوی سے کچھ فاصلے پر تھے۔ تو مسجد نبوی کے شوق میں انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے مکانات بیچ کر مسجد نبوی کے قریب زمین حاصل کرکے مکانات تعمیر کیے جائیں۔ رسول ﷺ کو جب یہ خبر ہوئی تو ان کو آپﷺ نے منع کیا ،اور فرمایا کہ اپنے مکانات میں ہی رہو، اگرچہ تمہارے مکانات کچھ فاصلے پرہیں ۔لیکن تم جب مسجد نبوی چل کر آتے ہو تو تمہارے قدموں کے نشانات کاثواب بھی تمہارے نامہ عمال میں لکھا جاتا ہے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں: پہلی بات یہ کہ انسان الله جل جلالہ کی مرضی کے لئے جو بھی عمل کرتا ہے ، الله تعالیٰ اسکا اجر بڑھا چڑھا کر اسکے نامہ عمال میں لکھتے ہیں۔نیک عمل کا اجر الگ سے لکھا جاتا ہے، اور عمل کرنے کے لئے جو اسباب انسان اختیار کرتا ہے ان کا اجر الگ سے لکھا جاتا ہے۔مثلاً آپ مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، نماز جیسے عظیم فریضے کی انجام دہی کا جو ثواب ہے وہ تو آپ کو ملتا ہی ہے۔ مگر اس نماز کے لئے جو اسباب آپ نے اختیار کیےکہ آپ گھر سے نکلے ،آپ راستے میں چلے پیدل ہوں، یا سواری پر، اور وضو آپ نے کیا، صفائی ستھرائی آپ نے اختیار کی،ان تمام اسباب کا ثواب نامہ عمال میں الگ سے لکھا جاتا ہے۔انسان کے ساتھ یہ الله تعالیٰ کی رحمت کا معاملہ ہے کہ جب وہ کوئی نیک کام کرتا ہے،الله تعالیٰ کی طرف بڑھتا ہے، خواہ ایک قدم ہی کیوں نہ ہو،تو الله تعالیٰ کی طرف سے انسان کی اس کاوش کی بھر پور قدر کی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں ، یہ انسان کے حق میں گواہی بھی دے گی، آپ اس پر جو نیک کام ،یا غلط کام کرتے ہیں۔ دونوں قسم کے امور کی گواہی یہ زمین انسان کے حق میں یا اسکے خلاف دے گی ۔ ارشاد ربانی ہے: يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا۝۴ۙ (سورۃ زلزال:۴) ’’اس دن زمین اپنی تمام خبریں بیان کرے گی۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے ایک روایت نقل کی ہے، حضرت ابوہریرہ hفرماتے ہیں،کہ رسولﷺ سے سوال کیا گیا کہ یا رسول الله! وہ کیا چیزیں ہوں گی جو زمین الله تعالیٰ کی بارگاہ میں بیان کرے گی؟تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم جو عمل کرتے ہو اس روئےزمین پر ،تو یہ زمین تمہارا ہر عمل الله تعالیٰ کی بارگاہ میں بیان کرے گی۔(ترمذی : 3353) حضرت علی المرتضیٰ h کے حالات میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ جب وہ بیت المال کا سارا مال لوگوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے، توبیت المال میں وہ دو رکعت نفل پڑھتے تھے، اور زمین کو مخاطب کرکے فرماتے تھے ۔کہ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ گواہی دینا کہ میں نے حق کے سلسلے میں مال جمع کیا،اور حقداروں میں تقسیم کر دیا۔ تو معلوم ہوا اس زمین پر آپ جو بھی کام کرتے ہیں تو زمین الله تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کے حق میں یا آپ کے خلاف اس کی گواہی دے گی۔ آپ جب اس زمین پر چلتے ہوئے نماز کے لئے مسجد آتے ہیں، تو آپ کے قدموں کے نشانات کا اجر بھی لکھا جاتا ہے، اور زمین قیامت کے دن آپ کے حق میں گواہی بھی دے گی۔کہ یہ میرے اوپر چل کر مسجد جایا کرتا تھا۔

Read More

سبحان اللہ وبحمدہ کی فضیلت

سبحان اللہ وبحمدہ کی فضیلت عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي المِيزَانِ: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللہِ العَظِيمِ ۔‘‘ (بخاری،محمد بن اسماعیل البخاری م:256ھ صحیح البخاری،رقم الحدیث6406:ص:86ج:8،ناشر؛دار طوق النجاہ۔ط؛الاولیٰ1422ھ) مفہوم حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دو کلمےایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں اور میزان عمل میں بہت بھاری ہیں اور اللہ تعالی کو بہت محبوب ہیں اور وہ دوکلمے یہ ہیں: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ تشریح: انسان کی اخروی کامیابی اور نقصان کا دارومدار اس کے نامہ اعمال پر ہے اگر اعمال نامہ بھاری نکلا تو کامیاب ہوجائے گا۔ قرآن کریم کی سورۃ المؤمنون آیت ۱۰۲ میں بھی اس کا ذکر ہےـ(فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ) کہ جس شخص کا میزان بھاری نکلے گا اس نےنیکیاں زیادہ کی ہوگی تو وہ شخص ہمیشہ کے لئے فلاح پا جائے گا اور (وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ) جس کا میزان عمل ہلکا پڑ جائیگا ،اس میں نیکیاں کم ہوںگی ـ(فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فِيْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ) تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈالا، اور یہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ معلوم ہوا کہ نجات کا دارومدار میزان عمل پر ہے، حسنات کی مقدار پر ہے اگر نیکیاں زیادہ ہوگی تو کامیابیوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس روایت میں نبی کریم ﷺ نے نامہ اعمال کو وزنی کرنے کا ایک آسان نسخہ بتایا ہے کہ دو کلمات ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں انسان لمحہ بھر میں ان کو پڑھ لیتا ہے۔مگر نامہ اعمال کے لئے یہ ایک لمحہ بھی بہت وزنی ہے۔ ان کی ایک اور خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کو یہ دو کلمے بہت محبوب ہیں۔ اور وہ دو کلمے یہ ہیں(سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ ) کہ میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اور (سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ ) میں اللہ کی پاکیزگی بیان کرتاہوں جونہایت عظمتوں والا ہے۔یہ انتہائی خوبصورت کلمات ہیں ۔لہذا آپ کوشش کیجیے کہ اپنی زندگی کے معمولات میں ہر روز مناسب مقدار میں پڑھیں تاکہ اس کی وجہ سے آپ کا کا نامہ اعمال روزانہ کی بنیاد پر وزنی ہوتا رہے۔

Read More