منصب امامت اور امت مسلمہ

منصب امامت اور امت مسلمہ

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْن وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمَّد وَ عَلَى اَلِهِ وَاَصْحَابِهِ اَجْمَعِيْنَ وَعَلى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاِحْسَانِ اِلَى يَوْمِ الدِّيْنِ اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهيمَ رَبُّه بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ صدق الله مولانا العظیم

ترجمہ: اور (وہ وقت یاد رکرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا، اور انہوں نے وہ ساری باتیں کیں، اللہ نے ا(ان سے)کہا: میں تمھیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔  ابراہیم نے پوچھا: اور میری اولاد میں سے؟ اللہ نے فرمایا میرا(یہ ) عہد ظالموں کو شامل  نہیں ہے۔

بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو !

دنیا میں یا اس روئے زمین پر انسان اور اس کے خالق کے تعلق ہو مذہب کہا جاتا ہے۔ یعنی مذہب کا اگر آسان انداز میں آپ تعارف جاننا چاہیں۔ ویسے تو اس کی فلسفیانہ تعریفیں بھی ہیں، پیچیدگیاں ہیں، اس میں پیچیدہ لمبے چوڑے مباحث ہیں لیکن اگر آسان انداز میں ایک جملے میں کوئی مذہب کو سمجھنا چاہے تو یوں کہہ سکتا ہے کہ روئے زمین پر اللہ تعالی اور انسان کے درمیان تعلق کا جو واحد واسطہ ہے وہ مذہب برحق یا دین برحق کی اتباع ہے۔ گویا یہ ایک ایسا ذریعہ ہے کہ اس کی اتباع کر کے اس کے راستے پر چل کر انسان اپنے خالق کو حاصل کر سکتا ہے۔ مذہب کی تاریخ اس روئے زمین پر اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ انسان کی تاریخ پرانی ہے۔ بلکہ اگر کوئی یہ کہنا چاہے تو کہہ سکتا ہے کہ انسان کی تاریخ سے پہلے بھی اس کائنات میں مذہب موجود تھا۔ جب فرشتے اللہ تبارک و تعالی کے عبادت کرتے تھے۔اپنے خالق کی رضامندی حاصل کرتے تھے۔  اس کائنات میں انسان نہیں تھا لیکن مذہب موجود تھا ۔ جب پہلا انسان اس روئے زمین پر آیا تو اس روئے زمین پر اپنے ساتھ مذہب کو لے کر آیا ۔اللہ تبارک و تعالی کے تعارف کی ذمہ داری اور منصب لے کر زمین پر وارد ہوا اور جوں جوں انسانیت آگے ترقی کرتی گئی، مذہب میں بھی ارتقا آتا گیا۔ اللہ تبارک و تعالی اپنے احکامات میں تبدیلی کرتا رہا ترقی لاتا رہا یہاں تک کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو اللہ تبارک و تعالی نے دین کو بھی مکمل کر دیا ۔ معلوم ہوا کہ جتنی انسانی تاریخ پرانی یا قدیم ہے، اسی قدر روئے زمین پر مذہب کی تاریخ بھی قدیم ہے۔ مذہب پر عمل کرنے میں انسان کو کچھ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عشق کی وادی ہے اور اس کا قدم قدم پرخار ہوا کرتا ہے ۔

قرآن کریم میں اس کو گھاٹی سے تعبیر کیا گیا

 فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ

پھر وہ اس گھاٹی میں داخل نہیں ہوسکا۔ اور تمھیں کیا پتہ کہ وہ گھاٹی کیاہے؟

کہ تمہیں کیا معلوم کہ یہ گھاٹی کیا ہے؟ یعنی دین اسلام پر عمل کرنا اور دین کے احکامات پر عمل پیرا ہونا اس کو ایک گھاٹی سے تعبیر کیا گیا۔ گھاٹی پہاڑوں کے درمیان جو ذرا دشوار گزار راستہ ہوتا ہے اسے گھاٹی کہا جاتا ہے۔ جس سے گزرنا عام طور پر آسان نہیں ہوتا تو اس آیت میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے مذہب پر عمل کرنے کو گھاٹی سے تعبیر کیا کہ کچھ لوگ تو یہ گھاٹیاں عبور کر جاتے ہیں اور کچھ لوگ درمیان میں ہی فیل ہو جاتے ہیں۔ کچھ شروع ہی سے ہمت ہار جاتے ہیں۔ یہی صورتحال مذہب کی ہے کہ کچھ لوگ اس کی حقیقت کو پا جاتے ہیں، کچھ درمیان میں بھٹک جاتے ہیں اور کچھ شروع ہی سے مذہب کے راستے پر قدم رکھنے سے کتراتے ہیں۔

