اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْن وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمَّد وَ عَلَى اَلِهِ وَاَصْحَابِهِ اَجْمَعِيْنَ وَعَلى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاِحْسَانِ اِلَى يَوْمِ الدِّيْنِ اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ وَ لَا تَرۡکَنُوۡۤا اِلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ۙ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ صدق اللہ العظیم
:ترجمہ
اور (مسلمانو) ان ظالم لوگوں کی طرف ذرا بھی نہ جھکنا، کبھی دوزخ کی آگ تمہیں بھی آپکڑے اور تمہیں اللہ کو چھوڑ کر کسی قسم کے دوست میسر نہ آئیں، پھر تمہاری کوئی مدد بھی نہ کرے۔
انسان کی خلافت اور صفت عدل
بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو
اللہ جل جلالہ نے اس کائنات کو پیدا کیا اور اس کائنات میں اپنی خلافت کے لیے تمام تر مخلوقات میں سے انسان کا انتخاب کیا۔اللہ کی مخلوقات بے شمار ہیں، ان تمام تر مخلوقات میں سے اللہ نے انسان کو اپنی نیابت اور روئے زمین پر اپنی خلافت کے لیے منتخب کیا۔ گویا کہ انسان کی ذمہ داریاں دیگر مخلوقات کے اعتبار سے بہت زیادہ ہیں۔
خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان جہاں روئے زمین پر اللہ جل جلالہ کی عبادت، اللہ تبارک و تعالی کی بندگی اور اطاعت کا ذمہ دار ہے، وہاں انسان روئے زمین پر اللہ جل جلالہ کی مختلف صفات کو ظاہر کرنے کا بھی سبب ہے۔ اللہ جل جلالہ کی مختلف صفات میں سے ایک صفت اللہ تعالی کی صفت عدل ہے۔اللہ تبارک و تعالی عادل ہے، انسان چونکہ روئے زمین پر اللہ تعالی کا نائب اور خلیفہ ہے، خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اللہ کی صفات کو زمین پر ظاہر کرنے کا سبب ہے۔
جہاں اللہ کی دیگر صفات کو روئے زمین پر ظاہر کرتا ہے، وہاں انسان کو زمین پر اللہ جل جلالہ کی صفت عدل کو بھی ظاہر کرنے کا ذمہ دار ہے۔یعنی، اسے روئے زمین پر عدل سے کام لینا ہو گا۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کی صفت عدل کو بھی روئےزمین پر ظاہر کرنے کا سبب یہ انسان ہے۔
عدل کے مختلف تقاضے
عدل کے مختلف تقاضے ہیں۔ عدل کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ کسی کا حق نہ مارا جائے، بلکہ ہر شخص کو اس کا پورا پورا حق دیا جائے۔ انسان اس بات کے لیے کوشش بھی کرے کہ وہ نہ خود کسی کا حق مارے نہ دوسرے کوکسی اور کا حق مارنے دے۔ اسی طرح، عدل کا ایک تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی ہر ذمہ داری کو بھرپور طریقے سے ادا کرے۔ اس کی ایک ذمہ داری عبادت ہے، ایک ذمہ داری اس کی اطاعت اور بندگی ہے،لہذا ان تمام تر ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کرے۔
بندوں کے ساتھ معاملات جو اللہ نے انسان کے ذمے عائد کیے ہیں انہیں پورے طریقے سے ادا کرے۔ گویا، جس وقت جس انسان کی جہاں جو ذمہ داری ہو اس ذمہ داری کو پوری توانائیصرف کر کے ادا کرنا یہ بھی عدل کا ایک تقاضا ہے۔
عدل اور ظلم کے خاتمے کی ذمہ داری
عدل کا ایک بہت بڑا تقاضہ یہ ہے کہ انسان روئے زمین پر ظلم کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ہر انسان یہ کوشش کرے کہ روئے زمین پر ظلم کا خاتمہ کرے۔ انفرادی طور پر بھی ہر انسان اس بات کا مکلف ہے اور اجتماعی طور پر پورا انسانی معاشرہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ روئے زمین پر ظلم کے خاتمے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرے۔آج جو میں نے آیتآپ کے سامنے پڑھیوَ لَا تَرۡکَنُوۡۤا اِلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا اس میں اللہ تعالی نے یہی حکم دیا ہے ظالموں کی طرف کہیں تمہارا میلان نہ ہو جائے۔ ظالموں کی طرف میلان مت رکھو، ان کی طرف رجحان مت رکھو، فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ۙ ورنہ کیا ہوگا تمہیںآگ چھو لے گی تمہیںآگ کی سزا دی جائے گیوَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ اور اللہ کے سوا تمہارے کوئی مددگار نہیں ہیں اور پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔
