اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ وَالصّلَاةُ وَالسّلامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمّدوعَلى الِه وَاَصْحَابِه اَجْمَعِيْنَ وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاحْسَانٍ اِلَى يَومِ الدِيْنِ
امَّا بَعْد! قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الا كل شيء من امر الجاهليه موضوع تحت قدمی
بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا ” الا كل شيء من امر الجاهليه موضوع تحت قدمی کہ یاد رکھو جاہلیت کے زمانے کے تمام معاملات تمام جاہلی رسم میں آج میرے قدموں تلے ہیں” گویا اس جملے کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام جاہلیت کے رسوم کے خاتمے کا اعلان فرمایا تھا۔ یہ جاہلی رسمیں یا جاہلی قدریں کیا تھی؟ ان میں یہ طبقاتی امتیاز بھی تھا، نسلی بنیادوں پر فخر بھی تھا، فحاشی بھی تھی، عریانی بھی تھی، مختلف رسمیں بھی تھیں، جو زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے درمیان رائج تھیں، جو اسلام سے متصادم تھیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ان کے خاتمے کا اعلان فرمایاان رسموں میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ زبانی معاہدات کے ذریعے رشتے قائم کرتے تھے۔ زبانی کلامی رشتے ان کے درمیان قائم ہوتے تھے۔ وہ رشتے پھر برقرار رہتے تھے اور بعض اوقات ان میں سے ایک کے انتقال کی صورت میں ان کے درمیان وراثت بھی چلتی تھی۔ اگر کسی نے کسی کو کہہ دیا کہ تم میرے بھائی ہو تو وہ اس کا بھائی شمار ہوتا تھا۔ اگر ایک آدمی نے دوسرے کو اپنا بیٹا بنا لیا تو عرب اس کو اس کا حقیقی بیٹے کا سٹیٹس دیتے تھے۔ وہ اس کا والد تصور ہوتا تھا، وہی اس کا کفیل ہوتا تھا، ذمہ دار ہوتا تھا اور اس کی موت کے بعد اس بیٹے کو بھی وراثت میں شریک تصور کیا جاتا تھا۔ تو یہ زبانی رشتے تھے جو زبان کی بنیاد پر وہ قائم کرتے تھے۔ کسی کو بھائی بنا لیا کسی کو بیٹا بنا لیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اسی رواج کے مطابق اپنا بیٹا بنایا تھا یہ بکتے بکتے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کے پاس آئے تھے۔ حضرت خدیجہ نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے آپ علیہ السلام کے سپرد کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ بڑا لگاؤ اور بڑی انسیت تھی۔حضرت زید بن حارثہ کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی درجے کے انسیت تھی۔ یہاں تک کہ ان کے والدین ان کو تلاش کرتے کرتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور درخواست کی کہ آپ ان کو ہمارے سپرد کر دیں۔ اگر کچھ لینا بھی ہے،آپ کے ان پہ اخراجات ہوئے ہوں تو ہم دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم اس کو بلا لو اور اس سے پوچھ لو اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو مجھے کسی چیز کی طلب نہیں ہے اس کو لے جاؤ۔حضرت زید بن حارثہ کو بلایا گیا تو انہوں نے اپنے والدین کی پیشکش کو رد کیا اور بنسبت والدین کے ساتھ جانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے کو اختیار کیا۔جب والدین نے ان کا اتنا لگاؤ دیکھا تو وہ مطمئن چلے گئے کہ ہمارا بیٹا محفوظ ہاتھوں میں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ اس حد تک لگاؤ تھا کہ انہیں اپنا بیٹا بنایا تھا۔ اور عام معاشرتی چلن کی وجہ سے معاشرے میں لوگ انہیں زید بن محمد کہنا شروع ہو گئے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت بھی ان کی وجہ سے ابو زید پڑ گئی تھی۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنے خاندان کی ایک نامور خاتون حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے کیا۔تو اللہ تبارک و تعالی نے اس رسم کو ختم کرنا تھا کہ یہ جو زبانی کلامی معاہدوں کی وجہ سے یا لوگوں کی باتوں کی وجہ سے جو رشتے وجود میں آتے ہیں تو ان رشتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ قرآن کریم کی آیت بھی نازل ہوئی اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ کہ یہ جو تمہارے منہ بولے بیٹے ہیں ان کو اپنے حقیقی ابا ان کے جو حقیقی والد ہیں ان کی طرف نسبت کر کے ان کو پکارا کرو۔ کہ فلاں فلاں کا حقیقی بیٹا ہے هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ اللہ تبارک و تعالی کے ہاں یہی بات زیادہ انصاف اور زیادہ عدل والی ہے چنانچہ حضرت زیدبن حارثہ کو لوگ پھر دوبارہ زید بن حارثہ کہنا شروع ہو گئے اور وہ جو درمیان میں انہیں زید بن محمد کہنے کا ایک رواج چلا تھا تو صحابہ کرام نے اس کو ترک کیا۔
