Hafiz Hassan

منصب امامت اور امت مسلمہ

منصب امامت اور امت مسلمہ

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْن وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمَّد وَ عَلَى اَلِهِ وَاَصْحَابِهِ اَجْمَعِيْنَ وَعَلى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاِحْسَانِ اِلَى يَوْمِ الدِّيْنِ اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهيمَ رَبُّه بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ صدق الله مولانا العظیم ترجمہ: اور (وہ وقت یاد رکرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا، اور انہوں نے وہ ساری باتیں کیں، اللہ نے ا(ان سے)کہا: میں تمھیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔  ابراہیم نے پوچھا: اور میری اولاد میں سے؟ اللہ نے فرمایا میرا(یہ ) عہد ظالموں کو شامل  نہیں ہے۔ بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو ! دنیا میں یا اس روئے زمین پر انسان اور اس کے خالق کے تعلق ہو مذہب کہا جاتا ہے۔ یعنی مذہب کا اگر آسان انداز میں آپ تعارف جاننا چاہیں۔ ویسے تو اس کی فلسفیانہ تعریفیں بھی ہیں، پیچیدگیاں ہیں، اس میں پیچیدہ لمبے چوڑے مباحث ہیں لیکن اگر آسان انداز میں ایک جملے میں کوئی مذہب کو سمجھنا چاہے تو یوں کہہ سکتا ہے کہ روئے زمین پر اللہ تعالی اور انسان کے درمیان تعلق کا جو واحد واسطہ ہے وہ مذہب برحق یا دین برحق کی اتباع ہے۔ گویا یہ ایک ایسا ذریعہ ہے کہ اس کی اتباع کر کے اس کے راستے پر چل کر انسان اپنے خالق کو حاصل کر سکتا ہے۔ مذہب کی تاریخ اس روئے زمین پر اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ انسان کی تاریخ پرانی ہے۔ بلکہ اگر کوئی یہ کہنا چاہے تو کہہ سکتا ہے کہ انسان کی تاریخ سے پہلے بھی اس کائنات میں مذہب موجود تھا۔ جب فرشتے اللہ تبارک و تعالی کے عبادت کرتے تھے۔اپنے خالق کی رضامندی حاصل کرتے تھے۔  اس کائنات میں انسان نہیں تھا لیکن مذہب موجود تھا ۔ جب پہلا انسان اس روئے زمین پر آیا تو اس روئے زمین پر اپنے ساتھ مذہب کو لے کر آیا ۔اللہ تبارک و تعالی کے تعارف کی ذمہ داری اور منصب لے کر زمین پر وارد ہوا اور جوں جوں انسانیت آگے ترقی کرتی گئی، مذہب میں بھی ارتقا آتا گیا۔ اللہ تبارک و تعالی اپنے احکامات میں تبدیلی کرتا رہا ترقی لاتا رہا یہاں تک کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو اللہ تبارک و تعالی نے دین کو بھی مکمل کر دیا ۔ معلوم ہوا کہ جتنی انسانی تاریخ پرانی یا قدیم ہے، اسی قدر روئے زمین پر مذہب کی تاریخ بھی قدیم ہے۔ مذہب پر عمل کرنے میں انسان کو کچھ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عشق کی وادی ہے اور اس کا قدم قدم پرخار ہوا کرتا ہے ۔ قرآن کریم میں اس کو گھاٹی سے تعبیر کیا گیا  فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ پھر وہ اس گھاٹی میں داخل نہیں ہوسکا۔ اور تمھیں کیا پتہ کہ وہ گھاٹی کیاہے؟ کہ تمہیں کیا معلوم کہ یہ گھاٹی کیا ہے؟ یعنی دین اسلام پر عمل کرنا اور دین کے احکامات پر عمل پیرا ہونا اس کو ایک گھاٹی سے تعبیر کیا گیا۔ گھاٹی پہاڑوں کے درمیان جو ذرا دشوار گزار راستہ ہوتا ہے اسے گھاٹی کہا جاتا ہے۔ جس سے گزرنا عام طور پر آسان نہیں ہوتا تو اس آیت میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے مذہب پر عمل کرنے کو گھاٹی سے تعبیر کیا کہ کچھ لوگ تو یہ گھاٹیاں عبور کر جاتے ہیں اور کچھ لوگ درمیان میں ہی فیل ہو جاتے ہیں۔ کچھ شروع ہی سے ہمت ہار جاتے ہیں۔ یہی صورتحال مذہب کی ہے کہ کچھ لوگ اس کی حقیقت کو پا جاتے ہیں، کچھ درمیان میں بھٹک جاتے ہیں اور کچھ شروع ہی سے مذہب کے راستے پر قدم رکھنے سے کتراتے ہیں۔ تو مذہب پر عمل کرنے میں کچھ پیچیدگیاں ہوتی ہیں کچھ مشکلات برداشت کرنی ہوتی ہیں کچھ آزمائشیں ہوتی ہیں۔ جب آدمی ان آزمائشوں سے گزر جاتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ ایک انعام تو جنت کا ہے جو آخرت میں ملے گا۔ اس سے ہٹ کر دنیا میں اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے مختلف انعامات انسان کو دیے جاتے ہیں۔ جب وہ اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے اور صحیح مذہب کے راستے پر چلتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام انبیاء کرام کے والد کہلاتے ہیں۔ ابو الانبیاء ان کو کہا جاتا ہے ان کے بعد آنے والے جتنے بھی انبیاء تھے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے اسوہ حسنہ میں جہاں انسان کے لیے اور بہت سارے درس کے راستے ہیں سبق کے راستے ہیں وہاں مذہب کی اہمیت کو اگر کوئی سمجھنا چاہے ، اس کے راستے میں آنے والی مشکلات کو اگر کوئی دیکھنا چاہے اور ان مشکلات کو عبور کر کے اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے ملنے والے انعامات کو اگر کوئی پرکھنا چاہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ حسنہ اور ان کی سیرت کو پڑھ کر ان تمام سوالات کے جوابات حاصل کر سکتا ہے۔ کس طریقے سے انہوں نے اللہ  کی اطاعت کی اور اطاعت کے اس راستے میں مختلف امتحانات سے گزرنا پڑا۔ آزمائشیں آئیں اور جب ان آزمائشوں سے وہ گزر گئے کامیاب ہوئے تو اب اللہ کی جانب سے انہیں انعام ملا۔  وہ کس نوعیت کا تھا تو میں مختصرا عرض کیے دیتا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جس علاقے میں تشریف لائے تھے ،مورخین اسے عرب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آج جہاں بغداد ہے عراق میں اس سے کوئی 60،  70 کلومیٹر کے فاصلے پر وہ علاقے ہیں۔ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے تفہیم القران میں اس شہر کی کچھ تفصیلات لکھی ہیں کہ یہ اس زمانے کا بڑا متمدن اور مہذب شہر تھا ترقی یافتہ کہلاتا تھا۔ اڑھائی لاکھ سے پانچ لاکھ تک اس کی آبادی تھی۔ بڑے تجارت تجارت کرنے والے لوگ تھے۔ چونکہ مذہب سے دور تھے صحیح راستے سے ہٹے ہوئے تھے تو تجارت کی جو بگڑی ہوئی شکلیں…