گویا کہ اگر انسان روئے زمین پر ظلم کے خاتمے میں اپنا کردار ادا نہ کرے، حالانکہ وہ کر سکتا ہے، اور ظالموں کی طرف اس کا میلان ہو جائے،ظالم کی طرف اس کا رجحان ہو جائے، تو وہ اللہ جل جلالہ کی نصرت سے محروم ہو جاتا ہے۔ لہذاروئے زمین پر ظلم کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا یہ اللہ جل جلالہ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
:عدل اور ظلم کے خاتمے کی ذمہ داری
ذوالقرنین کا واقعہ
ہر دور میں جو انسان اس روئے زمین پر اللہ جل جلالہ کی خلافت کا حق ادا کرتے رہے ہیں،ان کییہ کوشش رہی ہے کہ روئے زمین پر ظلم کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں کرے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ذوالقرنین نامی ایک بادشاہ کا ذکر ہے، اور اللہ نے اس کا ذکر تعریفی انداز میں کیا ہے۔
سورہ کہف میں ذوالقرنین کے سفر کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے،جہاں ان کا سامنا ایک ایسی قوم سے ہوا جس کا واسطہ یاجوج ماجوج نامی ایسی مخلوق سے پڑھ رہا تھا جو ظالم ہے۔ جس قوم سے اس کی ملاقات ہوئی وہ قوم مظلوم تھی۔ اس کا واسطہیاجوج ماجوج نامی ایک ظالم مخلوق سے پڑا ہوا تھا جو ان کے ظلم سے تنگ تھے۔
اس مظلوم قوم نے ذوالقرنین سے درخواست کی کہ آپ بادشاہ ہیں، صاحب حیثیت ہیں، لشکر جرار آپ کے ساتھ ہے تو آپ ہمارے لیے کوئیآڑ کھڑی کر دیجیےتاکہ ہمارے اردگرد جو یاجوج ماجوج نامی ایک ظالم مخلوق آباد ہے اور یہ ہم پہ حملہ اور ہو کر ہمیں تاراج کرتی رہتی ہے،یہاں فساد مچانے کا سبب ہے، کوئیآڑ، کوئی دیوار، کوئی بند بنا دیجیے تاکہ یہ ظالم مخلوق ہم پہ حملہ آور نہ ہو سکیں اور ان کے علاقے میں فساد نہ مچا سکیں۔ آپ اگر کہیں توہم آپ کو اس کا معاوضہ بھی دے دیتے ہیں، ہم آپ کے لیے کوئی ٹیکس یا خراج جمع کر دیتے ہیں،بسآپ ہمارے لیے اس ظلم سے بچاؤ کا سبب بن جائیے اور یہ اڑ بنا دیجیے۔
چونکہ ذوالقرنین ایک نیک بادشاہ تھا اور نیک ہونے کا اہم تقاضہ یہ ہے کہ نیک شخص ظلم کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کرے ،انہوں نے جواب دیا
قَالَ مَا مَکَّنِّیۡ فِیۡہِ رَبِّیۡ خَیۡرٌ
ترجمہ: ذوالقرنین نے کہا : اللہ نے مجھے جو اقتدار عطا فرمایا ہے، وہی (میرے لیے) بہتر ہے۔
جو تم نے مجھے عوض کی پیشکش کی ہے اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میرے رب نے جو کچھ مجھے عطا کیا ہے وہ اس سے زیادہ بہتر ہے جو کچھ تم مجھے دو گے۔یعنی، اللہ نے مجھے بہت دیا ہے، مالا مال کیا ہے، مجھے تمہارے عوض کی ضرورت نہیں ہے ہاں، فَاَعِیۡنُوۡنِیۡ بِقُوَّۃٍ اَجۡعَلۡ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ رَدۡمًا ترجمہ:تم لوگ (ہاتھ پاؤں کی) طاقت سے میری مدد کرو، تو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔
مجھے افرادی قوت کے ساتھ مدد پہنچاؤ،مجھے مزدور فراہم کرو تاکہ میںیہ کام کر سکوں۔ چنانچہ اس نے وہاں آڑ کھڑی کر دی، تاکہ اس ظالم مخلوق سے اس قوم کیحفاظتممکن بنائی جا سکے۔اللہ جل جلالہ نے اس واقعے کو ذکر کیا ذوالقرنین کا ذکر تعریفانہ انداز میں کیا۔
اس سے ہمیں ایک سبق ملا کہ انسان کے پاس جب طاقت آتی ہے، اللہ اس کو اقتدار دیتا ہے، تو اس کا بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ وہ مظلوم کی مدد کرتا ہے اور ظالم کا ہاتھ روکتا ہے۔یہ تو ایک بادشاہت کا کام ہے لیکن ہر شخص انفرادی طور پر بھی اس کا ذمہ دار ہے۔اپنے گھر میں، محلے میں، گلی میں، جہاں آپ موجود ہیں،آپ کے سامنے کوئی ظلم ہوتا ہے، کسی کا حق مارا جاتا ہے اور آپ کسی طریقے سے مظلوم کی مدد کر سکتے ہیں، ظالم کا ہاتھ روک سکتے ہیں، تو آپ اس بات کے پابند ہیں کہ ظالم کا ہاتھ پکڑیں۔
قرآن کریم میں ظلم کی مذمت: اہل کتاب کی نافرمانی
