اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْن وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمَّد وَ عَلَى اَلِهِ وَاَصْحَابِهِ اَجْمَعِيْنَ وَعَلى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاِحْسَانِ اِلَى يَوْمِ الدِّيْنِ اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْۚ-اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ
اور (مسلمانو) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کےلیے تیار کرو جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے (موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی نہیں ابھی تم نہیں جانتے، (مگر) اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور اللہ کے راستے میں تم جو کچھ خرچ کرو گے، وہ تمھیں پورا پورا دے دیا جائے گا، اور تمھارے لیے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
خیر اور شر کی ازلی کشمکش
بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو!
دنیا میں ہمیشہ سے خیر اور شر کی قوتیں باہمی متحارب رہی ہیں، ایک دوسرے کے مقابلے میں ہمیشہ سے صف آراء ہیں۔ شر کے لیے عام طور پر مختلف قوتیں کام کرتی ہیں، گویا کہ شر مختلف قوتوں کے ساتھ طاقتور ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شر کا فائدہ نقد ہوتا ہے اور شر کی مٹھاس انسان کے سامنے ہوتی ہے تو لوگ عام طور پر شر کی طرف جلدی راغب ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں خیر ہے تو خیر کا جو فائدہ ہے وہ انسان کی نظروں سے اوجھل ہے کہ آدمی کی آنکھ بند ہوگی وہ قبر میں اترے گا تو پھر اس کو خیر کے فوائد حاصل ہوں گے۔ نیکیوں کا اجر اللہ کے دربار سے ملے گا تو خیر کا اجر خیر کے فوائد نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں، ادھار ہوتے ہیں، موخر ہوتے ہیں، اسی طریقے سے خیر کی حلاوت بھی عام طور پر نظروں سے غائب ہوتی ہے۔ خیر کی طرف انسان بتکلف مائل ہوتا ہے اسے اپنے نفس کے اوپر جبر کر کے خیر کی طرف آنا پڑتا ہے۔ تو شر اور خیر کے درمیان جب بھی مقابلہ ہوتا ہے تو شر کی طرف لوگوں کا رجحان آسان ہوتا ہے، زیادہ ہوتا ہے اور خیر کی طرف لوگوں کا رجحان کم ہوتا ہے۔ اس لیے عام طور پر شر کو بہت ساری قوتیں دستیاب ہوتی ہیں جن سے وہ کام لے کر اپنے آپ کو دنیا میں غالب رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
شر کے مقابلے کے لیے خیر کو اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ مختلف طریقوں سے اپنے آپ کو قوت فراہم کرنی پڑتی ہے۔ اللہ جل جلالہ کا جو حکم ہے وہ سراپہ خیر ہے۔ اللہ کی اطاعت میں ہی انسانوں کے لیے خیر پوشیدہ ہے اور اللہ کی نافرمانی کی جو بھی شکل ہو وہ شر کی ایک عملی صورت ہوتی ہے۔
بعثت رسول ﷺ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ تعالی نے مبعوث فرمایا اور انسانیت کی طرف اپنا نمائندہ، اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا اور یہ اعلان ہوا قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا ترجمہ: (اے رسول ان سے) کہو کہ: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔
تو چاہے انسان عرب میں آباد ہو افریقہ میں آباد ہو یورپ میں ہو دنیا کے کسی خطے میں بستا ہو اور کسی زمانے میں آیا ہو اس کے لیےخیرکا دارومدار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سراپہ خیر آپ علیہ الصلاۃ والتسلیمات کی تعلیمات ہیں گویا کہ جو انسان جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ مسلمانوں کی صف میں جو انسان کھڑا ہے تو وہ خیر کا نمائندہ ہے۔ اس کے مقابلے میں جو بھی ہے تو وہ شر کا نمائندہ ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی میں اللہ تبارک و تعالی نے نجات کا واحد راستہ قرار دیا اور آپ کی سنت پر عمل کو اللہ جل جلالہ نے اپنے تک رسائی کا واحد ذریعہ قرار دیا۔ تو یہ بات واضح ہو گئی کہ اب اگر کسی کو خیر درکار ہے کوئی آدمی یہ چاہتا ہے کہ میں خیر کی صفوں میں کھڑا ہو جاؤں، شر کے لوگوں میں میرا شمار نہ ہو، تو اس کے لیے ایک ہی طریقہ کار ہے، وہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔
میں نے عرض کیا کہ خیر اور شر کی قوتوں میں ہمیشہ سے تقابل رہا ہے، مقابلہ رہا ہے اور یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد بھی چلتا رہا کہ جو آپ کے ساتھ لوگ ہیں، جو خیر کے نمائندے ہیں، جنہیں مسلمان کہا جاتا ہے ان کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جنہیں مشرک کہا جاتا ہے۔ مسلمان اور غیر مسلم کی شکل میں خیر اور شر کے نمائندوں یا خیر اور شر کی قوتوں کے درمیان ہمیشہ سے مقابلہ رہا ہے۔
شر کے مقابلے میں خیر کا دفاع: صفات، حکمت اور روحانی طاقت
اللہ تبارک و تعالی نے خیر کو یعنی مسلمانوں کو شر کے مقابلے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا ہے کہ شر سے دفاع کس طرح کرنا ہے یا جو مسلمان نہیں ہیں جو غیر مسلم ہیں اللہ کے دین کے دشمن ہیں اللہ جل جلالہ کے نام لیواؤں کے دشمن ہیں تو ان سے اپنے آپ کو بچانا کیسے ہے یا ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ یہ تعلیمات واضح طور پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ تبارک و تعالی نے مسلمانوں کو عطا فرمائی ہیں۔
دو طریقوں سے انسان اپنے آپ کو شر سے بچاتا ہے سب سے پہلے انسان اپنے اندر کچھ ایسی صفات پیدا کرتا ہے تاکہ ان صفات کے بل بوتے پر وہ شر کے مقابلے میں صف آراء ہو سکے۔ دشمن کے مقابلے میں طاقت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ طاقت صرف گولی اور بارود کا نام نہیں ہے یا طاقت صرف جسمانی قوت ہی کا نام نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر روح ہے روحانی طاقتیں بھی دشمن کے مقابلے میں قوت شمار ہوتی ہے۔ جو انسان خیر کا نمائندہ ہے اس کے اندر ایسی صفات ہونی چاہیے جو اللہ تبارک و تعالی کو مطلوب ہیں، اس کے اندر صبر ہونا چاہیے، اس کے اندر معاف کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے کیونکہ جب کسی طاقت کے اندر صبر نہ ہو، کسی قوت کے اندر معاف کرنے کی صلاحیت نہ ہو، کوئی بھی قوت معاف کرنے کی صلاحیت سے خالی ہو، تو جب وہ قوت غالب آتی ہے تو وہ فساد کے ایسے نمونے اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہے کہ آنے والی انسانیت کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
تاریخی جنگوں میں انسانیت کا فقدان اور طاقت کےاستعمال کے اثرات
آپ نے تاریخ میں دیکھا ہوگا کہ تاتاریوں نے کس طریقے سے اپنی مغلوب اقوام کو قتل کر کر کے ان کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیا۔ جنگ عظیم اول اور دوم میں لاکھوں بلکہ کروڑوں انسان لقمہ اجل بنے۔ اب یہ ان لوگوں کے درمیان جنگوں کی صورتحال ہے جنہوں نے اپنے اندر کو ان صفات سے متصف نہیں کیا تھا، جن صفات کے ساتھ متصف ہونا ایک انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ معاف کرنے کی صلاحیت نہ ہو پھر وہی ہوتا ہے جو عیسائیوں نے بیت المقدس میں مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ ایک چھوٹے سے شہر میں عیسائی افواج نے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا۔ مورخین کہتے ہیں کہ جب تک عیسائی افواج کے گھوڑوں کے سم مسلمانوں کے خون میں نہ ڈوبے انہوں نے لڑائی سے ہاتھ نہ کھینچے اور مسلمانوں کو مسلسل شہید کرتے رہے۔ اب یہ صورتحال سامنے آئی، کیوں؟ کیونکہ طاقتور فوج یا طاقتور شخص کے اندر وہ صفات نہیں ہیں جن کی بنیاد پر وہ مغلوب شخص کو معاف کر سکے یا اپنے اندر صبر پیدا کر سکے۔