Read More
مسئلہ کشمیر اخوت اور بھاءی چارگی

مسئلہ کشمیر اخوت اور بھاءی چارگی

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ وَالصّلَاةُ وَالسّلامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمّدوعَلى الِه وَاَصْحَابِه اَجْمَعِيْنَ وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاحْسَانٍ اِلَى يَومِ الدِيْنِ امَّا بَعْد!  قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الا كل شيء من امر الجاهليه موضوع تحت قدمی بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو!  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا ” الا كل شيء من امر الجاهليه موضوع تحت قدمی کہ یاد رکھو جاہلیت کے زمانے کے تمام معاملات تمام جاہلی رسم میں آج میرے قدموں تلے ہیں”  گویا اس جملے کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام جاہلیت کے رسوم کے خاتمے کا اعلان فرمایا تھا۔ یہ جاہلی رسمیں یا جاہلی قدریں کیا تھی؟ ان میں یہ طبقاتی امتیاز بھی تھا، نسلی بنیادوں پر فخر بھی تھا، فحاشی بھی تھی، عریانی بھی تھی، مختلف رسمیں بھی تھیں، جو زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے درمیان رائج تھیں، جو اسلام سے متصادم تھیں۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ان کے خاتمے کا اعلان فرمایاان رسموں میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ زبانی معاہدات کے ذریعے رشتے قائم کرتے تھے۔ زبانی کلامی رشتے ان کے درمیان قائم ہوتے تھے۔ وہ رشتے پھر برقرار رہتے تھے اور بعض اوقات ان میں سے ایک کے انتقال کی صورت میں ان کے درمیان وراثت بھی چلتی تھی۔ اگر کسی نے کسی کو کہہ دیا کہ تم میرے بھائی ہو تو وہ اس کا بھائی شمار ہوتا تھا۔ اگر ایک آدمی نے دوسرے کو اپنا بیٹا بنا لیا تو عرب اس کو اس کا حقیقی بیٹے کا سٹیٹس دیتے تھے۔ وہ اس کا والد تصور ہوتا تھا، وہی اس کا کفیل ہوتا تھا، ذمہ دار ہوتا تھا اور اس کی موت کے بعد اس بیٹے کو بھی وراثت میں شریک تصور کیا جاتا تھا۔ تو یہ زبانی رشتے تھے جو زبان کی بنیاد پر وہ قائم کرتے تھے۔ کسی کو بھائی بنا لیا کسی کو بیٹا بنا لیا۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اسی رواج کے مطابق اپنا بیٹا بنایا تھا یہ بکتے بکتے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کے پاس آئے تھے۔ حضرت خدیجہ نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے آپ علیہ السلام کے سپرد کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ بڑا لگاؤ اور بڑی انسیت تھی۔حضرت  زید بن حارثہ کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی درجے کے انسیت تھی۔ یہاں تک کہ ان کے والدین ان کو تلاش کرتے کرتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور درخواست کی کہ آپ ان کو ہمارے سپرد کر دیں۔ اگر کچھ لینا بھی ہے،آپ کے ان پہ اخراجات ہوئے ہوں تو ہم دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم اس کو بلا لو اور اس سے پوچھ لو اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو مجھے کسی چیز کی طلب نہیں ہے اس کو لے جاؤ۔حضرت زید بن حارثہ کو بلایا گیا تو انہوں نے اپنے والدین کی پیشکش کو رد کیا اور بنسبت والدین کے ساتھ جانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے کو اختیار کیا۔جب والدین نے ان کا اتنا لگاؤ دیکھا تو وہ مطمئن چلے گئے کہ ہمارا بیٹا محفوظ ہاتھوں میں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ اس حد تک لگاؤ تھا کہ انہیں اپنا بیٹا بنایا تھا۔ اور عام معاشرتی چلن کی وجہ سے معاشرے میں لوگ انہیں زید بن محمد کہنا شروع ہو گئے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت بھی ان کی وجہ سے ابو زید پڑ گئی تھی۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنے خاندان کی ایک نامور خاتون حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے کیا۔تو اللہ تبارک و تعالی نے اس رسم کو ختم کرنا تھا کہ یہ جو زبانی کلامی معاہدوں کی وجہ سے یا لوگوں کی باتوں کی وجہ سے جو رشتے وجود میں آتے ہیں تو ان رشتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ قرآن کریم کی آیت بھی نازل ہوئی اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ کہ یہ جو تمہارے منہ بولے بیٹے ہیں ان کو اپنے حقیقی ابا ان کے جو حقیقی والد ہیں ان کی طرف نسبت کر کے ان کو پکارا کرو۔ کہ فلاں فلاں کا حقیقی بیٹا ہے هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ اللہ تبارک و تعالی کے ہاں یہی بات زیادہ انصاف اور زیادہ عدل والی ہے چنانچہ حضرت زیدبن حارثہ کو لوگ پھر دوبارہ زید بن حارثہ کہنا شروع ہو گئے اور وہ جو درمیان میں انہیں زید بن محمد کہنے کا ایک رواج چلا تھا تو صحابہ کرام نے اس کو ترک کیا۔  عربوں میں ایک اور رسم تھی کہ چونکہ منہ بولے بیٹے کو وہ حقیقی بیٹے کی طرح سمجھتے تھے اور جو منہ بولے بیٹے کی بیوی ہوتی تھی اسے بھی حقیقی بہو کی طرح تصور کیا جاتا تھا۔ان کے معاشرے میں یہ بڑی معیوب بات تھی کہ اگر وہ منہ بولا بیٹا کسی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو بعد میں اس کا جو منہ بولا والد تھا وہ اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ ان کے ہاں بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا کہ اگر کوئی اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے شادی کر لے۔  اللہ جل جلالہ نے اس رسم کو ختم کرنا تھا اور رسم کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیا چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے درمیان نبھاؤ نہ ہو سکا۔ دونوں میں فرق تھا۔ بہرحال مختلف وجوہات تھیں جن کی وجہ سے نوبت طلاق تک جا پہنچی۔ اب جب زینب بنت حجش کو طلاق ہوئی تو اللہ تبارک و تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ زینب بنت حجش کے ساتھ نکاح فرمائیں۔ شروع میں…

Read More
Surah al-Nisa

Surah Al-Nisa Tarjuma o Tafseer (11 Lectures)