قرآن کریم میں ایک جگہ اہل کتاب کا ذکر کرتا ہے کہ اللہ نے تم سے وعدہ لیا تھالَا تَسۡفِکُوۡنَ دِمَآءَکُمۡ وَ لَا تُخۡرِجُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ ثُمَّ اَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَشۡہَدُوۡنَ ترجمہ: تم ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور اپنے آدمیوں کو اپنے گھروں سے نہیں نکالو گے، پھر تم نے اقرار کیا تھا اور تم خود اس کے گواہ ہو۔
آپس میں ایک دوسرے کا خون مت بہانا اور آپس میںاپنے ہی کچھ لوگوں کو ایک دوسرے کو اپنے گھروں سے مت نکالو۔ گویا اللہ نے تمہیںحکم دیا کہ ظلم مت پھیلانا کائنات میں ظلم کا سبب مت بننا لیکن انہوں نے کیا کیا ؟ثمَّ اَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ تُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِیَارِهِمْ٘ترجمہ: اس کے بعد ( آج) تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنے ہی آدمیوں کو قتل کرتے ہو، اور اپنے ہی میں سے کچھ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرتے ہو۔اب یہود سے خطاب ہے کہ تم یہی قوم ہو جس نے قتل و غارت گری میں بھی حصہ لیا ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے اور آپس میں ایک دوسرے کو ان کے گھروں سے بھی نکالتے رہے اور تمہارا یہ طرز عمل رہا کہ اپنی ہی قوم کے خلاف غیروں کی تم مدد کرتے تھے۔
قرآن کریم میں اہل کتاب کے رویے کی مذمت اور ظلم کے خلاف تعلیم
مدینہ منورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یثرب کے نام سے معروف تھا۔یثرب میں اس زمانے میںیہود کے مختلف قبائل آباد تھے اور یثرب کے مقامی قبائل بھی تھے۔یہود کے مختلف قبائل نےیثرب کے مقامی قبائل کے ساتھ اتحاد کیا ہوا تھا۔ بعض اوقات اگر یثربکا کوئی قبیلہیہود کے کسی قبیلے کے ساتھ برسر پیکار ہوتا، اس کی جنگ ہوتی، تو اس کا حلیف(یہودی قبیلہ)اپنے ہییہودی بھائیوں کے خلاف ان کی مدد کرتا، ان کو قیدکروانے کا سبب بنتے۔ لیکن بعد میں جب وہی یہودی قیدی بن جاتے تو وہ اپنے ہییہودی بھائی جنہوں نے ان کو قیدی بنانے میں غیروں کی مدد کی تھی وہ ان کا فدیہ(جرمانہ) ادا کر کے ان کو رہا کروانے کی کوشش کرتے۔
قرآن کریم نے ان کو خطاب کیا کہ تم ان کا فدیہ تو ادا کرتے ہو لیکن ان کو قیدی بنانے کا سبب کیوں بنے؟ ان کو گھروں سے نکالنے کا تم سبب ہی کیوں بنے؟ جب اللہ نے تم سے وعدہ لیا تھا کہ ظلم نہ کرنا ایک دوسرے کو گھروں سے مت نکالنا تو تم ایک غیر قوم کی مدد کر کے اپنے بھائیوں کو گھروں سے نکالنے کا سبب کیوں بنے ہو؟ گویا، تم نے ظالم کا ساتھ کیوں دیا؟ اپنے بھائیوں کو گھروں سے کیوں نکلوایا؟یہ اہل کتاب کے دیگر جرائم میں سے ایک جرم تھا کہ ظالم کی طرف ان کا میلان ہوتا تھا البتہ بعد میں اپنے بھائیوں کا وہ فدیہ بھی ادا کرتے تھے۔
قرآن کریم نے انہیں عار دلائی کہ فدیے تو تم ادا کرتے ہو یقینا اچھی بات ہے لیکن ان کے قیدی بننے کا سبب کیوں بنے؟اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍۚ کیا تم کچھ باتوں پر ایمان لاؤ گے اور کچھ کا انکار کرو گے کہ فدیہ تم ادا کر رہے ہو اچھی بات پہ عمل کر رہے ہو لیکن وہ دوسری بلکہ پہلی اچھی بات پہ کیوں عمل نہیں کیا کہ تم نے ان کے خلاف غیروں کی مدد کیوں کی؟
اس طریقے سے قرآن کریم مختلف انداز میں مجھے اور آپ کو یہ سبق دیتا ہے، گزشتہ اقوام کے واقعات سناتا ہے۔ قرآن کریمکے نازل ہوتے وقت جو اقوام وہاں آباد تھیں ان کے واقعات ہمیں سنا کر ہمیں سبق دیتا ہے کہ انسان ظلم کے خاتمے کے لیے اپنے حصے کا کام کرے۔ جتنا اس سے ہو سکے وہ کائنات سے ظلم کو مٹائیں۔
حلف الفضول: عدل و انصاف کا قدیمی معاہدہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں ایک معاہدے میں شرکت کی تھی، جسے تاریخ میںحلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حلف الفضول یہ اہل مکہ کا ایک قدیمی معاہدہ تھا جو بنو جرہم جو مکہ کے آبادکار تھے، جنہوں نے ابتدا میں مکہ کو آباد کیا تھا تو بنو جرہم سے یہ معاہدہ چلا اآرہا تھا۔
حلف الفضول کا پس منظر