مکی دور کی آزمائشیں: صبر، عفو اور درگزر کی تربیت
اللہ تبارک و تعالی نے خیر کے نمائندے کو یا مسلمان کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ جب دشمن کے مقابلے میں تیاری کرنی ہو تو ابتدا اپنے اندر سے کر نی ہیں۔ اپنے اندر ایسی صلاحیتیں پیدا کرنی ہیں تاکہ انسان صبر سےصبر کر سکے، دوسرے کو معاف کر سکے، اپنے اندر روحانی اوصاف پیدا کرنی ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالی نے ابتدا میں مسلمانوں کو 13 سال تک دشمن کے مقابلے میں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ مکی زندگی میں مسلمانوں کو جنگ لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ حالانکہ مکہ مکرمہ ہی میں مسلمانوں کی ایک جماعت بن چکی تھی۔ اگر وہ چاہتے تو لڑ بھی سکتے تھے، اپنے سے بڑے دشمن کے ساتھ لڑنا ان کو درپیش ہوتا، لیکن کسی حد تک لڑائی لڑی جا سکتی تھی، لیکن اللہ جل جلالہ نے مسلمانوں کو اجازت نہیں دی، کیونکہ یہ اسلام کا آغاز تھا اور مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالی تربیت کے مختلف مراحل سے گزار رہا تھا اس لیے مسلمانوں کو ہاتھ روکے رکھنے کا حکم تھا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف کو حضور ﷺ کی ہدایت
بعض روایات میں آتا ہے یہاں تک کہ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ یا رسول اللہ جب ہم مشرک تھے تو ہمیں معاشرے میں سماج میں عزت حاصل تھی۔ فلما آمنا صرنا اذلاء اب جب ہم ایمان لائے ہیں ہم کلمہ گو بنے ہیں تو ہماری صورتحال خراب ہو گئی ہے، ہمیں لوگوں میں کم نظر سے دیکھا جاتا ہے، کیونکہ ظاہر ہے دفاع کرنے کی اجازت نہیں تھی آگے بڑھ کر حملہ کرنے کی اجازت نہیں تھی، مسلمان مسلسل دشمن کے نشانے پر تھے، مسلمانوں پر ظلم کیا جاتا تھا، تشدد روا رکھا جاتا تھا، جس کے واقعات آپ سیرت کی کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں کہ کس طریقے سے مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل مسلمانوں کو صبر کی تلقین کرتے رہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے یہی شکایت کی کہ جب ہم مسلمان نہیں تھے اس وقت ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف شرفاء میں سے تھے مکہ کےرؤساء میں ان کا شمار تھا، بڑے بڑے چند تاجروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ابھی دشمن سے لڑائی کرنے کی اجازت نہیں ہے، دشمن سے لڑائی مت لڑو، فانی امرت بالعفو کیونکہ مجھے عفو اور درگزر سے کام لینے کا حکم ملا ہے اور مجھے یہ حکم ہے کہ دوسروں کو معاف کیا جائے، فی الحال دشمن کے ساتھ عفو و درگزر اور صبر کا معاملہ کرنا ہے ابھی لڑائی لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔
مکی دور کی قرآنی ہدایات: عبادات اور روحانی اصلاح
یہ مکی زندگی میں مسلمانوں کو احکامات تھے، جس کا ذکر ایک آیت میں بھی ملتا ہے اس آیت سے بھی اس صورتحال کی طرف اشارہ ہوتا ہے
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَۚ
ترجمہ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے (مکی زندگی میں) کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روک کر رکھو، اور نماز قائم کیے جاؤ اور زکوۃ دیتے رہو۔