تو مذہب پر عمل کرنے میں کچھ پیچیدگیاں ہوتی ہیں کچھ مشکلات برداشت کرنی ہوتی ہیں کچھ آزمائشیں ہوتی ہیں۔ جب آدمی ان آزمائشوں سے گزر جاتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ ایک انعام تو جنت کا ہے جو آخرت میں ملے گا۔ اس سے ہٹ کر دنیا میں اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے مختلف انعامات انسان کو دیے جاتے ہیں۔ جب وہ اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے اور صحیح مذہب کے راستے پر چلتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام انبیاء کرام کے والد کہلاتے ہیں۔ ابو الانبیاء ان کو کہا جاتا ہے ان کے بعد آنے والے جتنے بھی انبیاء تھے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے اسوہ حسنہ میں جہاں انسان کے لیے اور بہت سارے درس کے راستے ہیں سبق کے راستے ہیں وہاں مذہب کی اہمیت کو اگر کوئی سمجھنا چاہے ، اس کے راستے میں آنے والی مشکلات کو اگر کوئی دیکھنا چاہے اور ان مشکلات کو عبور کر کے اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے ملنے والے انعامات کو اگر کوئی پرکھنا چاہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ حسنہ اور ان کی سیرت کو پڑھ کر ان تمام سوالات کے جوابات حاصل کر سکتا ہے۔ کس طریقے سے انہوں نے اللہ  کی اطاعت کی اور اطاعت کے اس راستے میں مختلف امتحانات سے گزرنا پڑا۔ آزمائشیں آئیں اور جب ان آزمائشوں سے وہ گزر گئے کامیاب ہوئے تو اب اللہ کی جانب سے انہیں انعام ملا۔

 وہ کس نوعیت کا تھا تو میں مختصرا عرض کیے دیتا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جس علاقے میں تشریف لائے تھے ،مورخین اسے عرب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آج جہاں بغداد ہے عراق میں اس سے کوئی 60،  70 کلومیٹر کے فاصلے پر وہ علاقے ہیں۔ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے تفہیم القران میں اس شہر کی کچھ تفصیلات لکھی ہیں کہ یہ اس زمانے کا بڑا متمدن اور مہذب شہر تھا ترقی یافتہ کہلاتا تھا۔ اڑھائی لاکھ سے پانچ لاکھ تک اس کی آبادی تھی۔ بڑے تجارت تجارت کرنے والے لوگ تھے۔ چونکہ مذہب سے دور تھے صحیح راستے سے ہٹے ہوئے تھے تو تجارت کی جو بگڑی ہوئی شکلیں تھیں وہ ان میں رائج تھی۔ سودی قرضے ہیں اور مختلف ظلم اور جبر پر مبنی خرید و فروخت کے سلسلے ان کے ہاں رائج تھے۔

 مذہبی طور پر یہ بت پرست تھے ان کے مختلف بت تھے۔ مولانا مودودی نے پانچ ہزار کے قریب بتوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ جو ان کے علاقے میں رائج تھے ہر شہر کا اپنا بت ہوا کرتا تھا ۔تو اس بت پرست علاقے میں اللہ تبارک و تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مبعوث کیا۔ پیغمبر کو اللہ تعالی شروع ہی سے پاک صاف رکھتا ہے۔

 نبوت ایک ایسا منصب ہے کہ اللہ تعالی نے  جس شخصیت کو آگے جا کر نبوت سے سرفراز کرنا ہو تو ابتدا ہی سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ معاشرے کی جو آلائشیں ہیں جو مختلف قسم کےبرے چال چلن ہیں، اطوار ہیں ،رسوم ہیں آگے جس شخصیت نے پیغمبر بننا ہے اللہ تعالی اس ماحول میں اس کو پاک صاف رکھتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی آزمائش یہ تھی کہ انہیں ایک ایسے ماحول میں اللہ نے پیدا کیا جہاں چاروں طرف بت پرستانہ ماحول تھا۔ بلکہ ان کے اپنے گھر میں جو ان کا سرپرست تھا، جسے بعض مورخین ان کے والد کہتے ہیں، کچھ ان کے چچا کہتے ہیں۔ تو جو بھی ان کا یہ بڑا  سرپرست تھا چاہے والد ہو یا چچا ہو۔ یہ نہ صرف یہ کہ بت پرست تھا بلکہ بت ساز بھی تھا۔ یہ بت بنایا کرتا تھا اور اس اس علاقے میں جو بتوں کا مرکزی معبد تھا، مندر تھا یہ اس کا مرکزی پجاری تھا۔ اس کے گھر میں اللہ تبارک و تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ چنانچہ اس بت پرستانہ اور مشرکانہ ماحول میں آنکھ کھولی لیکن اللہ تبارک و تعالی نے ہر قسم کے کفر وشرک، غلط رسوم اور رواج سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حفاظت فرمائی جیسے وہ اپنے ہر پیغمبر کی کیا کرتا ہے۔

 چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہر موقع پر اپنی قوم کو ان غلط رسوم اور بت پرستی سے خبردار کرنے کی کوششیں فرمائی۔