بنو جرہم کے تین بزرگ جن کے ناموں میں فضل کا لفظ تھا فضل بن وداع فضل بن فضالہ اور فضیل بن حارث یہ تین بنو جرہم کے معروف بزرگ تھے۔ انہوں نے جمع ہو کر آپس میں ایک معاہدہ کیا اور ایک فورم بنایا کہ ہم اس فورم سے مظلوموں کی مدد کریں گے۔چونکہ اس زمانے میں اس طریقے سے سیکیورٹی فورسز تو تھی نہیں جیسے پولیس ہے، رینجرز ہے، مختلف تمدنی ادارے ہیں جو مظلوم کی مدد کرتے ہیں ایسی کوئی سہولیات لوگوں کو میسر نہیں تھی۔ بنو جرہم کے ان تین بزرگوں نے مل کے ایک فورم تشکیل دیا جس کو حلف الفضول کا نام دیا گیا۔
معاہدے کا مقصد
اس کا مقصد ہییہ تھا کہ اگر مکہ مکرمہ میں کوئی شخص مظلوم ہے، اس پہ ظلم ہوتا ہے، وہ اس فورم میں آئےاپنی شکایت کا اندراج کروائے، اپنی شکایت کرے اور پھر اس فورم سے وابستہ لوگ اس کی مدد کریں گے، ظالم کا ہاتھ روکیں گے۔یہ اہل مکہ کا قدیمی معاہدہ تھا۔
نبی کریم ﷺ کی شرکت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں ایک واقعہ رونما ہوا ۔باہر سے ایکزبیدی شخص جو زبیدی قبیلے سے منسلک تھا ، زبیدیاسے کہا جاتا ہے،وہآیا۔ اس نے مکہ کے ایک سردار عاص بن وائل کے ساتھ کوئی تجارتی معاملہ کیا۔عاص بن وائل جو کہ طاقتور تھا تو طاقت کے نشے میں آکر اس نے اس پر دیسی تاجر کو اس کا حق دینے سے انکار کیا۔ وہ زبیدی بیچارہ پردیسی تھا، وہ مکہ کے رئیس اور مکہ کی ایک اہم شخصیت عاص بن وائل کا مقابلہ کیسے کرتا!
چنانچہ وہ جگہ جگہ جا کر اپنی فریاد کر رہا تھا کہ کوئی میری مدد کرے۔آخر تنگ آکر اس نے جبل ابو قبیس پر چڑھ کر منظوم انداز میں اپنی فریاد پیش کی اپنی فریاد اشعار میں، نظم میں پیش کی تو اس کییہ فریاد سن کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے کچھ قبائل کے اہم لوگوں کو جمع کیا اور اسی حلف الفضول کے فورم کو دوبارہ زندہ کیا۔ دوبارہآپس میں معاہدہ کیا کہ ہم مظلوموں کی مدد کیا کریں گے۔ چنانچہ اس معاہدے میں مکہ کے اہم قبائل بنو ہاشم بنو اسد بنو زہرہ اور بنوتیم نے شرکت کی اور ان اہم قبائل کے بزرگوں نے جمع ہو کر آپس میں یہ معاہدہ کیا کہ آئندہ اگر کوئی مظلوم اپنی دادرسی کے لیےہمارے پاس آئے تو ہم اس کے ساتھ مدد کریں گے، ظالم کا ہاتھ روکیں گے۔
اس معاہدے کو حسب سابق حلف الفضول کا نام دیا گیا کہ جو بنو جرہم کے آباؤ اجداد سے یہ معاہدہ چلا اآرہا تھا اس کا نام حلف الفضول تھا، تو اب بھی اس کا نام حلف الفضول ہی رکھا گیایایوںکہہ لیجیے کہ بنو جرہم کے تشکیل دیے گئے حلف الفضول کا احیاء قریش کے ان قبائل نے کیا،اور انہوں نے پھر اس زمیدی شخص کو اپنا حق دلوایا۔ان سرکردہ حضرات کیعبداللہ بن جدعان کے گھر میںیہ ملاقات ہوئی اور وہاں جمع ہو کر انہوں نے حلف الفضول کا احیاء کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس معاہدے میں موجود تھے اور حلف الفضول کے دیگر اراکین میں سے ایک اہم رکن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ یہ نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے نبوت کے بعد بھی نبی بننے کے بعد بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حلف الفضول کا رکن ہونے پر ناز تھا۔
ایک موقع پہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جو لوگ جمع ہوئے تھے میں بھی ان میں موجود تھا۔آج بھی اگر کوئی حلف الفضول کے نام سے مجھ سے مدد طلب کرے گا، تو میں ضرور اس کی مدد طلب کروں گا۔ اور حلف الفضول میں شامل ہونے کے عوض اگر مجھے سرخ اونٹ بھی پیش کیے جائیں تو میں رد کر دوں گا۔ سر خ اونٹ اس زمانے کی بڑی دولت تھی گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف الفضول میں اپنی شمولیت کو اپنے لیے ایک بڑی نعمت قرار دیا۔
حلف الفضول سے سبق
اس سے امت کو ایک درس ملتا ہے کہ ظلم سے خاتمے کے لیےجو آپ سے بن سکے، کیجیے۔ معاشرے میں ایسے فورم تشکیل دیں ایسی سوسائٹیاں بنائیں جن کا کام ہی یہ ہو کہ محلے میں اگر کسی پہ ظلم ہوتا ہے اگر کسی کا حق کوئی دوسرا مارتا ہے تو یہ سوسائٹی اور یہ فورم اجتماعی طور پر اس مظلوم کا ساتھ دیں آج بھی اگرچہ یہاں پہ ادارے موجود ہیں ہر چیز ہے لیکن اس کے باوجود ایسے فورمز کی ضرورت برقرار ہے بہت سارے ایسے معمولی نوعیت کے واقعات ہوتے ہیں کہ عدالتوں میں ان کو نہیں لے جایا جا سکتا تھانوں کا رخ نہیں کیا جا سکتا تو اگر محلوں کی سطح پر ایسے فورمز موجود ہوں جومظلوم کی مدد کر سکیں تو یہ فورم ظلم کے خاتمے کے لیےآج بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقے سے حلف الفضول میں شرکت فرمائی۔