آپ نے دیکھا ان لوگوں کو کہ جب انہیں کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ رو کے رکھو، لڑائی لڑنے کی اجازت نہیں ہے، بس نماز پڑھتے رہو زکوۃ ادا کرتے رہو، یعنی عبادات پر توجہ دو اپنی روحانی صلاحیتوں کو جلا بخشو۔ اس آیت سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ مکی زندگی میں اللہ تبارک و تعالی نے مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانے کی اور لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ مسلمانوں کی تربیت اللہ تبارک و تعالی کے پیش نظر تھی کہ ان آزمائشوں کی بھٹی سے گزار کر ان کے اندر صبر کی صلاحیت پیدا کی جائے، عفو ودرگزر کی صلاحیت پیدا کی جائے۔
اسلامی جنگیں اخلاقیات کی بنیاد: روحانی اور اخلاقی تربیت
چنانچہ اللہ نے مسلمانوں کے اندر یہ صلاحیتیں پیدا کی اور جب بعد میں انہیں لڑائی کی اجازت ملی اور مسلمانوں نے بڑے بڑے شہر فتح کیے تو کہیں آپ کو مسلمانوں کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملے گا کہ مسلمان فوج بے گناہوں پر چڑھ دوڑی ہو یا غیر مسلحہ لوگوں پر مسلمانوں نے حملہ کیا ہو، بچوں کو قتل کیا ہو، خواتین کو قتل کیا ہو، کوئی ایک واقعہ بھی مسلمانوں کی فوج کا آپ کو نہیں ملے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تربیت تھی کہ اللہ تبارک و تعالی نے ان کو تربیت کے مختلف مراحل سے گزار،ا ان کے اندر ایسے اوصاف پیدا کیے کہ پھر جب وہ غالب آتے تھے تو کمزور دشمن کو معاف کرنے کی صلاحیت ان کے اندر موجود تھی، صبر کرنے کی صلاحیت ان کے اندر موجود تھی۔ دشمن کے ساتھ خیر کا کوئی بھی نمائندہ جب مقابلہ کرتا ہے اور اس سے مقابلے کی تیاری کرتا ہے تو آغاز یہاں سے کرتا ہے کہ اپنے اندر ایسی صلاحیتیں پیدا کرتا ہے جو اسے اچھا انسان بننے میں مدد فراہم کر سکے۔
مدنی دور: جنگی تیاری اور ہر میدان میں برتری کی اہمیت
دوسرے نمبر پر پھر اللہ جل جلالہ نے جسمانی صلاحیتیں اور اسلحے کی صلاحیتیں حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔ چنانچہ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ گئے تو اللہ جل جلالہ نے اب ان کو جنگ کی اجازت دی۔ آیت نازل ہوئی
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُ
ترجمہ: جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے( کہ وہ اپنےدفاع میں لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، اور یقین رکھو کہ اللہ ان کو فتح دلانے پر پوری طرح قادر ہے۔
اب چونکہ ان کے اوپر ظلم کیا جا رہا ہے تو جن لوگوں سے لڑائی لڑی جا رہی ہے اور جن پر ظلم کیا جا رہا ہے ان کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اب اپنا مقابلہ کر سکیں، وہ اب دشمن کا مقابلہ کر سکیں اور اپنے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھا سکیں۔ آگے جا کر یہ آیات نازل ہوئی وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِۚ ترجمہ: اور (مسلمانو) ان کافروں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔
ان سے اس وقت تک لڑو جب تک کہ فتنے کی بنیاد ہی ختم نہ ہو جائے۔اس وقت تک ان سے لڑتے رہو جب تک دین سارے کا سارا اللہ جل جلالہ کے لیے نہ ہو جائے۔ اس طریقے سے دوسرے مرحلے پر جا کر اللہ تبارک و تعالی نے مسلمان قوم کو مسلمان امت کو صحابہ کرام کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی، انہیں حکم دیا کہ اب چونکہ تم ہتھیار اٹھا کر لڑو گے تو اب تمہیں یہ صلاحیت حاصل کرنی ہے کہ جنگی میدان میں دشمن پر آپ کو برتری حاصل ہو۔
چنانچہ مسلمانوں کو حکم ہوا وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ کہ تیار رہو دشمن کے مقابلے کی تیاری کرو۔ کتنی؟ جتنی تم سے بن پڑے جتنی تم سے ہو سکے زیادہ سے زیادہ جتنی تمہاری ہمت ہو اسی قدر دشمن کے مقابلے کی تیاری کرو۔ من قوۃ ہر قسم کی قوت دشمن کے مقابلے کے لیے جو بھی قوت درکار ہوتی ہے ہر قسم کی قوت حاصل کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ یہاں قوت میں عموم ہے، اس میں عسکری صلاحیت بھی ہے، اس میں تعلیمی صلاحیت بھی ہے کہ جو مروجہ علوم ہیں، سائنس ہیں، ٹیکنالوجی ہے، مسلمان قوم کو ان میں بھی دشمن کے مقابلے میں فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔ سماجی صلاحیتیں ہیں، معاشرتی علوم ہیں، اخلاقیات کا میدان ہے ان تمام میدانوں میں خیر کے نمائندے (مسلمان) نے دشمن کے مقابلے میں اپنے آپ کو برتری دینی ہے، اس وقت تک وہ محنت کرتا رہے گا۔