عربوں میں ایک اور رسم تھی کہ چونکہ منہ بولے بیٹے کو وہ حقیقی بیٹے کی طرح سمجھتے تھے اور جو منہ بولے بیٹے کی بیوی ہوتی تھی اسے بھی حقیقی بہو کی طرح تصور کیا جاتا تھا۔ان کے معاشرے میں یہ بڑی معیوب بات تھی کہ اگر وہ منہ بولا بیٹا کسی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو بعد میں اس کا جو منہ بولا والد تھا وہ اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ ان کے ہاں بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا کہ اگر کوئی اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے شادی کر لے۔
اللہ جل جلالہ نے اس رسم کو ختم کرنا تھا اور رسم کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیا چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے درمیان نبھاؤ نہ ہو سکا۔ دونوں میں فرق تھا۔ بہرحال مختلف وجوہات تھیں جن کی وجہ سے نوبت طلاق تک جا پہنچی۔ اب جب زینب بنت حجش کو طلاق ہوئی تو اللہ تبارک و تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ زینب بنت حجش کے ساتھ نکاح فرمائیں۔ شروع میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ گراں بھی تھا۔ کیونکہ معاشرے میں چہم گوئیاں ہونی تھیں۔ عربوں کے ماحول میں اسے بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اس رسم کو ختم کرنا تھا اللہ کا حکم تھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ نکاح فرمایا۔حضرت زینب اس اعزاز کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتی تھی۔ چنانچہ دیگر ازواج مطہرات کے سامنے اپنے اس اعزاز کو وہ بیان فرماتی تھی کہ آپ لوگوں کے نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرش پہ ہوئے ہیں اور میرا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرش پہ ہوا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی کے براہ راست حکم کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی زوجیت میں قبول کیا ہے۔
تو یہ زمانہ جاہلیت کی ایک رسم تھی کہ زبانی معاہدے کی وجہ سے یا زبان کے دو الفاظ کی وجہ سے ایک آدمی دوسرے کو بیٹا بنا لیتا، ایک آدمی دوسرے کو بھائی بنا لیتا۔ صحابہ کرام کے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مواخات کروائی تھی تو وہ اسی روایت کا تسلسل تھا۔ چونکہ عربوں میں یہ سلسلہ چلتا تھا کہ ایک آدمی دوسرے کو بھائی بنا لیتا صحابہ کرام کو حالات بھی ایسے درپیش تھے کہ وہ مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے خاندان سے کٹ چکے تھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی آپس میں مواخات کروائی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں اور دوسری مرتبہ مدینہ منورہ میں۔ اس مواخات کی اپنی وجوہات تھیں اور اس مواخات کے فوائد اپنی جگہ لیکن ایک اعتبار سے یہ اسی روایت کا تسلسل تھا جو عربوں میں رائج تھا۔ چنانچہ ابتداء اسلام میں اسی مواخات کے بل بوتے پر صحابہ کرام کے درمیان وراثت بھی قائم ہوتی تھی۔ بعد میں پھر وراثت کی آیت نازل ہوئی کہ مواخات کی بنیاد پر وارث صرف حقیقی بھائی یا حقیقی بیٹا بن سکتا ہے۔اورکسی کو منہ بولا بیٹا بنانے کی بنیاد پر وراثت تقسیم نہیں ہو سکتی تو یہ زمانہ جاہلیت کی کچھ رسوم تھی۔
اللہ تبارک و تعالی نے ان کو ختم کیا۔ شریعت میں رشتہ داری یا ولا یا قرابت کی بنیاد پہ تین چیزیں ہیں۔ تین وجوہات کی بنیاد پر رشتے وجود میں آتے ہیں۔ پہلی وجہ نسب ہے ایک آدمی، ایک بچہ کسی کے گھر پیدا ہوا ہے تو جس کے گھر پیدا ہوا وہ اس کا والد کہلائے گا اور اس کی بیوی اس کی ماں کہلائے گی۔ ماں اور باپ کی بنیاد پر اس کے رشتے وجود میں آئیں گے۔ اس کے بھائی بہنیں ہوں گی باپ کے جو رشتہ دار ہیں اس کے بھائی ہیں وہ اس کے چچا کہلائیں گے۔ ماں کے رشتہ دار اور بھائی اس کے ماموں کہلائیں گے۔ تو یہ نسب کی بنیاد پر رشتہ داریاں ہیں جن کو شریعت تسلیم کرتی ہے۔ دوسرے نمبر پر رضاعت کی بنیاد پر جو رشتہ قائم ہوتا ہے، شریعت اس کو بھی تسلیم کرتی ہے۔