حلف الفضول اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا حق
بعد میں مدینہ منورہ میں ایک موقع پر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا کوئی معاملہ ولید کے ساتھ پیش آیا۔ ولید اس زمانے میں مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ تھے اور ولید ان کی طرف سے مدینہ منورہ کا گورنر مقرر تھا۔ اس نے سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا حق دینے سے انکار کیا، کیونکہ وہ گورنر تھا اس کے پاس طاقت تھی تو اس نے اپنی ظاہری طاقت کو دیکھتے ہوئے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا حق دینے سے انکار کیا۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اگر تم مجھے میرا حق نہیں دو گے تو میں اپنی تلوار اٹھاؤں گا اور مسجد نبوی میں جا کے بیٹھوں گا، اور پھر میں حلف الفضول کے نام پر لوگوں کو دعوت دوں گا کہ حلف الفضول کے لوگ آئیں اور میرے ساتھ میرا حق لینے میں تعاون کریں۔ چنانچہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ بات جب حضرت عبداللہ بن زبیر تک پہنچی جو قبیلہ بنو اسد سے تعلق رکھتے تھے، اسدی تھے اور ان کا قبیلہ ان کے آباؤ اجداد حلف الفضول کی تشکیل کے وقت موجود تھے۔ انہوں نے بھی حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ حق لینے کے لیے لڑنے کا اعلان کیا۔ اور فرمایا کہ اگر ولید حضرت حسین کو ان کا حق نہیں دے گا تو میں حلف الفضول کے نام پر اپنی تلوار لے کر حضرت حسین کے ساتھ جاؤں گا۔ پھر یا تو ان کا حق میں واپس لوں گا یا پھر اسی راستے میں ان کے ساتھ اپنی جان قربان کرنی ہے۔ یہی بات جب عبدالرحمن بن عثمان نے سنی جو قبیلے بنو تیم سے تعلق رکھتے تھے تو انہوں نے بھی شرکت کا اعلان کیا۔ اسی طریقے سے قبیلے بنو زہر ہ کے ایک بزرگ نے مصر ظہری نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے بھی کہا کہ میں بھی حلف الفضول کے نام پر سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا حق واپس لینے کے لیے جدوجہد کروں گا۔ اس طریقے سے حلف الفضول میں حلف الفضول کی تشکیل کے وقت عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جو قبائل موجود تھے بنو ہاشم بنو اسد بنو زہرہ بنو تیم آج بھی ان کے فرزندوں نے جمع ہو کر اسی فورم کے نام سے سیدنا حسین کے حق کو لینے کا ارادہ کیا۔
جب یہ بات گورنر ولید تک پہنچی کہ یہ پورا فورم میرے خلاف اکٹھا ہو گیا ہے تو اس کو مجبور ہو کر سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا حق واپس دینا پڑا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر زمانے میں ایسی سوسائٹیوں کی ضرورت برقرار رہتی ہے اور ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے فورمز اور سوسائٹیوں کی اہمیت سے جو محلے کی سطح پر، کسی کالونی کی سطح پر لوگوں کو ان کے حقوق واپس دلانے میں اور ظالم کا ہاتھ روکنے میں اپنی جدوجہد صرف کریں۔
نبی کریم ﷺ: مظلوم کے مددگار اور ظالم کے ہاتھ روکنے والے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانبی بننے سے پہلے بھی اور نبی بننے کے بعد بھی یہی طرز عمل تھا کہ ظالم سے مظلوم کی مدد کے لیےآپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش پیش رہتے تھے اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی کوشش فرماتے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بنے اور اسلام کی تبلیغ فرما رہے تھے، اسلام کا ابتدائی دور تھا ۔ اہل مکہ اسلام کو روکنے کے لیے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ ابو جہل اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا اسی زمانے میں قبیلہ عراش کا ایک شخص مکہ میں آیا ،ابو جہل نے اس کا کچھ دینا تھا،ابو جہل اور اس کے درمیان کوئی لین دین تھا تو ابو جہل نے اس عراشی شخص کا حق اس کو دینے سے انکار کیا ۔ وہ مظلوم عراشی شخص مکہ میں مارامارا پھر رہا تھا کہ کوئی میری مدد کرے ،لیکن کون مدد کرے مقابلے میں ابو جہل جیسا با اثر ظالم سردار تھا ۔ کسی میں یہ جرات نہیں تھی کہ اس کا سامنا کر سکے۔