Yeh playlist Pasbaan Islamic Center ki taraf se tayar ki gayi hai, jisme Surah Al-Nisa ka Tarjuma aur Tafseer shamil hai. 11 classes par mushtamil yeh series Quran samajhne ke liye ek zabardast resource hai. Har class mein ayat ki tilawat, tarjuma, aur asan zuban mein tafseer share ki gayi hai. Surah Al-Nisa, jo insani haqooq aur islami qanoon ka ek aham hissa hai, ko samajhne ke liye yeh series zaroor dekhein. یہ پلی لسٹ پاسبان اسلامک سینٹر کی طرف سے تیار کی گئی ہے، جس میں سورۃ النساء کا ترجمہ اور تفسیر شامل ہے۔ 11 کلاسز پر مشتمل یہ سیریز قرآن سمجھنے کے لیے ایک زبردست ذریعہ ہے۔ ہر کلاس میں آیات کی تلاوت، ترجمہ اور آسان زبان میں تفسیر پیش کی گئی ہے۔ سورۃ النساء، جو انسانی حقوق اور اسلامی قانون کا ایک اہم حصہ ہے، کو سمجھنے کے لیے یہ سیریز ضرور دیکھیں۔

Read More
surah al imran

Surah Al-Imran ki Mukammal Tafseer (13 Classes)

Yeh playlist Pasban Islamic Center ki taraf se tayar ki gayi hai, jisme Surah Al-Imran ki 1 to 13 Classes tak ka tafseer shamil hai. 13 classes par mushtamil yeh series Quran samajhne ke liye ek zabardast resource hai. Har class mein ayat ki tilawat, tarjuma aur asan zuban mein tafseer share ki gayi hai. یہ پلی لسٹ پاسبان اسلامک سینٹر کی طرف سے تیار کی گئی ہے، جس میں سورۃ آل عمران کی 1 سے 13 کلاسز تک کی تفسیر شامل ہے۔ 13 کلاسز پر مشتمل یہ سیریز قرآن سمجھنے کے لیے ایک زبردست ذریعہ ہے۔ ہر کلاس میں آیات کی تلاوت، ترجمہ اور آسان زبان میں تفسیر پیش کی گئی ہے.

