
منصب امامت اور امت مسلمہ
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْن وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمَّد وَ عَلَى اَلِهِ وَاَصْحَابِهِ اَجْمَعِيْنَ وَعَلى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاِحْسَانِ اِلَى يَوْمِ الدِّيْنِ اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهيمَ رَبُّه بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ صدق الله مولانا العظیم ترجمہ: اور (وہ وقت یاد رکرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا، اور انہوں نے وہ ساری باتیں کیں، اللہ نے ا(ان سے)کہا: میں تمھیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ابراہیم نے پوچھا: اور میری اولاد میں سے؟ اللہ نے فرمایا میرا(یہ ) عہد ظالموں کو شامل نہیں ہے۔ بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو ! دنیا میں یا اس روئے زمین پر انسان اور اس کے خالق کے تعلق ہو مذہب کہا جاتا ہے۔ یعنی مذہب کا اگر آسان انداز میں آپ تعارف جاننا چاہیں۔ ویسے تو اس کی فلسفیانہ تعریفیں بھی ہیں، پیچیدگیاں ہیں، اس میں پیچیدہ لمبے چوڑے مباحث ہیں لیکن اگر آسان انداز میں ایک جملے میں کوئی مذہب کو سمجھنا چاہے تو یوں کہہ سکتا ہے کہ روئے زمین پر اللہ تعالی اور انسان کے درمیان تعلق کا جو واحد واسطہ ہے وہ مذہب برحق یا دین برحق کی اتباع ہے۔ گویا یہ ایک ایسا ذریعہ ہے کہ اس کی اتباع کر کے اس کے راستے پر چل کر انسان اپنے خالق کو حاصل کر سکتا ہے۔ مذہب کی تاریخ اس روئے زمین پر اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ انسان کی تاریخ پرانی ہے۔ بلکہ اگر کوئی یہ کہنا چاہے تو کہہ سکتا ہے کہ انسان کی تاریخ سے پہلے بھی اس کائنات میں مذہب موجود تھا۔ جب فرشتے اللہ تبارک و تعالی کے عبادت کرتے تھے۔اپنے خالق کی رضامندی حاصل کرتے تھے۔ اس کائنات میں انسان نہیں تھا لیکن مذہب موجود تھا ۔ جب پہلا انسان اس روئے زمین پر آیا تو اس روئے زمین پر اپنے ساتھ مذہب کو لے کر آیا ۔اللہ تبارک و تعالی کے تعارف کی ذمہ داری اور منصب لے کر زمین پر وارد ہوا اور جوں جوں انسانیت آگے ترقی کرتی گئی، مذہب میں بھی ارتقا آتا گیا۔ اللہ تبارک و تعالی اپنے احکامات میں تبدیلی کرتا رہا ترقی لاتا رہا یہاں تک کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو اللہ تبارک و تعالی نے دین کو بھی مکمل کر دیا ۔ معلوم ہوا کہ جتنی انسانی تاریخ پرانی یا قدیم ہے، اسی قدر روئے زمین پر مذہب کی تاریخ بھی قدیم ہے۔ مذہب پر عمل کرنے میں انسان کو کچھ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عشق کی وادی ہے اور اس کا قدم قدم پرخار ہوا کرتا ہے ۔ قرآن کریم میں اس کو گھاٹی سے تعبیر کیا گیا فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ پھر وہ اس گھاٹی میں داخل نہیں ہوسکا۔ اور تمھیں کیا پتہ کہ وہ گھاٹی کیاہے؟ کہ تمہیں کیا معلوم کہ یہ گھاٹی کیا ہے؟ یعنی دین اسلام پر عمل کرنا اور دین کے احکامات پر عمل پیرا ہونا اس کو ایک گھاٹی سے تعبیر کیا گیا۔ گھاٹی پہاڑوں کے درمیان جو ذرا دشوار گزار راستہ ہوتا ہے اسے گھاٹی کہا جاتا ہے۔ جس سے گزرنا عام طور پر آسان نہیں ہوتا تو اس آیت میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے مذہب پر عمل کرنے کو گھاٹی سے تعبیر کیا کہ کچھ لوگ تو یہ گھاٹیاں عبور کر جاتے ہیں اور کچھ لوگ درمیان میں ہی فیل ہو جاتے ہیں۔ کچھ شروع ہی سے ہمت ہار جاتے ہیں۔ یہی صورتحال مذہب کی ہے کہ کچھ لوگ اس کی حقیقت کو پا جاتے ہیں، کچھ درمیان میں بھٹک جاتے ہیں اور کچھ شروع ہی سے مذہب کے راستے پر قدم رکھنے سے کتراتے ہیں۔ تو مذہب پر عمل کرنے میں کچھ پیچیدگیاں ہوتی ہیں کچھ مشکلات برداشت کرنی ہوتی ہیں کچھ آزمائشیں ہوتی ہیں۔ جب آدمی ان آزمائشوں سے گزر جاتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ ایک انعام تو جنت کا ہے جو آخرت میں ملے گا۔ اس سے ہٹ کر دنیا میں اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے مختلف انعامات انسان کو دیے جاتے ہیں۔ جب وہ اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے اور صحیح مذہب کے راستے پر چلتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام انبیاء کرام کے والد کہلاتے ہیں۔ ابو الانبیاء ان کو کہا جاتا ہے ان کے بعد آنے والے جتنے بھی انبیاء تھے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے اسوہ حسنہ میں جہاں انسان کے لیے اور بہت سارے درس کے راستے ہیں سبق کے راستے ہیں وہاں مذہب کی اہمیت کو اگر کوئی سمجھنا چاہے ، اس کے راستے میں آنے والی مشکلات کو اگر کوئی دیکھنا چاہے اور ان مشکلات کو عبور کر کے اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے ملنے والے انعامات کو اگر کوئی پرکھنا چاہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ حسنہ اور ان کی سیرت کو پڑھ کر ان تمام سوالات کے جوابات حاصل کر سکتا ہے۔ کس طریقے سے انہوں نے اللہ کی اطاعت کی اور اطاعت کے اس راستے میں مختلف امتحانات سے گزرنا پڑا۔ آزمائشیں آئیں اور جب ان آزمائشوں سے وہ گزر گئے کامیاب ہوئے تو اب اللہ کی جانب سے انہیں انعام ملا۔ وہ کس نوعیت کا تھا تو میں مختصرا عرض کیے دیتا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جس علاقے میں تشریف لائے تھے ،مورخین اسے عرب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آج جہاں بغداد ہے عراق میں اس سے کوئی 60، 70 کلومیٹر کے فاصلے پر وہ علاقے ہیں۔ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے تفہیم القران میں اس شہر کی کچھ تفصیلات لکھی ہیں کہ یہ اس زمانے کا بڑا متمدن اور مہذب شہر تھا ترقی یافتہ کہلاتا تھا۔ اڑھائی لاکھ سے پانچ لاکھ تک اس کی آبادی تھی۔ بڑے تجارت تجارت کرنے والے لوگ تھے۔ چونکہ مذہب سے دور تھے صحیح راستے سے ہٹے ہوئے تھے تو تجارت کی جو بگڑی ہوئی شکلیں…