سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْن وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمَّد وَ عَلَى اَلِهِ وَاَصْحَابِهِ اَجْمَعِيْنَ وَعَلى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاِحْسَانِ اِلَى يَوْمِ الدِّيْنِ اَمَّا بَعْدْ عن  ام سلمۃ رضی اللہ عنھا قالت سمعت رسول اللہ ﷺ یقول لا یبغض علیا مومن ولا یحبہ منافق (رواہ ابن ابی شیبہ فی المصنف)

اللہ تعالیٰ کی محبت اور نبی کریم ﷺ کی اطاعت

بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو!

          اللہ جل جلالہ نے ہم سب کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے، اور یوں کہیے کہ اللہ تعالی نے اپنے تک رسائی کا صرف ایک ہی راستہ رکھا ہے، اور وہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل۔ قرآن کریم نے اس کا واضح ارشاد ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ  آپ ان کو کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ جل جلالہ سے محبت کرتے ہو، اللہ کی محبت کے دعویدار ہو تو میری اتباع کرو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔گویا کہ اللہ جل جلالہ کی محبت کو حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا راستہ ہے۔جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر جتنا عمل کرے اسی قدر وہ اللہ تبارک و تعالی کے قریب ہے۔

سنت کا علم حاصل کرنے کے ذرائع

          اب یہ سنت ہمیں کہاں سے پتہ چلے گی؟سنت کا علم ہمیں کہاں سے ہوگا؟سنت کا علم حاصل کرنے کے دو ذرائع ہیں۔ دو ایسے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑے ہیں کہ جن کی بنیاد پر امت کے لیے سنت کا ورثہ چھوڑا گیا یا امت کے لیے سنت حاصل کرنے کا ذریعہ رکھا گیا۔

کتابیں:ایک ذریعہ کتابیں ہیں کہ آپ کتابوں کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس کام کرنے کی ترغیب دی یا کون سا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا۔ یہ آپ کو سنت کی کتابوں میں حدیث کی کتابوں میں ملے گا۔

رجال(شخصیات): دوسرا بڑا ذریعہ رجال ہیں، بندے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے صحابہ کرام کی تربیت کی۔ صحابہ کرام گویا چلتی پھرتی سنت کی تصویر تھے اور صحابہ کرام کے بعد تابعین، تبع تابعین ہیں۔ہر زمانے میں امت میں ایسے صلحا رہے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہیں اور ان کی زندگی کو دیکھ کر انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا علم حاصل کر سکتا ہے کہ وہ اس طرح عمل کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل اس طرح کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی جماعت کو تیار کیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصی تربیت

          صحابہ کرام کی جماعت میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ امتیاز ہے وہ بچپن سے لے کر ایک طویل زمانے تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت علی نے بچپن گزارا۔

          آپ کو معلوم ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے والد، جناب ابو طالب یہ عیالدار بھی تھے اور مالی اعتبار سے تنگ رہا کرتے تھے۔ کیونکہ یہ مکہ کے رئیس تھے اور لوگوں کی حاجات پوری کرنا رئیس اور سردار اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔لوگوں کی حاجات پوری کرتے کرتے بعض اوقات مقروض ہو جایا کرتے تھے۔ذرائع آمدن کچھ اتنے زیادہ نہیں تھے تو جناب ابو طالب کی تنگدستی کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بچپن سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تربیت میں لیا، تاکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اخراجات ان کے والد ماجد پر نہ ہوں، اور کسی حد تک ان کو ان کے لیے مالی تنگدستی کو کم کیا جائے۔ اس مقصد کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی کفالت میں لیا۔ اب یہ حضرت علی کے بچپن کا زمانہ ہے جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں آئے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اولین اسلام قبول کرنا

          آپ 10 سال کے تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا اور آپ پر وحی نازل ہوئی، تو بچوں میں سب سے پہلے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوئے۔ غار حرا میں جب حضرت جبرائیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کی خوشخبری دی کہ اللہ نے آپ کو نبی بنایا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے، ام المومنین حضرت خدیجۃ، آپ کی صاحبزادیاں، حضرت علی اور آپ کے گھر میں آپ کی کفالت میں تھے،حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گار تھے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق تھے قریبی دوست تھے۔          ان میں سے پہلے کون مسلمان ہوا بعد میں کون مسلمان ہوا، یہ سیرت کے محققین کے لیے بڑا معمہ ہے کہ ترتیب کیسے دی جائے چونکہ یہ سارے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی شمار ہوتے تھے۔آسانی کے لیے پھر یہ ترتیب اپنائی گئی کہ خواتین میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوئیں، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوئے، بالغوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوئے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوئے۔ تو بالکل ابتدا میں اپنے بچپن کے زمانے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوئے۔