مکہ میں کسی نے ازرائے مذاق اس عراشی کو یہ مشورہ دیا کہ تم جاؤ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا معاملہ پیش کرو، وہ مکہ کی واحد شخصیت ہیں جو تمہارا حق تمہیں دلا سکیں گے۔یہ انہوں نے طنزا کہا تھا۔ مکہ کے لوگوں کو ابو جہل کی اسلام دشمنی معلوم تھی تو وہ کوئی تماشہ دیکھناچاہتے تھے تو اس لیےطنزیہ طور پر انہوں نے عراشی شخص کو کہا کہ تم جاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی فریاد پیش کرو۔عراشی شخص نے اس مشورہ کو سنجیدہ سمجھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلا گیا،,اپنا معاملہ پیش کیا کہ اس طریقے سے ابو جہل مجھے میرا حق نہیں دے رہا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ روانہ ہوئے ،ادھر مکہ کے ان سرداروں نے جنہوں نے اس کو طنزیہ مشورہ دیا تھا، انہوں نے اپنا ایک آدمی ان کے پیچھے لگایا کہ جاؤ اور دیکھو کہ کیا معاملہ ہوتا ہے اور ہمیں آکر بتاؤ ۔وہ عراشی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ابو جہل کے دروازے پر گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عراشی شخص کو لے کر ابو جہل کے دروازے پہ گئے۔آپﷺ نے دروازہ کھٹکھٹایا ابو جہل نکلا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی وہ خوفزدہ ہو گیا۔عراشی شخص کے بارے میں حضور علیہ السلام نے اسے حکم دیا کہ اس کا حق اس کو واپس کرو۔ ابو جہل بغیر کوئی چون چرا کیے فورا اپنے گھر گیا اور عراشی شخص کا حق لے کر آیا اور اس کے حوالے کر دیا۔
اہل مکہ وہ شخص جو بھیجا گیا تھا اس نے یہ معاملہ دیکھا اور جا کر مکہ کے سرداروں کو بتایاتو وہ بڑے حیرت میں پڑ گئے کہ یہ کیا ہو گیا؟ ابو جہل بھی تھوڑی دیر کے بعد سرداروں کی مجلس میں آیا۔ لوگوں نے اسے عار دلائی کہ” کیا تم نے اپنا مذہب چھوڑ دیا تم نے کیوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانی؟” ابو جہل کہنے لگا :کہ جب انہوں نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور میں باہر نکلا تو میں نے ان کی پشت پر ایک بڑا خوفناک اونٹ دیکھا جس کے بڑے خوفناک جبڑے اور دانت تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانوں گا تو یہ خون خوار اونٹ چیر پھاڑ کر کھا جائے گا۔ میں نے اپنی جان بچانے کے لیےاس کا حق فوری طور پر اس کو دینا ہی مناسب سمجھا۔
اس میں ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے اور دوسری طرف آپ علیہ السلام کا طرز عمل بھی ہمارے سامنے آتا ہے، کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مظلوم کی مدد فرماتے تھے اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے کوشش فرماتے تھے۔جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی،آپ گھر تشریف لائے تو حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نےجن الفاظ کے ساتھ آپ کو تسلی دی ان میں یہ بھی تھیتعين على نوائب الحق کہ آپ تو لوگوں کی مجبوریوں میں، لوگوں کی ضرورتوں میں ان کی مدد کرتے ہیں، اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا ۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمایاں وصف تھا جو آپ کو حضور علیہ السلام کی پوری حیات طیبہ میں نمایاں نظر آئے گا۔
فتح مکہ: مظلوموں کی نصرت اور عہد کی پاسداری