رضاعت کا مطلب یہ ہے کہ بچہ مدت رضاعت میں یعنی دو سال کی عمر تک اگر ماں کے علاوہ کسی دوسری خاتون کا دودھ پیتا ہے تو وہ خاتون اس کی رضائی ماں کہلاتی ہے۔ اور اس خاتون کا شوہر وہ اس کا رضا ءی باپ کہلاتا ہے۔ اور اس خاتون کا دودھ جو بھی لڑکا بچہ پیے گا وہ اس کا رضائی بھائی بنے گا۔ اور جو بچی پیے گی وہ اس کی رضائی بہن بنے گی۔ رضائی باپ کے جو بھائی ہیں وہ اس بچے کے چچا کہلائیں گے تو یہ رشتہ داریاں ہیں جو رضاعت کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر ہے کہ تمہاری مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے گویا کہ دودھ پلانے والی خواتین کو قرآن کریم نے ماں کا لقب دیا، ماں کا ٹائٹل دیا۔
حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب کہ نسب کی وجہ سے جو رشتے حرام ٹھہرتے ہیں وہی رشتے رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ٹھہرتے ہیں۔ یعنی رسم کی وجہ سے آدمی کا خاتون کا جو محرم بنتا ہے وہی محرم رضاعت کی بنیاد پر بھی وجود میں آتا ہے۔ جس طریقے سے ایک خاتون اپنے حقیقی نسبی چچا سے پردہ نہیں کرتی اسی طریقے سے ایک خاتون اپنے رضائی چچا سے بھی پردہ نہیں کریں۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے رضائی چچا افلح تھے وہ ان سے ملنے آئے اور اس وقت حجاب کے احکام آ چکے تھے۔ پہلے رواج یہ تھا کہ چونکہ محرم اور نامحرم کی کوئی قیود شریعت نے نہیں بتلائی تھی تو آمدورفت رہتی تھی۔ جب یہ قیود آگئی اب پابندی لگ گئی کہ گھر وہی آ سکتا ہے جو خاتون کا محرم ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر یہ آئے دروازہ کھٹکٹایا۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کون انہوں نے اپنا تعارف کروایا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نہیں آپ کے بارے میں فی الحال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گی پھر اندر آنے دو گی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے سامنے معاملہ رکھا کہ یا رسول اللہ اس طریقے سے دروازے پر وہ صاحب آئے تھے، لیکن میں نے دروازہ نہیں کھولا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ دروازہ کھول لیتی ان کو آنے دیتی۔ کیونکہ وہ آپ کے رضائی چچا ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ دودھ تو میں نے خاتون کا پیا ہے۔ یعنی دودھ تو میں نے اس خاتون کا پیا تھا اور یہ تو اس کے شوہر کے بھائی ہے تو اس کے ساتھ میرا کیا رشتہ ہے ؟تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان سے فرمایا کہ رشتے میں یہ تمہارا چچا ہیں۔ رضاعت کے رشتے کی رو سے یہ آپ کے چچا ہیں۔ لہذا آپ کا محرم ہے اور اس کو آنے دینا چاہیے تھا۔
تو یہ دوسری بنیاد ہے جس کو شریعت تسلیم کرتی ہے کہ حسب اور نسب کے بعد رضاعت۔ جس طرح نسب کی بنیاد پر رشتے وجود میں آتے ہیں اسی طریقے سے رضاعت کی بنیاد پر پھر رشتے وجود میں آتے ہیں اور تیسری بنیاد جس کو شریعت رشتے بنانے کے لیے تسلیم کرتی ہے وہ سہر ہے سسرالی رشتہ ایک عورت سے ایک مرد نکاح کرتا ہے تو اس کا اس عورت کے ساتھ ایک سسرالی رشتہ قائم ہوتا ہے۔ اس عورت کی ماں اس کے لیے ساس بن کر محرم کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس عورت کی اگر پہلی شادی سے کوئی بیٹی ہو تو وہ اس آدمی کی بھی بیٹی کہلاتی ہے اور وہ اس کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتا اگر اس کی ماں کے ساتھ اس کی خلوت ہو چکی ہو۔
تو یہ تیسری بڑی بنیاد ہے جسے شریعت تسلیم کرتی ہے تو یہ تین بنیادیں ہیں نسب رضاعت اور سہر یعنی سسرالی رشتہ۔ ان بنیادوں کی وجہ سے جو رشتے وجود میں آئیں گے شریعت انہیں تسلیم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ جو زبانی کلامی ہم کسی کو بھائی بنائیں، کسی کو والد بنائیں تو ٹھیک ہے معاشرت کے لیے اس کو چلا سکتے ہیں۔ لیکن شرعی اعتبار سے قانونی اعتبار سے اس رشتے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور نہ وراثت تقسیم ہو سکتی ہے اور نہ آپ اپنے منہ بولے بیٹے کے نکاح فارم میں یا اس کے شناختی کارڈ کے ولدیت کے خانے میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی عام ہے لوگ بیٹا گود لے لیتے ہیں گود لے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اپنا گھر آباد کرنے کے لیے یا کسی بھی وجہ سے لیکن اس کی ولدیت کے خانے میں اس کے حقیقی والد کا نام لکھا جانا ضروری ہے۔ منہ بولا والد ہے وہ اپنا نام نہیں لکھواسکتا اور یہ ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے۔ بعض اوقات اس کی وجہ سے بڑی پیچیدگیاں قائم ہوتی ہیں۔ قرآن کریم میں واضح حکم ہے اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ کہ یہ جو تم نے بیٹا گود لیا ہے اگر اس کو بلانا ہو اس کی ولدیت کے خانے میں نام درج کروانا ہو تو ان کی نسبت ان کے حقیقی والد کی طرف کرو۔ اس کا جو حقیقی باپ ہے اس کا نام اس کے ولدیت کے خانے میں آنا چاہیے۔ تو یہ تین بنیادیں ہیں جن کی وجہ سے رشتہ داری قائم ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ عربوں میں جو زبانی کلامی رشتے وجود میں آتے تھے۔ شریعت نے اس کو ختم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پہ اعلان فرمایا: کہ جو شخص اپنی نسبت اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف کرے تو اس کے اوپر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اتنی سخت وعید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی کہ اگر کسی بچے کی نسبت اس کے حقیقی والد کے سوا کسی اور کی طرف کی جائے۔یہ ایک حتمی اعلان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے اس خطبے کے موقع پر ارشاد فرمایا۔
میں نے عرض کیا کہ جاہلیت کی رسموں میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ زبانی بنیادوں پر رشتے قائم ہوتے تھے۔ حجۃ الوداع کے موقع پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان رشتوں کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور ان تین بنیادوں پر جو رشتے وجود میں آئے انہیں برقرار رکھا کہ نسب کی بنیاد پہ سہر یعنی سسرال کی بنیاد پہ یا رضاعت کی بنیاد پہ۔ البتہ ایک قسم کے رشتے کو آپ نے باقی رکھا کہ ان تینوں کے علاوہ رضاعت، نسب اور سسرالی ان تین بنیادوں کے علاوہ ایک اور ٹھوس بنیاد ایسی تھی کہ جس بنیاد پر رشتے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا۔ اور وہ بنیاد ہے اسلام کی بنیاد کہ اسلام کی بنیادپر کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان جو اخوت وجود میں آتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اس کو برقرار رکھا بلکہ اس کو پروان چڑھایا اس سے پہلے یہ آیت نازل ہو چکی تھی اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ کہ تمام مومن آپس میں بھائی ہیں اور یہ بھائی زبانی بنیاد پہ نہیں ہیں۔ کلامی یامعاہدے کی بنیاد پہ نہیں ہیں بلکہ یہ بھائی چارہ دین اسلام کی بنیاد پر ہے۔ جب دو لوگ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ کر اللہ اور اس کے پیغمبر کی غلامی میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے درمیان بھائی چارے کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوتا ہے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔ اللہ تعالی نے اس کو قائم کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پروان چڑھایا اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اسے دھوکہ نہیں دیتا اس کے ساتھ خیانت نہیں کرتا اور اس کی غیبت نہیں کرتا۔یاد رکھیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مسلمان اور مومن ان کے مختلف تعریفیں فرمائی ہیں کہ مومن کون ہے اور مسلمان کون ہے۔
حدیث جبریل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ما الایمان ایمان کیا ہے مومن کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان تومن بالله وملائکته وکتبه ورسله واليوم الاخر والقدر خيره وشره من الله تعالي والبعث بعد الموت کہ ایمان یہ ہے یا مومن اس کو کہا جائے گا جو ایمان لائے اللہ تعالی پر، فرشتوں پر، رسولوں پر کتابوں پر، اچھی اور بری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر۔ جو آدمی ان چیزوں پر ایمان لائے تو وہ مومن کہلاتا ہے۔ پھر پوچھا گیا ما الاسلام؟ کہ یا رسول اللہ اسلام کیا ہے یا مسلمان کس کو کہیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رَسُول اللَّهِ، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا” کہ اسلام یہ ہے یا مسلمان اس کو کہیں گے جویہ گواہی دے اپنی زبان سے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں یہ پہلا کام ہے۔ مسلمان ہونے کے لیے دوسرا کام توو نماز قائم کرے، تیسرا کام زکوۃ ادا کرے، چوتھا کام رمضان کے روزے رکھے، پانچواں کام اگر اللہ نے اس کو استطاعت دی ہو تو وہ جا کر حج کرے۔ جو یہ پانچ کام کرے وہ مسلمان ہے تو حدیث جبرائیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان اور مومن کی یہ تعریف کی کہ جو ان ان چیزوں پہ ایمان رکھے، یقین رکھے، وہ مومن ہے۔ اور جو یہ یہ افعال سرانجام دے وہ مسلمان ہیں۔
ایک اور روایت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مومن اور اسی مسلم کی تعریف ایک اور انداز سے کی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا الا اخبرکم بالایمان کیا میں تمہیں ایمان کے بارے میں نہ بتلاؤں اور پھر ارشاد فرمایا کہ ایمان یہ ہے یا مومن وہ ہے کہ دوسرے لوگ اپنے جان اور اپنے اموال پر اس کے دست برد سے محفوظ رہیں۔ یعنی مومن کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ دوسرے کی جان اور مال کو نقصان نہ پہنچائے۔
اور مسلمان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ مسلمان یہ ہے کہ لوگ اس کی زبان اور ہاتھ کی تکالیف سے محفوظ رہیں۔ جیسے ایک روایت میں آپ نے واضح طور پہ ارشاد فرمایا الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ کہ مسلمان وہ ہےجس سے دیگر مسلمان اس کے زبان اور ہاتھ کی تکالیف سے محفوظ رہیں۔ اب آپ غور کیجیے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو روایات میں مومن کی بھی دو تعریفیں کی ہیں اور مسلمان کی بھی دو تعریفیں کی ہیں مومن کی پہلی تعریف آپ نے یہ کی کہ وہ اللہ پہ، پیغمبروں پہ، کتابوں پہ، تقدیر پہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھے اور دوسری تعریف آپ نے دوسری روایت میں یہ کی کہ مومن وہ ہے کہ دوسرے لوگوں کی جان اور مال اس سے محفوظ رکھے۔ یہ دو تعریفیں اسی طریقے سے مسلمان کی بھی آپ نے دو تعریفیں کی۔ پہلی روایت میں یہ تعریف بیان ہوئی کہ مسلمان وہ ہے جو کلمہ شہادت پڑھتا ہے، نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، زکوۃ دیتا ہے، حج کرتا ہے اور دوسری روایت میں آپ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے ہاتھ اور زبان کی تکالیف سے دوسروں کو محفوظ رکھتا ہو۔ تو یہ دو قسم کی تعریفیں آپ نےکی۔ اگر آپ غور فرمائیں تو پہلی تعریف مومن اور مسلمان کی ظاہری تعریف ہے کہ ظاہری طور پر مومن وہ ہے جو ان چیزوں پہ ایمان رکھے۔ ظاہری طور پر مسلمان وہ ہے جو یہ افعال سرانجام دے۔ لیکن مومن کے اندر ایمان کی روح اس وقت آئے گی اور مسلمان کے اندر اسلام کی روح اس وقت آئے گی، جب دوسرے لوگوں کو وہ اپنے ہاتھ اور زبان کی تکلیفوں سے محفوظ کرے۔ دوسرے لوگوں کے مال اور جانیں اور ان کی عزت اور آبرو اس کی طرف سے محفوظ رہے۔ تو یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن اور مسلم کی مختلف تعریفیں فرمائیں۔
گویا واضح ہوا کہ جب ایک آدمی دوسرے کے ساتھ اسلام کے رشتے میں بنتا ہے اور ان کے درمیان ایک اخوت کا رشتہ وجود میں آتا ہے اور یہ وہ رشتہ ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا اور اس کے علاوہ دیگر رشتوں کو جو زبان کی بنیاد پہ وجود میں آتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پہ ختم فرمایا۔ تو یہ جو رشتہ اخوت ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پروان چڑھایا اس رشتے کے کچھ تقاضے ہیں پہلا تقاضا کیا ہے کہ آپ دوسرے مسلمان اس کی عزت کو محفوظ رکھیں۔ اپنے زبان سے اس کو تکلیف نہ دیں۔ اس کو کسی قسم کی اذیت نہ دیں۔
ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ بیت اللہ کے پاس موجود تھے، طواف کر رہے ہوں گے۔آپ نے بیت اللہ کو دیکھ کے ارشاد فرمایا کہ اے کعبہ کیا تمہاری خوشبو ہے، کیا تمہاری عزت اور حرمت ہے، لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ایک مسلمان کی عزت اور ابرو تیری عزت اور آبرو سے بھی زیادہ ہے۔ تو ایک مسلمان کی آبرو کو اور اس کی حرمت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ پر بھی فوقیت دی ہے۔