ابتدائی نماز کی حالت

          جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں لوگوں کو مسلمان ہونے والوں کو نماز سکھانا شروع کی، تو مسلمان چھپ کر گھاٹیوں میں جا کر نماز پڑھتے تھے۔ اہل مکہ ایک نماز سے واقف تھے۔ سورج طلوع ہونے کے بعد اشراق کے جو نوافل ہیں مکہ والے اس سے واقف تھے۔ اسی طریقے سے شام کی نماز سے بھی واقف تھے۔ عین ممکن ہے کہ یہ دینی ابراہیمی کی کوئی باقیات ہوں جو مکہ کے ماحول میں موجود تھی۔یہ نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیت اللہ میں ادا کرتے تھے چونکہ یہ نماز اہل مکہ کے لیے اجنبی نہیں تھی اور جو باقی نمازیں ہیں وہ مسلمان گھاٹیوں میں خفیہ طریقے سے ادا کرتے تھے۔

          ایک روایت میں آتا ہے کہ اسی طریقے سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی گھاٹی میں نماز ادا کر رہے تھے۔ وہاں سے جناب ابو طالب کا گزر ہوا تو انہوں نے جب دیکھا کہ یہ اس طریقے سے کام ہو رہا ہے، بعد میں انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اس عمل پر اطمینان کا اظہار کیا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں اور ان کے طریقے پر ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفاداری اور ابتدائی تربیت

          ایک روایت میں آتا ہے، کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان والوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے دین کی دعوت کو پیش کیا، تو اکثر لوگوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا۔ حضرت علی کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا: اگرچہ میں سب سے چھوٹا ہوں اور جسمانی اعتبار سے بھی کمزور ہوں، لیکن اس کے باوجود میں آپ کے ساتھ رہوں گا اور جو مجھ سے بن سکے گا، میں آپ کے لیے کروں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے جیسے حضرت ہارون کی نسبت حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔

          ان روایات کو عرض کرنے کا مقصد یہ باور کروانا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بچپن ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں تھے اخلاقیات حضور علیہ السلام نے ان کو سکھائیں۔ دین کی ابتدائی تعلیم انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے میسر ہوئی اور زمانے کے دیگر امور سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آکر واقف ہوئے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل

          چنانچہ صحابہ کرام میں سب سے زیادہ فضائل حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے منقول ہیں۔ آپ حدیث کی کتابیں دیکھیں گے تو حضرت علی کی فضائل پر مشتمل روایات سب سے زیادہ ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ حضرت علی کی فضیلت پر جتنی روایات مشتمل ہیں، کسی اور صحابی کو یہ امتیاز حاصل نہیں ہے۔ان کی فضیلت کے بارے میں اتنی کثرت سےروایات آئی ہیں۔اس فضیلت کی بنیادی وجہ کیا ہے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ “چونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت ابتدا ہی سے میسر تھی اور آپ علیہ السلام ہی کے فیض یافتہ تھے۔ اس وجہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل دیگر صحابہ کے مقابلے میں زیادہ منقول ہیں۔”

          آپ رضی اللہ عنہ نے تمام اوصاف براہ راست جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سیکھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی شکل میں امت کو ایک نمونہ ایسا دیا کہ اگر سنت دیکھنی ہو تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات میں دیکھ لی جائے۔ چنانچہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے بے رغبت تھے، ویسے ہی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی دنیا سے بے رغبتی تھی۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے فقر کا انتخاب فرمایا، زہد کے راستے پر چلے، اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اپنی زندگی فقر میں گزاری، زہد اپنے لیے منتخب کیا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا قول

          حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ لوگوں میں سب سے بڑے زاہد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات ہے، اور جس طرح علوم میں مرجع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، اسی طرح امت کے لیے علم کا مرجع حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات ٹھہری۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ ہے۔حضرت علی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی اور یہ محبت دو طرفہ تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت علی سے ویسے ہی محبت تھی۔