 قرآن کریم میں جگہ جگہ اس کا تذکرہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم ایک طرف تو بت پرست تھی کہ اپنے ہاتھوں سے بت تراش کر ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتی تھی اور دوسرے نمبر پر وہ ستاروں کی، سورج کی پوجا کرتی تھی۔ تو یہ تمام چیزیں ان کے ہاں ان کے ماحول میں معبود کے درجے پر فائز تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں معبودوں کی نفی فرمائی۔

 قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ

ترجمہ: اور (اس وقت کا ذکر سنو) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کہ: کیا آپ بتوں کو  خدا بنائے بیٹھے ہیں؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اور آپ کی قوم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ ان کے معبودوں کی پہلی قسم کی نفی فرمائی کہ یہ جو بتوں کی تم پوجا کرتے ہو اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اور یہ تمہارے ہاتھوں کے تراشیدہ بت نہ ہی اس قابل ہیں کہ ان کی پوجا کی جائے اور ان کی عبادت کی جائے۔ چونکہ بت پرستی کی نفی ایک واضح تھی انسانی عقل کے لیے یہ ایک عام نوعیت کی چیز تھی کہ بت کو سجدہ نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا ابراہیم علیہ السلام نے اس بت پرستی کی نفی کے لیے کسی دلیل کا سہارا نہیں لیا اس آیت کے مطابق سمجھاتے ہوئے بس سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ یہ جو بت پرستی ہے اور بتوں کی پوجا اور اتباع ہے یہ کھلی ہوئی گمراہی ہے۔

 اب دوسرے نمبر پر ستاروں کی عبادت اور جو لوگ نجوم پرستی میں مبتلا تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی نفی کرنی تھی۔ ستارے چونکہ ذرا معزز شمار ہوتے تھے اور انسانی تراش خراش سے بھی وہ بالاتر تھے۔ انسان انہیں پیدا نہیں کرتا اور خوبصورت نظر آتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نجوم پرستی کی ممانعت کے لیے دلیل کا سہارا لیا۔ ایک اچھا دلیل دینے والا ہمیشہ دلیل دیتے ہوئے مخاطب کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتا ہے۔ مخاطب کی ذہنی سطح جس نوعیت کی ہو اسی نوعیت کی دلیل دیتا ہے۔ ایسا نہیں کہ مخاطب جاہل ہو، علم سے دور ہو اور دلیل دینے والا فلسفی مباحث چھیڑ دے تو یہ کم عقلی شمار ہوتی ہے۔ ایک عقلمند مبلغ وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کو سمجھاتے ہوئے ان کی عقلی اور شعوری سطح کو مدنظر رکھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ابو الانبیاء تھے ان سے بڑھ کر مبلغ کون ہو سکتا ہے تو انہوں نے اپنی قوم کو نجوم پرستی کا بطلان دکھلانے کے لیے ایک ایسی دلیل کا سہارا لیا، جسے ان کی قوم آسانی سے سمجھ سکتی تھی۔

فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاۚ قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ

ترجمہ: چنانچہ جب ان پر رات چھائی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا۔ کہنے لگے: یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ ڈوب گیا تو انہوں نے کہا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

جب رات کو ایک مرتبہ ستارہ طلوع ہوا جب رات ہوئی اورستارہ دیکھا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ جس طرح تم سمجھتے ہو کہ یہ ہمارے معبود ہیں تو تمہارے گمان کے مطابق اس کو میرا رب ہونا چاہیے۔ اب تھوڑی دیر کے بعد ستارہ غروب ہو گیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں یہ میرا رب نہیں ہو سکتا۔ جس چیز پر غروب آتا ہو جس چیز پر زوال آتا ہو میں اسے پسند نہیں کرتا۔

 گویا ایک پیغام دیا کہ جو چیز بیرونی اثر کو قبول کرتی ہے اور اس کے اوپر زوال آئے غروب آئے تو اس کو رب بننے کی کوئی استطاعت نہیں اور نہ ہی اسے حق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور اس کی اتباع کی جائے۔ اب ستاروں کی اتباع یا ستاروں کی عبادت کرنے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک کاری وار کیا۔  اس پہ زوال آتا ہے غروب ہو جاتا ہے۔ نظروں سے غائب ہو جاتا ہے لہذا میں اس کو رب نہیں مان سکتا

تھوڑی دیر کے بعد چاند طلوع ہوا

 فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ

ترجمہ: پھر جب انہوں  نے چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا کہ: یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے:اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں یقینا گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں۔

فرمایا کہ اس کو میرا رب ہونا چاہیے۔ یہ میرا رب ہے جس طرح تم لوگ سمجھتے ہو کہ چاند کی بھی عبادت کی جاتی ہے۔ چاند بھی معبود ہے تو تمہارے گمان کے مطابق اس کو میرا رب ہونا چاہیے اور جب وہ غروب ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میرا حقیقی رب۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو تو رب نہیں ہونا چاہیے۔ جو میرا حقیقی رب ہے اگر وہ مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں بھی تمہاری طرح گمراہ ہوتا اور اس  چاند کی پرستش کا شکار ہو جاتا۔  اس کے اوپر تو زوال آتا ہے غروب ہو جاتا ہے اس کو یہ حق نہیں ہے کہ یہ معبود بن سکے تو کم از کم اس کو بھی معبود نہ سمجھو اور نہ اس کو معبود ہونا چاہیے۔