رشتہ اخوت کا یا اسلامی رشتہ اخوت کا جو اولین تقاضا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے مسلمان کو محفوظ رکھا جائے۔ ہر قسم کی تکلیف سے نہ زبان سے اس کو برا بھلا کہا جائے اور نہ اپنے جسمانی اعضاء سے اپنی حرکات اور سکنات سے اپنے افعال اور اعمال سے اس کے لیے کسی قسم کی دشواری پیدا کی جائے۔ اور دوسرا تقاضا اس رشتے کا یہ ہے کہ دوسرے مسلمان کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ جو کوئی مسلمان کسی مسلمان گھرانے سے تکلیف دور کر دیتا ہے اور اس مسلمان گھرانے کو خوشی پہنچاتا ہے۔ ان کے گھر میں خوشی داخل کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی اس خوشی داخل کرنے والے مسلمان کے لیے جنت سے کم کسی اجر پہ راضی نہیں ہوتا۔ اسے جنت میں داخل کر کے رہتا ہے ایک اور روایت کا مفہوم ہے کہ جوآدمی کسی مسلمان کو خوشی پہنچاتا ہے اور اس کی نیت یہ ہو کہ یہ مسلمان خوش ہو جائے تو درحقیقت وہ مجھے یعنی رسول اللہ کو خوش کرتا ہے۔ اور جو مجھے خوش کر دے تو وہ اللہ تعالی کو خوش کر دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی اسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ایک مسلمان جب تک دوسرے مسلمان کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی اس کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے۔ آپ نے اگر اللہ سے اپنے کام کروانے ہیں تو دوسرے مسلمانوں کے کام کریں۔ آپ اگر چاہتے ہیں کہ اللہ آپ کی مصیبت کو دور کرے تو آپ دوسرے مسلمانوں کے مصائب کو دور کریں۔ ان کے کام آئیں تو اللہ تبارک و تعالی آپ کی مصیبتوں کو دور کر دے گا۔ ایک اور روایت کا مفہوم ہے کہ جب کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی حاجت روائی کے لیے چلتا ہے تو اس کے ہر ہر قدم پر اس کو 70 نیکیاں ملتی ہیں۔ اور یہ 70 کا عدد احادیث میں کثرت کے لیے ارشاد فرمایا جاتا ہے۔ گویا کہ اس کو اللہ کے دربار سے ہر ہر قدم پر بے شمار نیکیاں ملتی ہیں۔
اگر وہ مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیےجاتا ہے۔ تو یہ دوسرا بڑا تقاضہ ہے اس رشتے کا ہے کہ جب ایک مسلمان آپ کا اسلامی بھائی ہے اور آپ کے درمیان ایک رشتہ وجود میں آیا ہے، تو آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کی مدد کریں۔ اس کے کام آئیں۔
تیسرا اور سب سے بڑا تقاضا کہ مظلومیت کے وقت ایک مسلمان کی مدد کی جائے۔ مدد عام حالات میں بھی ہوتی ہے لیکن اگر ایک مسلمان کسی ظلم و ستم کا شکار ہو بیچاررا مظلوم ہو، مقبول ہو، مجبور ہو اور آپ اس کی مدد کر سکتے ہوں تو ایک مسلمان کا سب سے اولین فرض یہ ہے کہ اپنے اس مظلوم مسلمان بھائی کی مدد کریں۔ آپ کو بڑے بڑے واقعات ملیں گے تاریخ میں جہاں ایک پوری اسلامی ریاست کسی ایک مظلوم مسلمان کی بنیاد پر دوسری ریاست سے ٹکرائی ہے۔ اب ان کے سامنے کیا تھے؟ یہی احکامات تھے۔جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہی احکامات تھے۔ جب ایک مسلمان حالت ظلم میں ہے حالت جبر میں ہے حالت قہر میں ہے تو دیگر مسلمانوں کا اگر کوئی اولین فرض ہے تو وہ یہ ہے کہ اس مسلمان اس مظلوم مسلمان کی مدد کرے۔
غزوہ بنو قینقاع کے بارے میں آپ نے پڑھا ہوگا سیرت کے بیان میں ہم نے اس کا ذکر بھی یہاں تفصیل سے کیا ہے۔ اس غزوے کے جہاں دیگر اسباب تھے، وہاں ایک بنیادی سبب یہ بھی تھا کہ بنو قینقاع کا یہ قبیلہ یہود کا بڑا سرمایہ دار قبیلہ تھا۔ جو مدینے میں رہتا تھا، سنار تھے، یہ سونے کے کام کرتے تھے۔ ان کا ایک بازار تھا ایک عرب خاتون ان کے بازار میں گئی نکاح پوش تھی۔ اب یہ قبیلہ مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی پر آمادہ تھے۔ تو انہوں نے اس عرب نقاب پوش خاتون کا نقاب اتروانا چاہا۔ اس نے انکار کیا اور بازار میں ایک یہودی کی دکان میں بیٹھی۔اسےکوئی چیز بیچنی تھی،تو وہ بیچ کر وہاں کچھ دیر کے لیے بیٹھی۔ اس یہودی دکاندار نے شرارت کی کہ اس عرب خاتون کے کپڑے کا پچھلا کنارہ اس نے کسی چیز سے باندھ دیا۔ جب یہ خاتون کھڑی ہوئی تو اس کا وہ جو پردہ تھا وہ ختم ہوا بے پردہ ہوئی۔ اس سے بڑھ کے ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ ایک باپردہ اور باحیا خاتون کو برسر بازار رسوا کیا جائے۔ وہاں اس بازار میں ایک مسلمان موجود تھا۔ اس نے تلوار نکالی اور اس یہودی کا سر اتارا جس نے اس عرب خاتون کی اس طرح برسر بازار تذلیل کی تھی۔ اب یہ بازار یہودیوں کا تھا تو وہ جمع ہوئے اور انہوں نے جواب میں اس مسلمان کو شہید کیا۔ اب یہ خبر جب مدینہ مسلمانوں کے پاس پہنچی۔ اب اور بھی وجوہات جمع ہو چکی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے کے خلاف باقاعدہ فوجی کاروائی کے احکامات جاری کیے۔ اور بنفس نفیس اس قبیلے پر چڑھائی کی۔ یہ قبیلہ جب مسلمانوں کے ہاتھ میں آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حکم کے تحت ان سب قبیلے کے مردوں کو باندھا پھر بعد میں عبداللہ بن ابی اڑے آیا اور اس نے سفارش کر کر کے ان کی جان بخشی کروائی۔ تو یہ پہلا واقعہ آپ کو ملے گا جس میں مسلمانوں نے ایک مظلوم مسلمان خاتون کی عزت اور آبرو کی حفاظت کے لیے تلوار اٹھائی۔