Read More
Muslims

دور حاضر کا مسلمان

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ وَالصّلَاةُ وَالسّلامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمّدوعَلى الِه وَاَصْحَابِه اَجْمَعِيْنَ وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاحْسَانٍ اِلَى يَومِ الدِيْنِ امَّا بَعْد!  فَاَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَیْطَانِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْم یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ صَدَقَ اللهُ الْعَظِيْمُ ترجمہ آیت: اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری  مدد کرے گا، اور تمھارے قدم جما دے گا۔ بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو! مسلمان اللہ تبارک و تعالی پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کی وحدانیت کا دم بھرتا ہے۔ اس کو معبود مانتا ہے۔ اس کے سامنے اپنا ماتھا ٹکاتا ہے۔ صرف اسی کے سامنے سجدہ کرتا ہے۔ اس کی اطاعت کرتا ہے اور بدلے میں اللہ تبارک و تعالی اس کی مدد کرتا ہے۔ یہ ہر دور میں ہوتا آیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہر زمانے میں اہل ایمان کی مدد اور نصرت فرمائی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آج مسلمان اتنا ذلیل کیوں ہے؟ آج کے دور کو اگر ہم دیکھیں تو مسلمانوں کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ تعداد کے اعتبار سے اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ دنیا کی چھ ارب کی آبادی میں سے ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان ہیں۔ گویا کہ دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے اور اللہ تبارک و تعالی نے 57 مسلمان ممالک کو ہر اعتبار سے نوازا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمان غیر مسلم طاقتوں کا محتاج رہتا ہے۔ بطور مثال کے آپ پاکستان کو لے لیجیے تو اللہ تبارک و تعالی نے اس وطن کو افرادی اور دفاعی اعتبار سے طاقت بخشی ہے۔ معاشی طور پر اس کا دارومدار غیر مسلم اقوام پر ہے۔ عرب ممالک مشرق وسطی کے ممالک کو دیکھیے، معاشی طور پر وہ مضبوط ہیں لیکن دفاعی اعتبار سے کمزور ہیں۔ وہ غیر مسلم طاقتوں کے سامنے سر بسجود رہتے ہیں۔ دنیا میں ایک بھی ایسا مسلمان ملک نہیں ہے جو غیر مسلم طاقتوں کی دست اندازی سے محفوظ ہو اور سر اٹھا کر جینے جینے کا سلیقہ رکھتا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کی مدد کن کے ساتھ ہے؟ اللہ تعالی نے ہر دور میں اہل ایمان کی مدد کی ہے۔ مدد کا وعدہ بھی کیا ہے تو اس دور میں تو اہل ایمان یہی مسلمان ہیں. یہی 57 مسلمان ممالک ہیں اور ان کے اندر بسنے والے اہل ایمان ہیں تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا اللہ تعالی مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلم طاقتوں کی مدد کرتا ہے یا معاملہ کیا ہے؟ تو اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے. اللہ تعالی مدد ضرور کرتا ہے۔ ہر دور میں ایمان والوں کی اور جگہ جگہ یقین بھی دلاتا ہے کہ بَلِ  اللّٰهُ  مَوْلٰىكُمْۚ وَ  هُوَ  خَیْرُ  النّٰصِرِیْنَ ترجمہ:(یہ لوگ تمھارے خیر خواہ نہیں) بلکہ اللہ تمھارا حامی و ناصر ہے، او ر وہ بہترین مددگار ہے۔ اللہ تعالی تمہارا کارساز ہے کہ تم اہل ایمان ہو تم نے اللہ پر ایمان رکھا ہے، تو بدلے میں اللہ تمہارے معاملات نمٹائے گا تمہارا کارساز ہوگا تمہیں مشکلات سے نکالے گا۔ اور وہ سب سے بہترین مددگار ہے کہ اس کی مدد سے آگے کسی کی مدد نہیں ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا اِنْ  یَّنْصُرْكُمُ  اللّٰهُ  فَلَا  غَالِبَ  لَكُمْۚ ترجمہ: اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کو ءی  تم پر غالب آنے والا نہیں۔ کہ اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو کوئی طاقت تمہارے اوپر غلبہ اختیار نہیں کر سکتی، تم مغلوب نہیں ہو سکتے۔ جب اللہ تعالی تمہاری مدد کرے گا اور اسی طریقے سے مختلف روایات میں بھی اس چیز کا ثبوت ملتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اہل ایمان کی مدد کرتا ہے اور کرتا رہا ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ اس مدد کے کچھ ضوابط ہیں اللہ تبارک و تعالی مسلمانوں کی مدد ضرور کرتا ہے لیکن کچھ ضوابط کو سامنے رکھتے ہوئے کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ کا ارشاد ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ ترجمہ آیت: اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری  مدد کرے گا، اور تمھارے قدم جما دے گا۔  اب اس میں ایک ضابطہ بتلا دیا کہ اللہ تعالی کی مدد اسی وقت آئے گی جب پہلے تم اللہ کی مدد کرو گے۔ اب بندہ اللہ کی مدد کیسے کرے؟ اللہ کی مدد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین کی مدد کرے اللہ کے دین کی خدمت کرے اور اللہ تبارک  تعالیٰ کی مکمل اطاعت کرے۔ اس کے دین کے بول بالا کے لیے اپنی تمام تر جدوجہد صرف کرے۔ یہ اللہ کی مدد کرنے کامطلب ہے ۔ جب اہل ایمان اس طریقے سے اللہ تبارک و تعالی کی مدد کرتے ہیں تو بدلے میں اللہ تبارک و تعالی ان کی مدد کرتا ہے اور دنیا میں انہیں کامیابی اور سرفرازی عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالی کی مدد کے حصول کے کچھ ضوابط ہیں۔ سب سے پہلا ضابطہ مومن بننا ہے کہ صحیح طریقے سے ایمان لایا جائے۔  میرے اور آپ کے لیے ایمان وہ معتبر ہے جس طرح صحابہ کرام کا ایمان تھا۔فرمایا کہ اَمِنُوا كَمَا اَمَنَ النَّاسُ مجھے اور آپ کو حکم ہے کہ اے لوگو! ایمان لاؤ اس طریقے سے جیسےیہ لوگ ایمان لائے۔ اور پھر فرماتے ہیں کہ لوگوں سے مراد صحابہ کرام ہیں۔گویا کہ صحابہ کرام میرے اور آپ کے لیے ایمان اور حق کا معیار بنائے گئے ہیں کہ میں اور آپ ایمان لائیں گے اسی طریقے سے جیسے صحابہ ایمان لائے۔ جیسے ان کا اللہ پہ توکل تھا، جیسے ان کا بھروسہ تھا، جیسے ان کی ایمانی طاقت تھی، جیسے ان کے اندر دینی حمیت اور غیرت تھی وہ تمام چیزیں جب ہم اپنے اندر پیدا کریں گے۔ تو پھر ہم صحیح اہل ایمان کہلائیں گے اور اللہ تبارک و تعالی کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی لازمی شرط کو ہم پورا کریں۔  چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ترجمہ: بے شک اللہ ان لوگوں کا دفاع کرے گا جو ایمان لے آءے ہیں۔…