 اب تھوڑی دیر کے بعد سورج طلوع ہوا جب دن چڑھا رات ختم ہوئی سورج طلوع ہوا

فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ

ترجمہ: پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا:یہ میرا رب ہے۔ یہ زیادہ بڑا ہے۔ پھرجب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا: اے میری قوم!جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔

تو حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ اچھا تمہارے گمان کے مطابق یہ میرا رب ہے پھر اس کو رب ہونا چاہیے کیونکہ یہ ستاروں اور چاند سے بھی جسامت میں  بڑا ہے۔  نور کے اعتبار سے روشنی کے اعتبار سے بھی ان سے بڑا نظر آتا ہے لہذا اس کو رب ہونا چاہیے لیکن جب سورج بھی غروب ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے رب ہونے کا بھی انکار کیا اور اب ببانگ دہل اعلان فرمایا

اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ

ترجمہ: میں نے تو پوری طرح یکسو ہوکر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا ہے، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

تمہارے معبودوں کا تو یہ حال ہے جس کو تم معبود سمجھتے ہو وہ تھوڑی دیر تمہاری نظروں کے سامنے رہتا ہے اور پھر اس پہ زوال آ جاتا ہے۔ بیرونی اثرات کو قبول کرتا ہے۔ لہذا میں ان سے باز آیا اور میں اپنے آپ کو خالص کرتا ہوں، اپنی عبادات کو متوجہ کرتا ہوں، ایک ایسے رب کی طرف جس نے زمین کو بھی پیدا کیا ۔جس نے آسمان کو بھی پیدا کیا جو تمہارے ان مزعومہ معبودوں کا بھی خالق ہے۔ اسی کو حق ہے کہ اس کے سامنے سجدہ کیا جائے انسان اس کی عبادت کرے۔ لہذا میں اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ اس طریقے سے دلیل کا سہارا لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے گھر والوں کو بھی اور اپنی پوری قوم کو سمجھایا۔

ایک اور مقام پر قرآن کریم حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ یوں نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ابتدا میں اپنے والد سے مخاطب ہو کے ارشاد فرمایا

اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْــٴًـا

ترجمہ: یاد کرو جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا تھاکہ: ابا جان! آپ ایسی چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں، اور نہ آپ کا کوئی کام کرسکتی ہیں؟

 اے ابا جان آپ ایسی چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، نہ بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، نہ آپ کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں تو ایسی ذات کو یا ایسی چیزوں کی عبادت آپ کرتے ہی کیوں ہیں۔ معبود تو ہوتا ہی اس لیے ہے کہ جب آپ مشکل میں ہوں تو وہ آپ کو مشکل سے نکال لے۔ یہ بے جان چیزیں یہ بت، یہ سورج، یہ ستارے، یہ چاند، یہ بذات خود بے جان ہیں اور تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتے تو ان کی عبادت کر کے تمہیں کیا ملے گا لیکن والد نے بجائے بات سننے کے حضرت ابراہیم سے کہا میں تجھے سنگسار کر دوں گا ۔یہ ہر ماحول میں اور تاریخ کے ہر موڑ پر باطل کا لب و لہجہ ہوا کرتا ہے۔ جب وہ حق کی دلیل کے سامنے ہار جاتا ہے تو بجائے حق کو قبول کرنے کے وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتا ہے۔ دھمکیاں دیتا ہے ہر زمانے میں پیغمبر کے نافرمانوں نے پیغمبروں کو اسی لب و لہجے میں اور انہی الفاظ میں جواب دیا۔ تو والد نے کہا میں تمہیں سنگسار کر دوں گا۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اسی اثناء میں ایک بہت بڑی آزمائش آئی کہ جو وقت کا بادشاہ تھا نمرود اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اب سزا کوئی عام بھی دے سکتا تھا۔ سزائے موت دے سکتا تھا اور سزائیں دے سکتا تھا لیکن اس نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ انہوں نے ہمارے معبودوں کو چیلنج کیا ہے، ہمارے معبودوں پر وار کیا ہے۔ لہذا ہم ان کو ایسی سزا دیں گے جسے لوگ یاد رکھیں، عبرت کا نشانہ بنائیں گے۔ چنانچہ ایک بہت بڑے مقام پر بہت بڑی مقدار میں ایندھن جمع کیا، آگ کا بہت بڑا آلاؤ دہکایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک منجینق میں رکھ کر اس میں پھینک دیا اب یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اس راستے میں پہلی آزمائش تھی لیکن وہ بے خوف اس پہ کود گئے کسی قسم کا اندیشہ ان کے دل میں نہ آیا۔ اللہ تبارک و تعالی پر توکل اتنا تھا کہ وہ آگ میں کود گئے۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ عین اس موقع پر حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور اپنی مدد کی پیشکش کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا جہاں تک تیرا تعلق ہے تو مجھے تمہاری کوئی حاجت نہیں ہے۔ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تمام تر توکل صرف اللہ تبارک و تعالی کی ذات پر تھا۔ پھر اللہ نے مدد بھی کی۔ قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ (چنانچہ انہوں نے ابراہیم کو آگ میں ڈال دیا اور) ہم نے کہا : اے آگ! ٹھنڈی ہو جا، اور ابراہیم کےلیے سلامتی بن جا۔