فتح مکہ کے موقع پہ مکہ مکرمہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کشی کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ قبیلہ بنو خزاع جو مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھاجو مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا، قبیلہ بنو بکر نے اس پر چڑھائی کی۔ اہل مکہ نے ان کی مدد کی، ان کے ظلم میں ان کے ساتھ شرکت کی۔ قبیلہ بنو خزاع کے ایک شخص نے غالبا عامر بن صالب نام تھا اس نے مدینہ منورہ میں جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فریاد کی۔ امام ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہنصرت يا عمرو بن سالم اے عمرو ابن سالم تیری مدد ہو گئی تیری نصرت کر دی گئی۔ یعنی ہم نے تمہاری مدد کرنے کا وعدہ کر لیا ہم تمہاری مدد کریں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے نام یہ پیغام بھیجا کہ یا تو قبیلہ بنو خزاع کے مقتولوں کی دیت ادا کرو ورنہ ہمارے اور تمہارے درمیان جو صلح حدیبیہ کا معاہدہ موجود ہے وہ ختم کالعدم تصور ہوگا کیونکہ تم لوگوں نے خود اس کے خلاف ورزی کی ہے۔ قبیلہ بنو خزاع مسلمانوں کا حلیف تھا تو ان پر شب خون مارنا مسلمانوں کے خلاف کاروائی کے مترادف تھا اور پھر اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم لشکر لے کر مکہ مکرمہ پر حملہ آور ہوئے اور مکہ مکرمہ فتح ہوا۔
پوری حیات طیبہ میں پوری سیرت میں آپ کو یہ نمایاں وصف نظر آئے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مظلوم کی مدد کے لیے کوشش فرماتے تھے اور ظالم کا ہاتھ روکا کرتے تھے۔ بحیثیت حکمران جو آپ کی یہ سیرت تھی۔بعد میں مسلمان خلفاء میں بھی کسی حد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف موجود رہا ہے۔
مسلمان تاجر اور رومی وزیر کا واقعہ
حضرت امیر معاویہ کی خلافت کے زمانے کا معروف واقعہ ہے کہ ایک مسلمان تاجر کو رومی بادشاہ کے کسی وزیر نے تھپڑ مارا تھا یا اس کے ساتھ کچھ ظلم کا معاملہ کیا تھا۔ اس نے آ کر امیر معاویہ کے دربار میں فریاد کی۔حضرت امیر معاویہ نے رومی بادشاہ کے اس وزیر کو اس کے ملک سے اغوا کرانے کے لیے ایک فوجی مشن ترتیب دیا اور اسے اغوا کروا کے اپنے دربار میں پیش کیا۔ پھر اس مسلمان کو بلایا اور کہا کہ اس سے اپنا حق لو اور اتنا ہی لو جتنا اس نے تمہارے اوپر ظلم کیا تھا۔ اگر اس سے زائد بدلہ لو گے تو تم ظالم، ظلم کرنے والے شمار ہو گے، پھر اس رومی وزیر کو کہا کہ جا کے اپنے بادشاہ سے کہو کہ مسلمان کوئی بے دست و پا نہیں ہے آج بھی ان کی خلافت موجود ہے جو ان کی مدد کرے گی۔
قبیلہ بنو عباس کی خلافت کے زمانے میں معتصم باللہ معروف خلیفہ تھا۔ عموریہ جو رومی سلطنت کا اہم شہر تھا وہاں پر ایک مسلمان عورت کو ایک ظالم عیسائی نے تھپڑ مارا تو اس عورت کے منہ سے نکلا کہ اے معتصم تم کہاں ہو؟ یعنی تم ہمارے خلیفہ ہو اور تمہارے خلافت کے زمانے میں ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ معتصم نے اس مسلمان بہن کی پکار کے جواب میں عموریہ پر فوج کشی کی، اس کو فتح کیا اور اس عورت کو تلاش کر کے اس ظالم کو بلوایا جس نے اس کو تھپڑ مارا تھا اور اس کا بدلہ اس کو دلوایا۔ تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ظالم کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں اور مظلوم کی مدد کرتے ہیں۔یہ مسلمانوں کے وہ اخلاق ہیں جن کا حکم اللہ نے مسلمانوں کو دیا تمام انبیاء کو یہی اسوہ رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی نصیحت اپنے مختلف فرامین میں مسلمانوں کو فرمائی۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی ظالم کی مدد کی اور اس ظالم کے ظلم کو حق میں بدلنے کے لیے اس کے ساتھ تعاون کیافقد برئت منه ذمة الله و ذمة رسوله تو ایسے شخص سے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ اٹھ جائے گا۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول ایسے شخص سے بری ہیں اس کا خدا اور رسول سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو ظالم کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون کرتا ہے، تو ظلم میں تعاون کرنا یہ ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص سے اللہ کی حمایت اور رحمت اٹھ جانے کا اعلان کیا ہے جو شخص ظالم کے ساتھ کسی بھی طریقے سے تعاون کرتا ہے۔یہ مسلمانوں کے اخلاق ہیں جنہیں بالخصوص اس دور میں اپنانے کی ضرورت ہے کہ اپنے معاشرے میں کوشش کی جائے کہ عدل سے کام لیا جائے مظلوم کی مدد کی جائے ظالم کا ہاتھ روکا جائے اور دنیا میں جہاں کہیں مسلمان مظلوم ہے اس کی جس طریقے سے مدد آپ سے بن سکے آپ کریں مالی مدد کر سکتے ہیں مالی مدد کریں اس کے حق میں آواز اٹھا سکتے ہیں تو اس کے حق میں آواز اٹھائیں۔ اور کچھ نہیں کر سکتے تو اپنی مظلوم بھائی کا درد اپنے دل میں محسوس کر کے اس کے لیے دعا تو کر سکتے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہیں دشمن سے نجات دلائے گی اور تمہارا رزق تمہارے پاس کھینچ کر لائے گی اور وہ چیز کیا ہے کہ تم دن اور رات اللہ جل جلالہ کے حضور دعا کرو۔ تو دعا مسلمان کا ہتھیار ہے اور اس ہتھیار کو وہ مجبوری اور حالت اضطرار میں بروئے کار لا کر ظالم کے خلاف اپنے لیے مدد تلاش کرتا ہے۔
یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں کہ انسان ظلم کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔اب آج دنیا جہان میں مسلمان مظلوم ہیں۔ چاہے وہ کشمیر کے مسلمان ہوں، فلسطین کے مسلمان ہو اور بھی مختلف ممالک میں مسلمان دشمنوں کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ میں اور آپ اگر یہاں بیٹھ کر ان کے لیے اور کچھ نہیں کر سکتے تو ان کے حق میں آواز اٹھا سکتے ہیں۔ اپنے اپنے طور پر ان کے لیے دعائے خیر کر سکتے ہیں کم از کم اپنے دل میں ان مظلوم بھائیوں کا درد تو محسوس کرے، یہ اخوت کا ادنی ترین تقاضہ ہے۔ ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ واقعات اخبار میں سنتے ہیں، سوشل میڈیا پر پڑھتے ہیں اور پھر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، نہ ہمارا دل کانپتا ہے نہ ان مظلوم مسلمانوں کے لیے ہمارے دل میں کوئی تڑپ پیدا ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہماری فطرت ہی مسخ ہو چکی ہے اگر ہماری فطرت سلامت ہوتی تو ان مظلوموں کا درد ہم اپنے دل میں ضرور محسوس کرتے تو کشمیر کے اپنے مظلوم بھائی فلسطین کے اپنے مظلوم بھائی اور دنیا میں جہاں کہیں ہمارے مظلوم مسلمان بھائی ہیں تو ان کی مظلومیت پر اپنے دل میں تڑپ محسوس کرنی چاہیے اور دل سے ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ اللہ کے سامنے فریاد کرنی چاہیے کہ آج حالات ایسے ہیں کہ ہم ان کے لیے اور کچھ نہیں کر سکتے لیکن آپ کے حضور ان کے لیے التجا ضرور کر سکتے ہیں کہ یا رب
العالمین ہمارے ان مسلمان مظلوم بھائیوں کی نصرت فرما اور ظالموں کے ہاتھ توڑ ڈالیے۔ اللہ رب العالمین عمل کی توفیق دے۔
مظلوم کی نصرت (سیرتِ طیبہ کی روشنی میں) – 3 کوئز
انسان کے لیے عدل کی کیا اہمیت ہے، اور وہ روئے زمین پر عدل کیسے قائم کر سکتا ہے؟
جواب: عدل انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ روئے زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کا حق دیا جائے، ظلم کا خاتمہ کیا جائے اور ذمہ داریوں کو مکمل دیانت داری سے ادا کیا جائے۔ انسان عدل کو قائم کرنے کے لیے خود انصاف پر مبنی فیصلے کرے، دوسروں کے حقوق کا احترام کرے اور ظالم کے خلاف کھڑا ہو۔
قرآن کریم نے ظلم کے خاتمے پر کیوں زور دیا ہے، اور ظالموں کی طرف جھکاؤ سے کیوں منع کیا ہے؟
جواب: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ ظالموں کی طرف جھکاؤ نہ رکھو، ورنہ تمہیں بھی دوزخ کی آگ اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ ظلم نہ صرف معاشرتی ناانصافی کو جنم دیتا ہے بلکہ اللہ کی ناراضی کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس لیے ہر انسان اور پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
حلف الفضول کا مقصد کیا تھا، اور نبی کریم ﷺ نے اس میں کیا کردار ادا کیا؟
جواب: حلف الفضول ایک معاہدہ تھا جس کا مقصد مظلوموں کی مدد اور ظالموں کو روکنا تھا۔ یہ معاہدہ مکہ میں مختلف قبائل کے درمیان ہوا تھا اور نبی کریم ﷺ نے بھی اس میں شرکت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر آج بھی کوئی ایسا معاہدہ ہوتا تو میں اس میں شریک ہوتا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدل و انصاف کو قائم کرنا اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