Read More

نبی کریم ﷺ کا حلیہ مبارکہ

نبی کریم ﷺ کا حلیہ مبارکہ اللہ تعالیٰ نےرسول اللہﷺ کوبے مثال حسن و جمال عطا فرمایا تھا۔صحابہ کرام نے اپنے انداز سے رسول اللہﷺ کا جمال بیان کیا ہے۔حضرت جابرکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر حسن و جمال دنیا میں نہیں دیکھا۔آپﷺ کے سامنے چاند کا حسن و جمال بھی ماند پڑجاتا تھا۔حضرت علی کا بیان ہے کہ ہم نے ایسی پاک صورت پہلے کبھی دیکھی،نہ آئندہ دیکھیں گے۔یہاں یہ پیش نظر رہے کہ صحابہ کرامj کے ہاں مبالغہ آرائی نہیں تھی۔نہایت صاف گو تھے۔ حقائق پر مبنی گفتگو کرتے تھے۔ اس لئے ان بیانات میں شاعری و مبالغہ آرائی نہیں، حقیقت کا بیان ہے۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو حسن و جمال ہی ایسا عطا فرمایا تھا۔ کہ جو بھی دیکھتا، مبہوت رہ جاتا۔ ملا علی قاری نے امام قرطبی سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کا مکمل جمال دنیا میں ظاہر نہیں فرمایا۔اگر آپﷺ کا مکمل جمال ظاہر کردیا جاتا۔تو کسی میں آپﷺ کی طرف دیکھنے کی صلاحیت نہ ہوتی۔ ابن حجر نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو چہرے اور آواز کا حسن عطا فرمایا تھا۔اور تمہارے نبی ﷺ چہرہ انور کے جمال اور ابن حجر نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو چہرے اور آواز کا حسن عطا فرمایا تھا۔اور تمہارے نبی ﷺ چہرہ انور کے جمال اور آواز کی خوبصورتی میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ جمال محمدی کو حضرت عائشہ سے بہتر کون بیان کرسکتا ہے۔ام المومنین فرماتی ہیں۔ لَوْ سَمِعُوا فِي مِصْرَ أَوْصَافَ خَدِّهِ لَمَا بَذَلُوا فِي سَوْمِ يُوسُفَ مِنْ نَقْدِ لَوَّامِيْ زلِيخَا لَوْ رَأَيْنَ جَبِينَهُ لَآثَرْنَ بِالْقَطْعِ الْقُلُوبَ عَلَى الْأَيْدِي ترجمہ:’’ مصر والے اگر میرے محبوب کے رخسار مبارک کے اوصاف سُن لیتے تو حضرت یوسف کی قیمتیں لگانا بھول جاتے اور زلیخا کو ملامت کرنے والی عورتیں اگر میرے محبوب کی جبین مبارک کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے اپنے دل کاٹنے کو ترجیح دیتی۔‘‘ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جمال عطا فرمایا تھا۔ جمال کو حسن پر برتری حاصل ہوتی ہے۔حسن رنگ کی سفیدی، جاذبیت اور ظاہری نقشے کے خوبصورت ہونے کو کہتے ہیں۔جبکہ جمال مجموعہ قد کے تناسب،اعضاء کے جوڑ بند کے درست ہونے اور اپنی جگہ موزوں ہونے کو کہتے ہیں۔گویا جمال جسم کے ہر حصے کے بے مثال ہونے سے عبارت ہے۔کہ ہر ہر عضو اتنا کامل ہو۔کہ اس سے آگے کمال کا تصور تک نہ ہو۔نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایساجمال عطا فرمایا تھا۔جس میں کائنات کا کوئی فرد آپﷺ کا شریک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام جب آپﷺ کا سراپا بیان کرتے ہیں۔تو ایک ایک عضو مبارک کی تعریف کرتے ہیں۔کہ بال مبارک ہلکا سا گھنگھریالا پن لئے ہوئےاوربے مثال تھے۔دندان مبارک آبدار موتیوں کی مانند تھے۔سفیدملیح چہرے کے ساتھ چمکدار دانت یوں لگتے جیسے یاقوت کے صندوق میں در نایاب ہوں۔آنکھیں بڑی ، سیاہ اور سرمگیں تھیں۔جن میں سرخ ڈورے تیرتے دکھائی دیتے۔ بصارت اس قدر طاقتور کہ آنحضرتﷺ اوج ثریا پر ستاروں کے جھرمٹ میں گیارہ ستاروںکو صاف اور واضح دیکھ لیتے۔ پیشانی مبارک کشادہ تھی۔سر مبارک بڑا تھا۔ ناک لمبی اور خمیدہ تھی۔ سینہ اور پیٹ برابر تھے۔سینہ مبارک کے اوپر والے حصے اور کندھوں پر چند بالوں کے سوابدن مبارک پر بال نہیں تھے۔پاؤں مبارک کے تلوے اتنے بھرپور اور ہموار تھے کہ زمین پر پاؤں کے نشانات میں یکسانیت ہوتی تھی۔ جسم مبارک کا بالائی حصہ لمبا تھا۔جب محفل میں تشریف فرما ہوتے تو سب سے نمایاں نظر آتے۔حضرت خدیجہ کے صاحبزادے ہند بن ابی ہالہ کے مطابق آنحضرتﷺ چودہویں کے چاند سے زیادہ حسین و جمیل تھے۔ حضرت ام مَعبد نےنہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں رسول اللہﷺ کا حلیہ بیان کیا ہے۔جس کا ترجمہ صفی الرحمٰن مبارکپوری کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے: ’’چمکتا رنگ،تابناک چہرہ،خوبصورت ساخت،نہ توندلے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی۔جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر،سرمگیں آنکھیں،لمبی پلکیں، بھاری آواز،لمبی گردن،سفید و سیاہ آنکھیں،باریک اور باہم ملے ہوئےابرو، چمکدار کالے بال۔ خاموش ہوں تو باوقار، گفتگو کریں تو پرکشش۔ دور سے دیکھنے میں سب سے تابناک و پُرجمال، قریب سے سب سے زیادہ خوبصورت اور شیریں۔گفتگو میں چاشنی،بات واضح اور دو ٹوک،نہ مختصر نہ فضول،انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں۔درمیانہ قد، نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے،نہ لمبا کہ ناگوار لگے،دو شاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو سب سے زیادہ تازہ و خوش منظر ہے۔رفقاء آپ کے اردگرد حلقہ بنائے ہوئے،کچھ فرمائیں تو توجہ سے سنتے ہیں،کوئی حکم دیں تو لپک کے بجا لاتے ہیں، مطاع و مکرم،نہ ترش رو نہ لغو گو۔‘‘ ذیل میں رسول اللہﷺ کے حلیہ مبارکہ پر مشتمل شمائل ترمذی کی کچھ روایات درج کی جاتی ہیں۔ … عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ، وَلَا بِالْآدَمِ، وَلَا بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلَا بِالسَّبْطِ، بَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَلٰى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ، وَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً، وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ۔ ترجمہ:’’حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ نہ بہت لمبے قد کے تھے نہ پستہ قد(جس کو ٹھگنا کہتے ہیں ،بلکہ آپﷺ کا قد مبارک درمیانہ تھا) اور نیز رنگ کے اعتبار سے نہ بالکل سفید تھے چونے کی طرح نہ بالکل گندم گوں کہ سانولہ پن آجائے (بلکہ چودھویں رات کے چاند سے زیادہ روشن پرنور اور ملاحت لئے ہوئے تھے)حضوراکرم ﷺ کے بال نہ بالکل پیچیدہ تھے اور نہ سیدھے تھے (بلکہ ہلکی سی پیچیدگی اور گھنگریالا پن تھا) چالیس سال کی عمر ہونے پر اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو نبی بنایا، اور پھر دس برس مکہ مکرمہ میں رہے ،اس مدت کے درمیان میں حضور اقدس ﷺ پر وحی بھی نازل ہوتی رہی،اس کے بعد دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور پھر ساٹھ سال کی عمر میں حضور اقدسﷺ نے وصال فرمایا،اس وقت آپ ﷺ کے داڑھی اور سر مبارک میں بیس بال بھی سفید نہ تھے ۔‘‘ ملاحظہ: اس روایت میں رسول اللہﷺ کی عمر شریف ساٹھ برس اوربعثت کے بعد مکہ مکرمہ میں آنحضرتﷺ کا قیام دس برس بتایا…