 مفسرین فرماتے ہیں کہ اس موقع پر اللہ کا یہ حکم عام تھا چنانچہ اس لمحے میں کائنات میں جہاں کہیں بھی کوئی آگ روشن تھی تو اس کی جو گرمائش کی تاثیر تھی وہ ختم ہو گئی اور ٹھنڈی ہو گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس آگ میں پھینکا گیا وہ بھی ٹھنڈی ہو گئی اور اتنی ٹھنڈی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ یہ ان کے لیے پہلی آزمائش تھی جو مذہب کے راستے میں دین پر عمل کرنے کے راستے میں اللہ تبارک و تعالی کی طرف بلانے کے راستے میں انہیں درپیش ہوئی۔

 اگلے نمبر پر انہیں ہجرت کا سامنا ہوا۔ جب والد نے کہا کہ یا تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا یا کہیں دور ہو جاؤ۔تو حضرت ابراہیم نے فرمایا اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْؕ کہ میں جاتا ہوں اپنے رب کی طرف (اپنے رب کے حکم پہ عمل کرتے ہوئے میں تمھیں بھی چھوڑتا ہوں اور تمھارے مشرکانہ ماحول کو بھی چھوڑتا ہوں)۔

چنانچہ ان کے ساتھ صرف دو لوگ نکلے تھے ایک ان کی اہلیہ حضرت سارہ اور ایک ان کی بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام ،جو آگے چل کر پیغمبر بنے۔ یہ شروع ہی سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کفالت اور پرورش میں تھے۔ محض یہ دو شخصیات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تھی ان دو کے علاوہ پورے ماحول میں کوئی ایک بھی مومن نہیں تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لایا ہو۔ اس طریقے سے وہ ہجرت کر کے اپنے آبائی علاقے سے وہاں سے چلے گئے۔

حکم یہ تھا کہ مصر کے راستے سے شام اور فلسطین کی طرف جاؤ ۔چنانچہ انہوں نے اسی راستے پر اپنے ہجرت کا سفر جاری رکھا۔ مصر کے بادشاہ کی طرف سے ان کی اہلیہ کو ایک آزمائش سے گزرنا پڑا۔ اللہ تبارک و تعالی نے حضرت سارہ کی حفاظت فرمائی اور وہاں سے آگے حضرت ابراہیم کے ساتھ شام اور فلسطین کی جانب چلے گے۔حضرت لوط علیہ السلام کو درمیان سفر میں اللہ تعالی نے نبوت سے سرفراز فرمایا۔ جب یہ سفر ہجرت جاری تھا تو مشرقی اردن کے پاس سے گزرتے ہوئے جہاں بحر میت ہے اس علاقے میں ایک ایسی قوم آباد تھی جو اس زمانے میں بڑی متمول اور متمدن تھی۔ اللہ تبارک و تعالی نے اس مقام پر حضرت لوط علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور انہیں حکم ہوا کہ تم یہیں رک جاؤ۔ اسی قوم کے پاس ٹھہر جاؤ اور انہیں اللہ تبارک و تعالی کا پیغام پہنچاؤ۔ اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حضرت لوط علیہ السلام اس بستی میں ٹھہر گئے اور حضرت ابراہیم اور ان کی اہلیہ حضرت سارہ وہ وہاں سے آگے چلے گئے۔ جہاں حکم تھا شام اور فلسطین میں وہاں جا کر قیام فرمایا۔ حضرت ہاجرہ بھی مصر سے ساتھ ہو گئی تھی۔ اب وہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ کے منصب پر فائض تھی۔