آگے فرمایا ومن رباط الخیل اور گھوڑوں کی چھاونیوں میں، تیاری کرو، حاصل کرو، ہر قسم کی قوت اور گھوڑوں کی چھاؤنیاں تیار کرو تو یہاں پہلے اللہ نے حکم دیا کہ ہر قسم کی قوت حاصل کرو اور دوسرے نمبر پر خاص طور پر اسلحے کے میدان میں تیاری کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ پہلے دیگر قوتیں حاصل کرو اور اس کے ساتھ ساتھ خاص طور پر جو اسلحے کا میدان ہے اس میں بھی اپنے آپ کو دشمن سے آگے رکھو، اسلحے کے میدان میں بھی مسلمان قوم کو دشمن پر واضح برتری حاصل ہونی چاہیے۔ یہ تیاری کب تک رکھو؟ ترھبون به عدوالله وعدوکم تاکہ تم اس طاقت کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمن کو ڈرا سکو یا دیگر الفاظ میں آپ یوں کہہ لیجیے کہ طاقت کا توازن مسلمان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، اسے اس قدر طاقت حاصل ہونی چاہیے کہ خطے میں جو دفاعی توازن ہے اس میں غالب حصہ مسلمان کا ہو کہ مسلمان جب چاہے خطے کے اندر طاقت کے توازن کو تبدیل کر دے اور جب چاہے وہ اسے متغیر کر سکے۔ اتنی صلاحیت حاصل کرنے تک اللہ تبارک و تعالی نے مسلمانوں کو پابند کیا ہے کہ اس وقت تک تیاری کرتے رہو، جب تک کہ طاقت کا توازن تمہارے ہاتھ میں نہ آجائے اور دشمن تم سے خوفزدہ نہ ہو جائے ۔تمہاری ہیبت دشمن پر قائم ہونی چاہیے اور اس مقصد کے لیے مسلمان قوم کو جتنا خرچ کرنا چاہیے، جتنی اس کے اندر استطاعت ہو اس کو خرچ کرنے کا پابند بنایا گیا۔ خرچ بھی کرے گی اور صلاحیت کے اعتبار سے بھی فوقیت حاصل کرے،
راہ خدا میں خرچ اور دفاعی اخراجات میں مسلمانوں کی بقا کی ضمانت
ایک روایت میں آتا ہے ایک آیت سن لیجئے اللہ جل جلالہ ایک جگہ سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتے ہیں وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ترجمہ: اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو۔
اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو یعنی خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑے میں مت پھینکو بلکہ اللہ کے راستے میں خرچ کرو گویا اللہ کے راستے میں خرچ کرنا مسلمانوں کو ہلاکت سے بچائے گا اور جب مسلمان خرچ کرنے سے رک جائے گا تو گویا اس نے خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈالا۔ اس آیت کے پس منظر میں مفسرین نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ انصار مدینہ مسلمان ہونے سے پہلے کاشتکار تھے، ان کے مختلف کھیت تھے باغات تھے کھجوروں کی فصل یہاں تیار ہوتی تھی اور ایک خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے ۔جب ہجرت ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انصار مسلمان ہوئے اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے تو انہیں قریش کے ساتھ یہود کے ساتھ جنگوں کا سامنا کرنا پڑا، جنگی اخراجات انہیں کرنے پڑے جس کے نتیجے میں ان کی معاشی صلاحیت کچھ کم ہو گئی، معاشی اعتبار سے پہلے کی بنسبت کچھ کمی کا شکار ہوئے۔