تاریخ کی بعض کتابوں میں حضرت معاویہ کے دور میں ایک عجیب واقعہ ملتا ہے، کہ کچھ مسلمان رومی بادشاہ کے ہاتھوں قید ہوئے۔ اب ان میں سے ایک مسلمان کو قسطنطنیہ میں جو عیسائی بادشاہ تھا اس کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے وہاں اسلام کی بات کی، مسلمانوں کی بات کی، تو بادشاہ کے جو درباری تھے ان میں سے ایک درباری نے اٹھ کر اس مسلمان کو تھپڑ مارا۔ ابھی اس کے ساتھ ظلم ہوا تعدی ہوئی، تو اس مسلمان نے ایک فریاد کی۔ اس نے کہا کہ اے امیر معاویہ( اس وقت مسلمانوں کے خلیفہ تھے) تمہارے دور حکومت میں میرے منہ پر ایک غیر مسلم تھپڑ مارتا ہے۔ اللہ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے۔ کہ تو میرا بادشاہ تھا، تو میرا خلیفہ تھا اور تمہارے دور خلافت میں میرے ساتھ ہی واقعہ ہوا۔ اور ایک اور مورخ کے الفاظ ہیں، اس نے یہ کہا کہ وا اسلام اس نے فریاد کی اسلام کی بنیاد پہ کہ یا اللہ معاویہ نے ہمیں ضائع کر دیا۔ آج اس کے دور حکومت میں میرے ساتھ ایک غیر مسلم اپنے دربار میں یہ سلوک کرتا ہے۔
مورخین کہتے ہیں کہ اس کے یہ جملے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچے۔ جب انہوں نے اس کی یہ فریاد سنی تو حضرت معاویہ کو اتنی تکلیف ہوئی کہ انہوں نے اپنے پسندیدہ کھانے چھوڑ دیے، باہر نکلنا کم کر دیا، خلوت میں چلے گئے، غم کی وجہ سے اکیلے رہنے لگے۔ ایک سکیم ترتیب دینے لگے۔ حضرت امیر معاویہ تدبر اور فہم کے بادشاہ تھے۔ دونوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ کس طریقے سے ایک مسلمان کو رہا بھی کروانا ہے اور اس کا بدلہ بھی لینا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس غیر مسلم ریاست کے ساتھ بتدریج قیدیوں کا تبادلہ شروع کیا اور قیدیوں کا فدیہ بھیجا اس میں اس قیدی کو بھی آزاد کروایا۔ مقصد تو اس کو آزاد کروانا تھا لیکن دیگر کو بھی آزاد کروایا تاکہ کسی کو شک نہ گزرے۔ تو اس کو آزاد کروا کے اپنے پاس بلایا اور پھر اس سے یہ ارشاد فرمایا کہ دیکھو میں نہ تمہیں بھولا ہوں اور نہ تمہیں ضائع کیا ہے۔ وہ جو اس نے فریاد کی تھی کہ معاویہ نے ہمیں ضائع کر دیا۔ حضرت امیر معاویہ نے اسے فرمایا کہ میں نے تمہیں ضائع نہیں کیا اور نہ تمہیں بھولا ہوں۔ آج اگر اس تخت پر موجود ہوں تو تمہاری خدمت کے لیے موجود ہوں۔ اور مزید انہوں نے ایک سکیم چلائی کہ اپنے لشکر کے جوایک قابل کمانڈر تھے اس کو بلایا اور اس کو کہا کہ تاجر کے بھیس میں سمندری راستے سے جاؤ۔ ایک تیز قسم کی کشتی اس کو فراہم کی اور بڑا مال و اسباب اس کو فراہم کیا۔ قصہ مختصر اسے سمجھایا کہ اس طریقے سے جاؤ اور تحفے تحائف دے دے کر اس رومی بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کرو۔ اس کے درباریوں میں اس کے وزراء تحفے تقسیم کرو لیکن جس درباری نے تھپڑ مارا تھا اس کو تحفہ نہیں دینا، باقیوں کو دو۔ اب جب اس کو نہیں دو گے تو وہ خود تمہارے پاس آئے گا کہ آپ سب کو دے رہے ہو مجھے کیوں نہیں دیا۔ تو تم اس کو کہو کہ مجھ سے غلطی ہوئی اور میں اس کا تدارک کروں گا۔ یہ تحفہ تمہارے لیے اور تمہیں مزید کچھ چاہیے تو وہ بھی مجھے بتلاؤ تو اس طریقے سے اس کے ساتھ ربط قائم کرو۔ ایسے ہی ہوا وہ شخص وہاں تاجر کے بھیس میں جاتا ہے اور دربار میں اثر رسوخ قائم کرتا ہے۔ سب کو تحفے تحائف دیتا ہے لیکن جس درباری نے اس مسلمان کو تھپڑ مارا تھا اس کو نہیں دیا۔ اب وہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ میرا کیا قصور سب کو بڑے بھاری قسم کے تحفے دے رہے ہو۔ مجھے کیوں نہیں دیے۔ اس نے معذرت کی اور کہا کہ میرے ذہن میں نہیں رہا یہ تمہارا تحفہ رہا اور تلافی کے لیے میں یہ کروں گا کہ تمہیں جو کچھ چاہیے مجھے بتاؤ میں پورا کروں۔ اس نے کہا مجھے ایک ایسا فرش چاہیے، قالین چاہیے جس کی لمبائی اتنی ہو، چوڑائی اتنی ہو اور اس پر یہ یہ تصویریں ہوں۔ یہ میری ایک خواہش ہے اس نے کہا میں پوری کروں گا۔ خفیہ طور پر یہ شام واپس آیا۔ حضرت معاویہ کو جا کر بتایا کہ اس نے یہ خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت معاویہ نے اپنی نگرانی میں کاریگروں کو حکم دیا کہ یہ قالین اس طرح کا تیار کیا جائے اور اس کو کہا کہ تم یہ قالین لے کر جاؤ اور وہ بندرگاہ پر تمہارا منتظر ہوگا۔ لوگوں کی نفسیات جانتے تھے کہ اس کی لالچ اتنی ہے وہ بندرگاہ پہ منتظر ہوگا۔ تم کسی طریقے سے قالین دکھا کے اس کو اندر لاؤ اور جب کشتی کے اندر ا ٓجائے تو اس کو قید کر کے کشتی بھگا دو۔ مسلمانوں کی سمندری حدود میں ڈال دو تو اس نے یہی طریقہ اپنایا اور کسی طریقے سے اس غیر مسلم بادشاہ کے درباری کو قید کر کے حضرت امیر معاویہ کی خدمت میں لا کے کھڑا کیا۔ اب جب وہ آیا امیر معاویہ کے سامنے کھڑا ہوا تو حضرت معاویہ نے اس مظلوم مسلمان کو بلایا اور فرمایا کہ اس نے تمہیں تھپڑ مارا تھا تم اس کو تھپڑ مارو۔ لیکن اس کے ساتھ ظلم نہیں کرنا جس طرح تھپڑ اس نے مارا تھا ویسے ہی مارو۔ نہ کمی کرو نہ اضافہ کرو کہ یہی اسلام کی تعلیمات ہے۔ جب اس شخص نے اس کافر کو تھپڑ مارا اور مطمئن ہو گیا تو امیر معاویہ نے اس کو بھیجا اور پھر اس درباری کو آزاد کیا اور فرمایا کہ اب جاؤ تم میری طرف سے رہا ہو اور اپنے بادشاہ کو جا کر کہو کہ مسلمانوں کے خلیفہ کو اللہ نے وہ طاقت دی ہے کہ وہ تمہارے دربار سے لوگوں کو قید کر کے اٹھوا سکتا ہے۔ لہذا آئندہ مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ بازی کا خیال بھی نہ کرنا۔
یہ مسلمانوں کے بادشاہ تھے اور یہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے کہ ایک مسلمان پر ظلم ہونے کی وجہ سے پوری ریاست حرکت میں آتی تھی۔ اور بوقت ضرورت وہ ریاست دوسری ریاست کے ساتھ ٹکرانے سے بھی دریغ نہیں کرتی تھی۔
محمد بن قاسم کے واقعے سے آپ واقف ہیں۔ وہ یہاں کیوں آیا تھا ایک عرب تاجر فوت ہو چکا تھا، اس کے یتیم بچے تھے، اس کی بیوہ تھی، اور کچھ عازمین حج تھے جن کو راجہ داہر نے قید میں رکھا تھا۔ اپنے کچھ قضاقوں کی بنیاد پہ اور جب حجاج نے مطالبہ کیا کہ ان کو روانہ کرو اس نے انکار کیا۔ اور یہ دور مسلمانوں کے لیے بڑا نازک تھا مسلمانوں کے دو بڑے سپہ سالار موسی اور قتیبہ یہ سپین اور ترکستان کے محاذوں پر موجود تھے۔ مسلمانوں کا لشکر وہاں پہ مصروف تھا۔ایک تیسرا محاذ کھولنا یہ مسلمان ریاست کے لیے ممکن نہیں تھا لیکن حجاج نے اس موقع پر مصلحت کو چھوڑا قومی غیرت کو دیکھا اور ایک 17 سالہ نوجوان محمد بن قاسم کو غالبا 12 ہزار یا 15 ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا۔ اور ان مسلمان مردوں اور مجبور عورتوں کو رہا کروایا۔
یہ مسلمانوں کی تاریخ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رشتہ اخوت مسلمانوں کے درمیان قائم رکھا اور اس کو پروان چڑھایا۔ مسلمانوں نے انفرادی طور پر اور مسلم حکومتوں نے اجتماعی طور پر اس رشتے کا نہ صرف لحاظ رکھا بلکہ اس کی بنیاد پہ مسلم اخوت کی بنیاد پر غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات توڑے بھی ہیں اور برقرار بھی رکھے ہیں۔ آج میں اور آپ ایک ایسے وقت میں ہیں جب مسلمان مختلف سرحدات میں تقسیم ہیں۔ یاد رکھیے مسلمان سرحدات میں بے شک تقسیم ہو جائے لیکن دینی اعتبار سے تمام مسلمان ایک ہیں۔
مسلمان تو سرحدات میں اس وقت بھی تقسیم تھا جب حضرت علی مسلمانوں کی ایک حصے کے خلیفہ تھے اور حضرت معاویہ دوسرے حصے کے خلیفہ تھے سرحدات اس وقت بھی تقسیم تھی ان کی الگ سر حدات ان کی الگ سر حدات لیکن دونوں سرحدات کے اندر رہنے والے مسلمان یہ بخوبی جانتے تھے کہ یہ جو سرحدات کی تقسیم ہے اس کی حیثیت محض انتظامی ہے۔ ورنہ ہم سب مسلمان تو آج بھی وہی صورتحال ہے اگر مسلمان انتظامی وجوہات کے بنیاد پر مختلف سرحدات میں تقسیم ہے۔ کوئی مسلمان افریقہ میں ہے، کوئی فلسطین میں ہے، کوئی سعودی عرب میں ہے، کوئی پاکستان میں ہے تو سرحدات کی تقسیم اسلامی رشتہ اخوت کو ختم نہیں کر سکتی اور اگر دنیا کے ایک حصے میں کوئی مسلمان مجبور ہے تو دوسرے حصے کے مسلمان کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اس کے کام آئے۔ اپنے حصے کے مطابق آج آپ لڑ نہیں سکتے کہ لڑنا حکومتوں کا کام ہے لیکن ان کے لیے دعا تو کر سکتے ہیں مالی امداد ان کو پہنچا سکتے ہیں جو ہمارے کشمیر کے مظلوم بھائی ہیں ان تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اگر ہم یہ بھی نہ کریں تو اللہ تبارک و تعالی کے دربار میں پھر ان مظلوموں کے ہاتھ ہوں گے اور میرے اور آپ کے گریبان ہوں گے۔ اللہ تبارک و تعالی مجھے اور آپ کو ہدایت نصیب فرمائے۔