اللہ تبارک و تعالی نے ان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلا بیٹا بھی عطا فرمایا جس کا نام انہوں نے اسماعیل رکھا۔ اب جب فلسطین کے مقام پر آ کر آباد ہوئے تو آزمائشوں کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا بلکہ اگلی آزمائش منتظر تھی۔ چنانچہ اگلا حکم آیا کہ حضرت سارہ کو یہیں چھوڑو اور حضرت ہاجرہ اوراپنے شیر خوار بچے کو ساتھ لو اور یہاں سے لیکر روانہ ہو جاؤ۔ کہاں جاؤ منزل کا پتہ نہیں حضرت جبرائیل اللہ کے حکم سے آئے اور اس مختصر سے قافلے کو لے کر روانہ ہوئے۔ درمیان میں کہیں پر جب بستی آتی جہاں کچھ لوگ آباد ہوتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت جبرائیل سے سوال کرتے کہ کیا اس علاقے میں ہم نے رکنا ہے؟ حضرت جبرائیل کہتے کہ نہیں ابھی سفر آگے باقی ہے۔ چنانچہ سفر کرتے کرتے جب مکہ مکرمہ کے مقام پر آئے جو اس زمانے میں غیر آباد تھا اور یہاں پر کانٹے دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ان کانٹے دار جھاڑیوں کے بیچوں بیچ بیت اللہ ایک ٹیلے کی شکل میں تھا۔ تعمیر نہیں تھا گر چکا تھا زمانے کی گردشوں سے گزرتے گزرتے اور اب ایک ٹیلے کی شکل میں باقی تھا۔ اس ٹیلے کی جو بیت اللہ کا مقام تھا اس کے پڑوس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھپر نما ایک چھت تعمیر کی، کمزور تھی۔ حضرت ہاجرہ اور اپنے شیر خوار بچے حضرت اسماعیل کو وہاں چھوڑا کھانے کے نام پر یا توشے کے نام پر چند کھجوریں اور کچھ پانی تھا ۔

حضرت جبرائیل نے اللہ تعالی کا اگلاحکم پہنچایا کہ اب ان دونوں کو یہاں چھوڑ کر یہاں سے روانہ ہو جاؤ حضرت ابراہیم اللہ تبارک و تعالی کے حکم پر عمل کرنے میں اتنا آگے تھے کہ جیسے ہی حکم سنا تو اتنی تاخیر بھی گوارا نہیں کی کہ اپنی اہلیہ کو سمجھا دیتے کہ میرے لیے اگلا حکم آچکا ہے اور تم یہاں صبر کرو اللہ مدد کرے گا۔ ان کلمات کے کہنے تک بھی تاخیر گوارا نہیں کی۔جیسے ہی حکم آیا وہیں سے حضرت جبرائیل کے ساتھ منہ موڑا اور آگے کو روانہ ہوئے۔حضرت ہاجرہ نے جب دیکھا کہ یہ تو ہمیں اس غیر آباد علاقے میں چھوڑ کر جا رہے ہیں تو وہ تھوڑی سی ساتھ چلی سوال کرتے ہوئے کہ آپ کہاں کو چلے؟ ہمیں کس کے سپرد چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ ایک دو مرتبہ سوال کیا حضرت ابراہیم نے جواب نہیں دیا جلدی میں تھے کہ اللہ کے حکم پر عمل ہو اور جلدی ہو تو حضرت ہاجرہ بھی پیغمبر کی اہلیہ تھی۔ حضرت ابراہیم کی صحبت میں تھی تو سمجھ گئی اور انہوں نے آخری مرتبہ پوچھا کہ کیا آپ کے رب کا یہ حکم ہے اپنے رب کے حکم پر ہمیں یہاں چھوڑ کے جا رہے ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اب جواب دیا کہ ہاں یہ میرے رب کا حکم ہے کہ تمہیں یہاں چھوڑوں اور میں یہاں سے روانہ ہو جاؤں۔ یہ جواب بھی چلتے چلتے ارشاد فرمایا۔ حضرت ہاجرہ نے اس جواب کو سن کر ایک ایسا جملہ کہا جسے آپ توکل کا نچوڑ اور خلاصہ کہہ سکتے ہیں۔

چنانچہ انہوں نے کہا کہ اگر یہ آپ کے رب کا حکم ہے کہ ہم یہاں اکیلے رہیں اس غیر آباد علاقے میں اگر یہ آپ کے رب کا حکم ہے تو پھر وہ یقینا مجھے اور میرے بیٹے کو ضائع نہیں کرے گا ،وہ ہمیں باقی رکھے گا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا سفر جاری رکھا مڑ کر نہیں دیکھا اور جب ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں موڑ تھا راستے میں تو وہاں موڑ پر رک گئے۔ تاکہ حضرت ہاجرہ کی نظر ان پہ نہ پڑے وہاں رک کر رخ موڑ کر اب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں کہ یا رب العالمین میں نے اپنی بیوی اور اپنے بچے کو ایک ایسے مقام پر چھوڑا ہے غیر ذی زرع جس میں زراعت کا بھی کوئی امکان نہیں ہے، یہاں کھانے پینے کے وسائل نہیں ہیں، زندگی گزارنے کے ذرائع نہیں ہیں، ظاہری اسباب کے درجے میں یہاں زندگی گزارنے کا کوئی وسیلہ نہیں ہے۔ لیکن میں نے آپ کے حکم پر اس بیابان میں اپنی بیوی اور اپنے اکلوتے شیر خوار بچے کو چھوڑا ہے۔ کیوں؟ رب اے پروردگار تاکہ نماز قائم کی جائے۔ چونکہ اس علاقے میں آگے جا کر اللہ تبارک و تعالی کا گھر بننا تھا، بیت اللہ بننا تھا۔ جس نے مومنین کی نمازوں کی قبلہ ہونے کا شرف اور منصب حاصل کرنا تھا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کر کے آگے کو چل دیے۔یہ ان کی اگلی ازمائش تھی درمیان میں کئی مرتبہ وہ آتے بھی رہے اللہ تبارک و تعالی نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی زندگی گزارنے کے یہ ذرائع پیدا کیے کہ وہاں زم زم کا چشمہ جاری ہوا اور پانی دیکھ کر قبیلے بنو جرہم وہاں آباد ہوا۔ اس طرح مکہ مکرمہ کی آبادی شروع ہوئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام درمیان میں ایک آدھ دفعہ چکر بھی لگا چکے تھے۔