نبی کریمﷺ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت

          حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ ایک مرتبہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اور علی کو جا کر کہو کہ تم لوگوں کے سردار ہو، جو تم سے محبت کرے گا تو وہ مجھ سے محبت کر رہا ہے،اور تمہارا دوست اللہ کا دوست ہے،اورتمھارا دشمن میرا دشمن ہے،ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض رکھےگا۔

محبت علی، علامت ایمان

          حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ “مومن حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ بغض نہیں رکھ سکتا اور منافق حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ محبت نہیں رکھ سکتا۔”  گویا کہ حضرت علی کے ساتھ محبت رکھنا یہ ایمان کی علامت بن گئی کہ مومن کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ محبت رکھے گا اور منافق کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ بغض رکھے گا۔

نبی کریمﷺ کی جنت  میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کےباغ کی بشارت

          حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ میں اور علی ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ہمارا گزر مدینہ کے گرد و نواح میں باغات پر سے ہوا۔ جب ہم ایک باغ کے پاس سے گزرے تو حضرت علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ کتنا خوبصورت باغ ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی جنت میں تمہارا باغ اس سے زیادہ خوبصورت ہوگا۔ اگلے باغ سے گزرے تو حضرت علی نے پھر یہی عرض کیا کہ یہ کتنا خوبصورت ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں تمہارا باغ اس سے زیادہ خوبصورت ہوگا۔ یہاں تک کہ سات باغات پر سے گزرے اور سات باغات پر سے گزرتے ہوئے حضرت علی نے بھی یہی عرض کیا اور حضور علیہ السلام نے بھی یہی جملہ ارشاد فرمایا کہ جنت میں تمہارا باغ اس سے زیادہ خوبصورت ہوگا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جنتی ہونے کی بشارت

          حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی جنت والوں میں سے ہیں۔جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر کچھ صحابہ کے بارے میں جنت کی پیشین گوئی فرمائی تو ان میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی سر فہرست ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے جنتی ہونے کی پیشنگوئی فرمائی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور ایثار

          جیسے میں نے شروع میں عرض کیا کہ یہ محبت دو طرفہ تھی۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی سے محبت تھی اسی طرح سیدنا علی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے غالبا ابن عساکر کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں فاقہ ہے، کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو آپ سے برداشت نہ ہوا اور آپ مزدوری کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ چونکہ حضرت علی بھی فقیر تھے فقر اختیار کیا ہوا تھا، حضرت علی نے بھی زہد اور فقر کو اختیار کیا تھا۔ ان کے پاس بھی کچھ کھانے کو نہیں تھا کہ وہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے تو مزدوری کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک یہودی کے باغ پر پہنچے، اس کے ساتھ معاملہ طے ہوا کہ میں تمہیں کنویں سے پانی کے ڈول نکال کے دیتا ہوں اور ہر ڈول کے بدلے میں ایک کھجور بطور معاوضے کے تحت ہوگی۔

          چنانچہ حضرت علی نے 17 ڈول نکالے اور 17 ڈول نکالنے کی اجرت کے طور پر 17 کھجوریں حاصل کی۔ اس یہودی نے انہیں اختیار دیا کہ آپ کھجور کی جو قسم لینا چاہیں آپ لے لیجیے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے 17 عجوہ کھجور منتخب کی اور لا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ یہ عمل آپ نے اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں کیا ہے؟ حضرت علی نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہ مجھے اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے یہ عمل کرنے پر مجبور کیا۔

نبی کریم ﷺ کی نصیحت

          آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اس کی طرف مصائب اتنی تیزی سے آتے ہیں جتنا تیزی سے سیلاب کا پانی اپنے منتہی اور اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اسے چاہیے کہ مصیبتوں سے بچنے کے لیے اپنے لیے کوئی راستہ تلاش کر لے کہ اس کی طرف مصیبتیں متوجہ ہوں۔ تو اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر محبت تھی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت

          غزوہ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں کل ایسے شخص کو علم دوں گا ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ جب یہ جملہ آپ نے ارشاد فرمایا تو بہت سارے صحابہ کو یہ تمنا ہوئی کہ کاش اس جملے کا مصداق ہم بن جائیں۔ کیونکہ یہ بہت بڑی بے بشارت تھی اس شخص کے لیے کہ جس کو یہ جھنڈا ملے گا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔

          چنانچہ جب اگلا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی کو بلاؤ لوگوں نے عرض کیا کہ وہ  بیمار ہے انہیں آشوب چشم کا مرض تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب مبارک لگایا جس سے اللہ نے انہیں شفا عطا فرمائی۔پھر اپنا علم عطا فرمایا اور کہا کہ جاؤ اور اس قلعے کو فتح کرو۔اس روایت سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں یہ ایک بڑی بشارت معلوم ہوئی کہ حضرت علی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں اور اللہ اور اس کا رسول حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے محبت کرتے ہیں۔

          جیسے میں نے ابتدا میں عرض کیا کہ یہ حضرت علی کو جو یہ عظیم منصب ملا یہ ان کے اندر موجود صلاحیت کی وجہ سے ملا کہ انہوں نے بچپن سے لے کر جوانی تک حضور علیہ السلام کی تربیت پائی تھی۔بعد میں جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم حیات رہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے سفر میں بھی حضور علیہ السلام کے ساتھ رہتے تھے۔           چنانچہ ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا، موزوں پر مسح کے بارے میں مسئلہ پوچھا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا علی سے پوچھو کیونکہ وہ سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے ہیں۔ تو سفر میں بھی ساتھ ہیں اور مدینہ میں بھی ساتھ ہیں، پیغمبر کے حجرے کے ساتھ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حجرہ تھا، نبی کی صحبت زیادہ ملنے کی وجہ سے اور پیغمبر کی تربیت نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اندر موجود صلاحیت کو کندن بنا دیا۔ وہ لوگوں کے لیے حضور علیہ السلام کی سنتوں کا عکس بن گئے، کسی نے پیغمبر کی سنت دیکھنی ہو پیغمبر کا عمل دیکھنا ہو تو حضرت علی کا عمل دیکھ لے۔

نبی کریم ﷺ کے سب سے زیادہ مزاج شناس

          حضرت علی صحابہ کرام کے معاشرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مزاج شناس تھے۔ گویا انہیں یہ جو منصب ملا جو فضیلت ملی یہ ان کے ذاتی عمل کی وجہ سے تھا۔ اللہ تبارک و تعالی نے ان میں حضور علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے کا جذبہ رکھا تھا، اس عمل کے جذبے کی وجہ سے اور سنت پر عمل کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالی نے بلند مقام حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو عطا کیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیات

یوں تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بے شمار خصوصیات ہیں لیکن تین خصوصیات حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے علامت کی حیثیت رکھتی ہے۔

          شجاعت: پہلے نمبر پر شجاعت ہے۔اللہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بے مثال شجاعت عطا فرمائی تھی۔ جس وقت جنگ ہوتی تھی تلواروں کے ساتھ، نیزوں کے ساتھ، آمنے سامنے تو لشکر میں جو علم بردار ہوتا تھا اسے بنیادی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ دشمن کی نگاہوں کا مرکز بھی مخالف فوج کا علم بردار ہوتا تھا۔ کیونکہ جب تک اس کا لشکر کا علم بلند ہے تو لشکریوں میں حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا تھا، اور اسی علم کے ارد گرد لشکر جان لڑا دیا کرتا تھا لیکن اپنے علم کو گرنے نہیں دیتا تھا۔ تو علمبردار کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی تھی اور بیشتر غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا علم عطا فرمایا۔

          چنانچہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کا علم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھا۔ غزوہ احد میں حضرت موسی بن عمیر کی شہادت کے بعد علم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا۔ غزوہ خندق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو عمامہ پہنایا تلوار عطا فرمائی اور عمرو ابن عبدود جیسےایک بڑے کافر پہلوان کے مقابلے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا۔ غزوہ بنو قریضہ میں مسلمانوں کا علم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ غزوہ بنو نضیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم حضرت علی کے پاس تھا۔اس طریقے سے بیشتر غزوات میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہوا کرتا تھا۔