Read More

نبی کریم ﷺ کی گفتگو کاانداز

نبی کریم ﷺ کی گفتگو کاانداز نبی کریم ﷺ کی گفتگو کا انداز اس قدر دلکش تھا کہ مخاطب اس کو سنتے ہی اپنے د ل میں بسا لیا کرتا ۔آپ ﷺ کی گفتگو نہ اس قدر طویل ہوتی کہ سننے والا اُکتا جائے ،اور نہ اس قدر مختصر ہوتی کہ سننے والے کو سمجھ ہی نہ آئے۔نبی ﷺ نہایت اعتدال اور توازن کے ساتھ کلام فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ آپﷺ  کے انداز گفتگو کو یوں بیان فرماتی ہیں مَا كَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ هَذَا، وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ يُبَيِّنُهُ فَصْلٌ، يَحْفَظُهُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ۔ ترجمہ: ’’نبی کریم ﷺ کی گفتگو کے انداز میں تم لوگوں کی طرح تیزی نہیں تھی۔بلکہ آپ ﷺ جب بات چیت فرماتے تو ہر لفظ کو واضح اور جدا جدا کر کے ادا فرماتے۔یہاں تک کہ سننے والا اگر چاہتا تو اس کو سن کر یاد بھی کرلیتا۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ بعض اوقات مخاطب کی ضرورت کیلئے ایک بات کوتین بار بھی دہرایا کرتے۔(ترمذی،3640) حضرت عبداللہ بن عباس نبی کریمﷺ کے کلام کی خوبصورتی کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ گفتگو فرماتے، تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے آپ ﷺ کے دندان مبارک سے نور پھوٹ رہا ہو

Read More

رسول اللہﷺ کی مہر نبوت

رسول اللہﷺ کی مہر نبوت رسول اللہﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان گوشت کا ایک ابھار تھا۔جو بائیں شانے کے قریب تھا۔یہ کبوتری کے انڈے کے برابر اور بعض روایات کے مطابق مسہری کی گھنڈی جتنا تھا۔اس کے ارد گرد بال تھے۔ درمیان میں چمکیلا اور ارد گرد بالوں سے ڈھکا ہونے کی وجہ سے یہ نہایت خوشنما معلوم ہوتا تھا۔یہ رسول اللہ ﷺ کی مہر نبوت تھی۔درج ذیل روایت ملاحظہ ہو عنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ الْخَاتَمَ بَیْنَ کَتِفَيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ غُدَّۃً حَمْرَاءَمِثْلَ بَیْضَۃِ الْحَمَامَۃِ۔ ترجمہ:’’حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے کندھوں کے درمیان (نبوت کی) مہر کو دیکھا ہے۔ یہ سرخ رنگ کے غدود کی مانند اور مقدار میں کبوتری کے انڈے کے برابر تھی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ایک روایت کے مطابق اس پر’’سر فانت المنصور‘‘ (تم جہاں چاہے جاؤ تمہاری مدد کی جائے گی) لکھا ہوا تھا۔حافظ ابن حجر نے ان روایات کی تردید کی ہے۔(دیکھئے فتح الباری،ص6/563) یہ مہر رسول اللہﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی علامت تھی۔علماء بنی اسرائیل آپﷺ کو اس مبارک مہر سے پہچانتے تھے۔یہ آپﷺ کی ولادت سے ہی جسد اطہر پر موجود تھی۔حضرت حلیمہ سعدیہ کے ہاں رسول اللہﷺ کا پہلا شق صدر ہوا تھا۔جس میں حضرت جبرئیل و حضرت میکائیل نے جنت سے لائی گئی برف کے ساتھ رسول اللہﷺ کا قلب اطہر دھویا تھا۔بعض روایات میں ہے کہ اس موقع پر انہوں نے مہر نبوت بھی لگائی تھی۔ مولانا ادریس کاندھلوی نقل کرتے ہیں کہ مہر نبوت تو ولادت سے ہی موجود تھی۔البتہ اس موقع پر جبرئیل نے سابقہ مہر نبوت کی تجدید کی تھی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد یہ مہر غائب ہوگئی تھی۔اور حضرت اسماء  نے رسول اللہﷺ کے سانحہ ارتحال پر استدلال مہر نبوت کے غائب ہونے سے کیا تھا۔ یہ مہر کیوں لگائی گئی تھی۔اس سلسلے میں یہ تو واضح ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کے خاتم النبیین کی علامت تھی۔حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ایک شخص نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے باری تعالیٰ! مجھے دکھا دیجئے کہ شیطان بندوں پر کس طرح حملہ آور ہوتا ہے۔تو اللہ نے اسے دکھا دیا۔اس نے دیکھا کہ قلب کے بالمقابل پشت کے بائیں حصے کی جانب سے شیطان کا حملہ ہوتا ہے۔حافظ ابن حجر امام سہیلی کے حوالے سے کہتے ہیں۔کہ عین اسی مقام پر رسول اللہﷺ کی پشت مبارک پر مہر لگانے میں یہ حکمت بھی ہوسکتی ہے۔کہ اس مقدس مقام تک شیطان کی رسائی مکمل طور پر روک دی جائے۔

Read More