اب ان کی آزمائشوں کی تاریخ کی عظیم ترین آزمائش حضرت ابراہیم کی طرف متوجہ ہوئی۔ اللہ کی جانب سے حکم آیا کہ اب اپنے اس بیٹے کو قربان کرو۔ یہ وہ بیٹا تھا جو بڑی ارمانوں اور بڑی دعاؤں کے بعد اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کو دیا تھا۔ مورخین کہتے ہیں کہ 80 برس کی عمر میں بڑھاپے میں اللہ تبارک و تعالی نے یہ بیٹا عطا فرمایا تھا ۔جب یہ اس قابل ہوا کہ باپ کی ساتھ چل پھر سکے 12، 13 برس کی عمر کو پہنچا تو اللہ کی جانب سے حکم آیا کہ اس کو قربان کرو ،تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کا یہ حکم بھی پورا کر دکھایا ۔یہ آزمائشوں کی تاریخ تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہ مذہب پر عمل کرنے کے راستے میں ان تمام آزمائشوں سے گزرے۔ جب آزمائشوں میں کامیاب ہوئے تو اللہ تبارک و تعالی نے اب انعام دیا اور فرمایا  کہ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ اے ابراہیم تم نے تمام امتحان کامیاب کر لیے ہر امتحان میں پورے اترے۔ لہذا اب بطور انعام کے میں تمہیں تمام انسانیت کے لیے امام بناوں گا۔ پیغمبر توپہلے سے تھےاور  اب اللہ تعالی نے منصب امامت پر بھی فائز کیا یاد رکھیے کہ امامت سے مراد وہ مخصوص فلسفہ نہیں ہے جو بعض حضرات نے گھڑ رکھا ہے ایک گورکھ دھندہ ہے جس کےمطابق وہ امام کو پیغمبر پر بھی فضیلت دیتے ہیں۔ ایک سادہ انداز میں آپ یوں سمجھ لیجیے کہ یہاں امام سے مراد مقتدا تھا بعض پیغمبر ایسے بھی گزرے ہیں ان کے پیروکار نہیں تھے۔

مقتدا کا مطلب کیا ہے؟ جس کے کچھ پیروکار ہوں۔ حضرت ابراہیم پیغمبر تو پہلے سے تھے لیکن ان کے پیروکار نہیں تھے۔ آپ نے دیکھا ابھی میں نے عرض کیا کہ جب وہ اپنے علاقے سے نکلے تھے تو کوئی مومن نہیں تھا سوائے حضرت سارہ ان کی اہلیہ کے اور اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے جو آگے جا کر پیغمبر بنے۔ تو پیغمبر تو پہلے سے تھے لیکن پیروکار نہیں تھے اور اب جب اللہ تعالی نے تمام تر امتحانات سے گزارا تو اب بطور انعام کے فرمایا کہ اب میں تمہیں مقتدا بناؤں گا۔ اب پورا عالم پوری کائنات تمہاری اقتدا اور تمہاری پیروی کرنے پر فخر محسوس کرے گی۔

 چنانچہ یہی ہے کہ آج بھی کائنات میں جتنے مذاہب ہیں چاہے وہ آسمانی ہو یا غیر آسمانی ہوں، اپنی نسبت ان کی طرف کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ وہ منصب امامت ہے جو اللہ تبارک و تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عطا فرمایا۔ حضرت ابراہیم نے دعا کی  وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْؕکہ یا رب العالمین یہ منصب امامت میری اولاد کو بھی دیا جائے۔  اللہ نے فرمایا لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ کہ ظالموں کو تو میں نہیں دوں گا البتہ جو آپ کے راستے پر چلے گا اسے میں یہ منصب عطا کروں گا۔

چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسل انسانی کی جو لڑی چلی ہے اسے دو شقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک تو بنی اسرائیل ہے بنی اسحاق جو حضرت اسحاق علیہ السلام کے ذریعے چلی آگے یعقوب علیہ السلام تھے۔ ایک لڑی یہ ہے جس میں کثرت سے انبیاء آئے ہیں، بادشاہ بھی آئے ہیں۔ دوسری لڑی جو چلی ہے وہ بنی اسماعیل ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعے اللہ تبارک و تعالی نے حضرت ابراہیم کی نسل کو آگے بڑھایا ،جو عرب میں آباد تھے تو یہ ان کی اولاد کی دو شقیں ہیں دو لڑیاں ہیں۔ ان دونوں لڑیوں میں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ان کے راستے پر چلتی رہی، اللہ تعالی یہ منصب امامت بھی ان کو دیتا رہا