           ہر جنگ میں اپنی شجاعت کی مثالیں حضرت علی نے اپنی تلوار کی نوک کے ذریعے رقم کی۔ غزوہ بدر میں مشرکین کے اکثر بڑے بڑے سردار حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تلوار کا لقمہ بنے۔ جس وقت بدر کے میدان میں قریش کی جانب سے تین پہلوان نکلے اور مسلمانوں کو دعوت مبارزت دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت میں سے حضرت علی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ جاؤ اور ان کفر کے سرداروں کا مقابلہ کرو۔

          مشکل مقامات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی کو آگے رکھتے تھے۔ یہ حضور علیہ السلام کا مزاج تھا کہ مشکل مقامات میں اہل بیت کو سامنے رکھتے تھے۔ اس میں اہل بیت کی تربیت بھی تھی اور ان کی عظمت کا اظہار بھی تھا اور امت کے لیے ایک سنت بھی تھی کہ انسان کو مشکل مراحل میں اپنے آپ کو سامنے رکھنا چاہیے یا اپنے گھر والوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔

          چنانچہ آپ دیکھ لیجئے بدر میں بڑے پہلوان سے مقابلہ کرنے کے لیے حضور علیہ السلام نے حضرت علی کو بھیجا۔ خیبر میں مشکل قلعے کو فتح کرنے کے لیے حضرت علی کو بھیجا گیا۔ غزوہ خندق میں اہل مکہ کے ایک ایسے سردار کو جو ہزار سواروں کے برابر مانا جاتا تھا، اس کے مقابلے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔اس طریقے سے غزوات میں مشکل مراحل میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ پیش پیش رہتے تھے اور یہ ان کی شجاعت کے ایک مثال تھی۔

          ہجرت کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی سوئے اور اس وقت ان کی عمر 23 برس تھی اور ہجرت کی رات حضور علیہ السلام کے بستر پر سونا گویا کہ اپنے آپ کو پیغمبر کی محبت میں قربانی کے لیے پیش کرنا ہے۔ کیونکہ باہر اہل مکہ نے محاصرہ کیا ہوا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے تھے ایسے مشکل مرحلے میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بستر پر سلایا تو ایک تو ان کی نمایاں وصف ان کی شجاعت تھی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زہد و فقر

          دوسرا ان کا نمایاں وصف ان کا زہد تھا فقر کہ والد تاجر تھے دادا تاجر تھے بنو ہاشم کے بڑے حضرات تجارت میں اپنا ایک نام رکھتے تھے، لیکن اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے لیے مزدوری کا فقر کا زہد کا راستہ اختیار کیا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی سردیوں کے موسم میں گرمی کے کپڑے پہنتے تھے اور گرمی کے موسم میں سردی کے کپڑے پہنتے ہیں۔ ان کے ساتھی نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کرتے ہیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کا حوالہ دیا کہ حضور علیہ السلام نے میرے لیے دعا فرمائی تھی کہ یا اللہ اس کو سردی گرمی سے محفوظ رکھنا، تو اس دن کے بعد میرے اوپر موسم کا اثر نہیں ہوتا۔

دنیا سے بے رغبتی

          دنیا کی بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ان کو دیکھا گیا کہ ایک چادر لپیٹے ہوئے ہیں۔ایک پرانا تہبند باندھنا ہے اور تہبند باندھنے کے لیے کمر بند کی جگہ ایک کپڑے کا چیتھڑا استعمال کیا ہوا ہے۔جب کسی نے سوال کیا کہ اس قدر زہد کیوں اختیار کیا ہے یا اس کپڑے کو اختیار کرنے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت علی نے ارشاد فرمایا کہ اس کپڑے میں عافیت زیادہ ہے۔ یہ ریا سے دور ہے، نماز پڑھنے میں اس میں آسانی ہوتی ہے اور یہی مومن کی سنت ہے۔

          ایک موقع پر آپ نے مسلمانوں سے ارشاد فرمایا کہ “مسلمانوں میں نے تمہارے مال میں سے کچھ نہیں لیا سوائے اس ہدیے کے اور جیب سے عطر کی کوئی شیشی نکالی پھر فرمایا کہ یہ مجھے ایک دہکان میں بطور ہدیے کے دین ہے اور پھر تشریف لے گئے اور وہ بھی بیت المال میں جمع کروا دی۔اس طریقے سے حضرت علی نے اپنے آپ کو دنیا سے دور رکھا ہوا تھا۔

          یہ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا اثر تھا۔ جس طرح حضرت ف%