غالبا غزوہ خیبر کے بعد پھر بعض حضرات کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے آپس میں بیٹھ کر یہ مشورہ کیا کہ اب تو پہلے جیسی صورتحال نہیں ہے۔ کہا ںہم بدر میں 313 تھے اور اب مسلمان غالب حیثیت رکھتے ہیں تو اب چونکہ پہلے جیسی صورتحال نہیں ہے، اس لیے ہمیں جہاد پر بہت زیادہ خرچ کرنے کی بجائے کچھ اپنے کاروبار کی طرف اپنے کھیتوں کی طرف اپنے باغات کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس پس منظر میں اللہ نے پھر یہ آیت نازل کی کہ جیسے پہلے خرچ کرتے رہے ہو اللہ کے راستے میں یہاں خرچ کرنے سے مراد جہاد پر خرچ کرنا ہے کہ جیسے پہلے تم خرچ کرتے رہے ہو، جہاد بالمال کرتے رہے ہو، اپنے آپ کو دشمن پر غالب کرنے کے لیے جہاد پر اخراجات کرتے رہے ہو یا یوں کہہ لیجیے کہ دفاعی اخراجات پر تم اپنا مال صرف کرتے رہے ہو ویسے ہی صرف کرتے رہو، کیونکہ اگر تم رک گئے اور جنگی تیاریاں کرنا تم نے چھوڑ دی، دفاعی اخراجات تم نے کم کر دیے تو گویا یہ تم نے خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا۔ دفاعی اخراجات میں کمی کرنا یہ مسلمان قوم کو اجتماعی طور پر خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ وہ قوم اب خود کشی کرنا چاہتی ہے لہذا اس نے اپنی دفاع پر توجہ کرنا چھوڑ دی تو اس حد تک اللہ تبارک و تعالی نے مسلمان قوم کو پابند کیا ہے کہ وہ دشمن کے مقابلے میں تیاری کرے۔
اسلامی قیادت کی سادگی
یہ اس زمانے کی صورتحال ہے جب دفاعی اخراجات صرف اور صرف دفاع پر خرچ ہوتے تھے ایسا نہیں ہوتا تھا کہ جو لشکر کے سربراہ ہیں یا جو لشکر کے بڑے ہیں وہ دفاعی اخراجات کے نام پر اپنی ناجائز خواہشات کو پورا کریں اور دفاعی اخراجات کے نام پر اپنے تعیشات کو فروغ دیں۔
اس زمانے میں جو ایک عام مسلمان فوجی کا لباس ہوتا تھا وہی اس کے جرنیل کا بھی لباس ہوتا تھا۔ ایسا بھی موقع تھا کہ بدر کے میدان میں حضرت مقداد بن اسود گھوڑے پر سوار ہیں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو فوج کے سپہ سالار ہیں، مسلمانوں کے جرنیل ہیں اور ان کے روحانی پیشوا ہیں ان کے پاس گھوڑا نہیں تھا، بلکہ اونٹ بھی الگ نہیں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو صحابہ کرام اونٹ کی سواری میں شریک تھے۔ یعنی جس طرح عام لشکر تین تین ہو کر اونٹ پر سواری کر رہا تھا وہی صورتحال جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے بھی اختیار فرمائی تھی اور یہی سنت آپ علیہ السلام کے بعد آپ کے جانشین جرنیلوں میں بھی رہی۔
حضرت خالد بن ولید کی زندگی آپ پڑھ لیجیے ، عبیدہ بن جراح کو دیکھ لیجیے، سعد بن ابی وقاص کو دیکھ لیجیے کہ کس طریقے سے وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور میدان جنگ میں جو ایک عام فوجی کی صورتحال ہے وہی جرنیل کی بھی صورتحال ہوتی تھی۔ جب اس طریقے سے مسلمان قوم کی تربیت کو تو پھر ان کو حکم دیا گیا کہ جتنا تم سے ہو سکے اپنے دفاع پر خرچ کرو۔ اگر تم خرچ نہیں کرو گے تو نتیجتا تم اپنے آپ کو سماجی طور پر معاشرتی طور پر ہلاکت کے گڑے میں ڈالو گے۔
مسلمانوں کی کامیابی کےلیے اخلاقی صفات اور تقوی کی اہمیت
دو طریقوں سے اللہ جل جلالہ خیر کے نمائندوں کو دشمن کے مقابلے میں صف آرا ءہونے کی تلقین کرتا ہے۔ پہلے نمبر پر اپنے اندر کچھ ایسی صفات پیدا کرے تاکہ آگے جا کر وہ جب غالب ہو، وہ فتنے کا سبب نہ بنے اور اس کے اندر ایسے جذبات پیدا نہ ہوں کہ وہ مخلوق قوم سے بے جا طور پر انتقام لے۔ اپنے آپ کو صبر سے متصف کرے، معاف کرنے کی صلاحیت پیدا کرے، اللہ کا خوف اپنے دل میں پیدا کرے، گناہوں سے بچنے کا رجحان اپنے اندر پیدا کرے۔
پہلے نمبر پر مسلمان قوم نے اس میدان میں محنت کر لی ہے اور دوسرے نمبر پر پھر ظاہری جو بھی صلاحیتیں ہیں، جتنی بھی قوتیں ہیں جو جو قوتیں دشمن کے مقابلے کے لیے ضروری ہوتی ہیں اللہ تبارک و تعالی نے مسلمان قوم کو وہ تمام قوتیں اس حد تک حاصل کرنے کی تلقین فرمائی ہے کہ جب تک طاقت کا توازن ان کے ہاتھ میں نہ آئے۔ یاد رکھیے ان میں بنیادی چیز مسلمان قوم کی تربیت ہے اگر مسلمان قوم تربیت یافتہ ہو جس طریقے سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کی ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت مسلمان کو مغلوب نہیں کر سکتی۔
چنانچہ روم کے واقعات میں آتا ہے کہ جب رومی افواج کو مسلمانوں نے شکست دینا شروع کی باوجود یہ کہ مسلمان عددی طور پر ان سے کم تھے، اسلحے کے میدان میں ان سے کم تھے، لیکن پھر بھی ہر جگہ رومی فوج سپر پاور ہونے کے باوجود مسلمان فوج کے مقابلے میں دم دبا کر بھاگ رہی تھی اور مسلمانوں کا لشکر اوپر ہی چڑھا جا رہا تھا۔ ہرقل جو کہ روم کا بادشاہ تھا اس نے اپنے فوجی جرنیلوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کیا تم ان سےعدد میں زائد نہیں ہو؟ انہوں نے کہا ہم زیادہ ہیں۔ کیا تم ان سے اسلحے میں فوقیت نہیں رکھتے؟ انہوں نے کہا ہمارا اسلحہ بھی زیادہ ہے تو بادشاہ نے پوچھا پھر تم شکست کیوں کھا رہے ہو؟ تمہارے شکست کھانے کی وجہ کیا ہے؟ تو ان میں سے ایک شخص بولا کہ اصل بات یہ ہے کانوا یقومون الیل ویصومون النھار ویوفون بالعھد يامرون بالمعروف وينهون عن المنكر ويتناصفون بيىهم کہ اس مسلمان لشکر کے اندر کچھ ایسی اوصاف ہیں جن کی وجہ سے ہماری عددی برتری بیکار چلی جاتی ہے۔
پہلی صفت کیا ہے؟ وہ راتوں کو قیام کرتے ہیں، اپنے رب سے مدد مانگتے ہیں۔ دوسری صفت کیا ہے؟ عام طور پر مسلمان دن کو روزہ رکھا کرتے ہیں۔ تیسری صفت کیا ہے؟ وہ عہد کی پاسداری کرتے ہیں، مسلمان وعدہ خلافی نہیں کرتا، یہ تیسری صفت ہے ۔ان کے اندر چوتھی صفت کیا ہے؟ خیر کا حکم دیتے ہیں۔ پانچویں صفت برائی سے روکتے ہیں اور چھٹی بنیادی صفت ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ظلم نہیں کرتے، کسی کا حق نہیں مارتے، کسی کا حق ہڑپ نہیں کرتے۔ یہ تمام اوصاف نے مل کر مسلمانوں کو اتنی طاقت بخشی ہے کہ ہماری عدد ی برتری ہماری طاقت کا زعم سارا کا سارا ان کے سامنے بیکار ہے۔ ہماری یہ صورتحال ہے کہ ہم لوگ شراب پیتے ہیں، زنا کرتے ہیں، حرام کھاتے ہیں۔ نتیجتا ہماری جو افواج ہیں وہ اخلاقی اعتبار سے انتہائی پست ہے اور وہ ہر جگہ مسلمانوں کے مقابلے میں دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیجئے کہ مسلمان لشکر کو مسلمان قوم کو غالب آنے کے لیے بنیادی طور پر کیا صفات درکار ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک خط اس سلسلے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ جو فاتح ایران ہیں جب انہوں نے ایران کا رخ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کی طرف ایک خط بھیجا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے حضرت عمر نے ان سے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اور تمہاری فوج کو اللہ کا خوف اور تقوی اپنانے کاحکم دیتا ہوں۔ کیونکہ اللہ کا خوف دل میں رکھنا یہ دشمن کے مقابلے میں تیاریوں کی اولین منزل ہے۔ یہی بنیادی تیاری ہے کہ مسلمان کے دل میں اللہ جل جلالہ خوف ہونا چاہیے اور وہ تقوی سے متصف ہونا چاہیے۔
دوسرے نمبر پر میں تمہیں گناہوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہوں کہ تم اور تمہاری فوج ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہو، کیونکہ کسی بھی لشکر کے لیے ہیں اس کے گناہ اس کے دشمن کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہیں۔ اگر مسلمان فوج گناہوں میں ڈوب جائے گی، اللہ کی نافرمانی کرے گی، انہیں اپنے آپ کو ڈبو دے گی اس کے لیے دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ دوسرے نمبر پر اپنے آپ کو اپنے لشکر کو گناہوں سے بچنے کی تلقین کرو، کیونکہ تمہارے لیے تمہارے گناہ دشمن کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہیں اور مزید فرمایا کہ ہمیں اللہ کی نصرت کی امید اس لیے ہے کہ دشمن گنہگار ہے اور ہم گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس بنیاد پر ہم اللہ جل جلالہ کی نصرت کے امیدوار ہیں کہ یا اللہ وہ آپ کے کھلے نافرمان ہیں اور ہم اپنی حد تک آپ کی اطاعت کی کوشش کرتے ہیں تو اس بنیاد پر ہم اپنے آپ کو اللہ کی نصرت کا مستحق سمجھتے ہیں۔