قرآن کریم کا پہلا پارہ بنی اسرائیل کے تذکرے سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں ایک آیت آپ کو متعدد دفعہ نظر آئے گی کہ

یایٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ

ترجمہ: اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور یہ بات (یاد کرو) کہ میں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی۔

اے بنی اسرائیل یا اے اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب کی اولاد میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تمہارے اوپر کی تھی۔  یاد رکھو کہ میں نے تمام جہانوں پر تمام انسانوں پر تمہیں فضیلت دے رکھی تھی۔ یہ فضیلت کیا تھی یہ وہی منصب امامت تھا ،جب بنی اسرائیل اپنے جد امجد حضرت ابراہیم کے راستے پر چلتے رہے وہ دنیا کے امام رہے، مقتدا رہے۔ دنیا کی اقوام ان کی پیروی کرتی رہی لیکن جب انہوں نے اپنے جد امجد کا راستہ چھوڑا تو اللہ تبارک و تعالی نے بنو ابراہیم کی اس لڑی سے منصب امامت چھین کر دوسری لڑی حضرت اسماعیل کی اولاد بنو اسماعیل میں رکھا۔

 پہلے پارے میں آپ کو بنی اسرائیل کا تذکرہ نظر آئے گا ان کی نافرمانیاں دکھائی دیں گی اور آگے جا کر پھر آپ کو یہ آیت نظر آئےگی۔امت محمدیہ سے مخاطب ہو کر اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتے ہیں وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا اور(مسلمانو) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے۔ یعنی بنو اسرائیل کے پاس جو منصب امامت تھا ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان سے چھین کر بنو اسماعیل کو دیا جا رہا ہے۔اب بنو اسماعیل بھی اس کائنات کی سب سے افضل امت ہے، سب سے مقدس قوم ہے اور سب سے برگزیدہ مخلوق ہے۔ مزید آگے جا کے ارشاد فرمایاكُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ ترجمہ: (مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کےلیے وجود میں لائی گئی ہے۔

 یاد رکھیے کہ یہ جو منصب امامت ہے یا یہ جو اقتدا ہے اور پوری کائنات کا پیشوا ہونا ہے اللہ تبارک و تعالی نے اپنی اطاعت کے ساتھ مشروط رکھا۔ بنی اسرائیل جب تک اللہ کی اطاعت کرتے رہے اس منصب پر فائز رہے۔ جب ہٹے تو بنو اسماعیل کو اللہ تبارک و تعالی نے یہ منصب دیا لیکن ساتھ یہ ارشاد فرمایا!

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ٘-یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ

ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن وہ محبت کرتا ہوگا، اورو ہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مومنوں کےلیے نرم اورکافروں کےلیے سخت ہوں گے اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے، اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے،یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے۔

کہ اے ایمان والو یاد رکھو کہ تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اللہ کے احکامات سے منہ موڑے گا تو اللہ تعالی تم سے بھی یہ منصب چھین لے گا ۔پھر کیا ہوگا؟  اللہ تعالی ایک اور قوم کو لے آئے گا۔  وہ قوم کیسی ہوگی؟ اللہ انہیں پسند کرے گا اور وہ اللہ کو پسند کریں گے اہل ایمان کے لیے وہ اپنے آپ کو نرم کریں گےآفرین۔۔۔۔۔ اور اللہ کی نافرمانوں کے لیے وہ ننگی تلوار ہوں گے اللہ کے راستے میں جہاد کریں گےاحکامات پر عمل کرنے میں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خیال نہیں۔

خلاصہ یہ نکلا کہ جب انسان اس دنیا میں مذہب پر عمل کرتا ہے اللہ کے راستے پر چلتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی اسے کچھ آزمائشوں سے گزارتے ہیں۔ جب وہ ان آزمائشوں میں کامیاب ہوتا ہے تو پھر اللہ کی جانب سے احکامات متوجہ ہوتے ہیں انعامات اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی اسے دنیا میں بھی مقتدا بناتا ہے اور آخرت میں جنت اس کے منتظر ہوتی ہے۔ یہ انعامات اسی وقت تک اس قوم کے ساتھ ہوتے ہیں جب تک وہ اللہ تبارک و تعالی کے حکم پر عمل کرتے رہیں۔ آج امت مسلمہ کا جو حال ہے آپ کے سامنے ہے امت مسلمہ اگر اس دنیا میں مغلوب ہے اگر وہ منصب امامت سے محروم ہے تو صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو چھوڑ رکھا ۔آج بھی اگر میں اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پہ عمل کر لے تو اللہ تبارک و تعالی یہی کھویا ہوا منصب امت مسلمہ کو دوبارہ عطا فرمائیں گے اللہ جل جلالہ عمل کی توفیق دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *