رزق حلال کمانے والا اللہ کے راستے میں ہے
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: مَرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَرَأَى أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَلَدِهِ ونَشَاطِهِ مَا أَعْجَبَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ كَانَ هَذَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ كَانَ خَرَجَ يَسْعَى عَلَى وَلَدِهِ صِغَارًا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَإِنْ خَرَجَ يَسْعَى عَلَى أَبَوَيْنِ شَيْخَيْنِ كَبِيرَيْنِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَإِنْ كَانَ يَسْعَى عَلَى نَفْسِهِ يَعِفُّها فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَإِنْ كَانَ خَرَجَ رِيَاءً وتَفَاخُرًا فَهُوَ فِي سَبِيلِ الشَّيْطَانِ
(معجم الاوسط للطبرانی،رقم الحدیث:6835)
:مفہوم حدیث
کعب بن عجرہ ؓ کہتے ہیں: ایک آدمی نبی کریمﷺ کے پاس سے گزرا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اس کی طاقت اور چستی دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر یہ اللہ کی راہ میں ہوتا تو کیا ہی اچھا ہو، تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ اپنے چھوٹے بچوں کے(رزق حلال) لئے نکلا ہوا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر بوڑھے والدین کے لیے نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اگر اپنے آپ کو سوال و محتاجی سے بچانے کے لیے کوشاں ہے تو بھی اللہ کے راستے میں ہے،اور اگر دکھلاوے اور اترانے کے لئے نکلا ہے تو شیطان کے راستے میں ہے۔
:تشریح
اس روایت میں نبی کریمﷺ نے مال کمانے کے درست طریقہ کار کی طرف نشاندہی فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ذمے کچھ حقوق رکھے ہیں ،انسان کے ذمے اس کے اپنے حقوق بھی ہیں ، اللہ تعالی نے کچھ فطری ضروریات رکھی ہیں۔ انسان کو بھوک لگتی ہے، دیگر ضروریات ہوتی ہیں۔ یہ تمام ضروریات مال سے پوری ہوتی ہیں۔ اسی طریقے سے اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق رکھے ہیں کہ آپ کی نوجوانی میں اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں،ظاہر ہے وہ کمانے کے قابل نہیں ہیں۔ان کی ضروریات بھی پھر آپ کی ذمہ ہوتی ہیں ۔چونکہ یہ حقوق اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذمہ لگائے ہیںاس لئے ان حقوق کو پورا کرنا بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔
جب ان حقوق کو پورا کرنا عبادت ہے تو جس ذریعے سے یہ حقوق پورے ہوتے ہیں یعنی رزق حلال کمانے سے،تو وہ ذریعہ بھی عبادت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ اگر ان مقاصد کے لیے کوئی شخص رزق حلال کماتا ہے، جدوجہد کرتا ہے، تو وہ عبادت میں مصروف ہوتا ہے۔ جیسے اس روایت میں ہے کہ جو آدمی اپنے والدین کی کفالت کے لئے رزق حلال کماتا ہے ،جدوجہد کرتا ہے ،اس کا درجہ اتنا بڑا ہے، گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہے۔ ہر ہر لمحے پر اس کو اجر و ثواب ملتا ہے۔ جو آدمی اپنے لئے جدوجہد کرے، تاکہ میں سوال کی ذلت سے بچ جاؤں وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے ۔کسی سے مانگنا شریعت میں بڑامذموم تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ جو آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہےقیامت والے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر ایک بوٹی بھی نہیں ہوگی۔(صحیح بخاری:1474)گویا کہ وہ اتنی مسخ شدہ کیفیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے دربار میں اٹھایا جائے گا۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جو آدمی اپنا مال بڑھانے کے لئے لوگوں سے مانگتا ہے۔ تو وہ گویا انگارے اکٹھےکر رہا ہے ۔تو سوال کی ذلت سے بچنا اورکمانا بھی عبادت ہے ۔ یہ شخص بھی اللہ کے راستے میں ہے۔
مال کمانے کا ممنوع طریقہ یہ ہے کہ کوئی شخص اس لئے مال جمع کرے کہ دیگر لوگ اس کو مالدار کہیں اور وہ لوگوں پر اپنے مال کا دبدبہ قائم کرسکے،اس غرض سے مال کمانے والے کو شیطان کے راستے میں کوشاں قرار دیا گیا ہے۔