اللہ کی نصرت کےلیے تقوی، دفاع اور عمل کی اہمیت
اگر ہم بھی گناہوں میں آلودہ ہو جائیں ہم بھی اللہ کی نافرمانی کرنے لگ جائیں تو کس بنیاد پر ہم اللہ کی نصرت کو اپنی طرف متوجہ کریں تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ خط مسلمانوں کے لیے رہتی دنیا تک ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، اگر مسلمان نے دنیا میں غالب آنا ہے اس نے اپنے دشمن پر قابو پانا ہے تو اس کو ابتدا یہاں سے کرنی ہے کہ اپنے اندر تقوی پیدا کرنا ہے، اپنے اندر ایسے اوصاف پیدا کرنے ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلقین فرما گئے۔
دوسرے نمبر پر اپنے آپ کو ہر قسم کے ہتھیار سے لیس کرنا ہے۔ چاہے وہ ہتھیار علمی میدان کا ہو، چاہے وہ ہتھیار سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان کا ہو یا چاہے وہ ہتھیار اسلحے کی شکل کا ہو تو ہر میدان میں مسلمان نے اپنے آپ کو فوقیت دینی ہے۔ ایک بات یاد رکھیے اگر اللہ چاہتا تو مسلمانوں کو بغیر لڑے ویسے ہی نصرت دے دیتا ہے۔ چنانچہ جہاں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاؕ اس سے پچھلی آیت آپ دیکھیں تو اس میں اللہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ ترجمہ: بے شک اللہ ان لوگوں کا دفاع کرے گا جو ایمان لے آئےہیں۔
اللہ مسلمانوں کی طرف سے دفاع کرتا ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم لڑو۔ ایک جگہ اللہ نے فرمایا اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے انتقام لے لیتا مسلمانوں کو لڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، لیکن اس کے باوجود اللہ تبارک و تعالی یہ چاہتا ہے کہ مسلمان خود میدان میں اترے اور اپنا دفاع کرے۔انہیں من اور سلوہ کھانے کے نام پر بہترین کھانے بغیر کچھ کیے ملتے تھے اور جس وقت روشنی کی ضرورت پڑے تو حضرت موسی علیہ السلام اپنا عصا گاڑ دیتے وہ ان کے لیے پاور ہاؤس کا کام دیتا ،سائے کی ضرورت پڑتی اللہ جل جلالہ ان کے اوپر ابر مسلط کر دیتا۔ یہ تمام نعمتیں انہیں وادی طی میں حاصل تھی اور جس وقت لڑنے کا موقع آیا تو انہوں نے پھر بہانہ بنایا اور کہا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَترجمہ:(اگر ان سے لڑنا ہے تو) تو بس تم اور تمھارا رب چلے جاؤ اور ان سےلڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔
کہ اے موسی تم اور تمہارا رب جا کر لڑو ہم تو نہیں لڑ سکتے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں ۔ گویا انہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ جیسے ہمیں پکی پکائی کھانے کے لیے ملتی ہے اسی طریقے سے حضرت موسی علیہ السلام کا کوئی اور معجزہ ظاہر ہو جائے اور یہ شہر بیت المقدس فتح ہو کر ہمارےنرغے میں آ جائے۔ ہم تو نہیں لڑتے تو اللہ تبارک و تعالی مسلمان کو اخلاقی طور پر برتر دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے مسلمان کو حکم دیا کہ خود اپنا دفاع کرو جب خود اپنا دفاع کرو گے اور اللہ تبارک و تعالی کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالو گے تو پھر اللہ کی نصرت بھی مسلمان کے شامل حال ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالی عمل کی توفیق دے۔ وما علينا الا البلاغ