دور حاضر کا مسلمان

Muslims

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ وَالصّلَاةُ وَالسّلامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمّدوعَلى الِه وَاَصْحَابِه اَجْمَعِيْنَ وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بِاحْسَانٍ اِلَى يَومِ الدِيْنِ

امَّا بَعْد!  فَاَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَیْطَانِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْم یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ صَدَقَ اللهُ الْعَظِيْمُ

ترجمہ آیت: اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری  مدد کرے گا، اور تمھارے قدم جما دے گا۔

بزرگان محترم اور میرے عزیز دوستو اور بھائیو!

مسلمان اللہ تبارک و تعالی پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کی وحدانیت کا دم بھرتا ہے۔ اس کو معبود مانتا ہے۔ اس کے سامنے اپنا ماتھا ٹکاتا ہے۔ صرف اسی کے سامنے سجدہ کرتا ہے۔ اس کی اطاعت کرتا ہے اور بدلے میں اللہ تبارک و تعالی اس کی مدد کرتا ہے۔ یہ ہر دور میں ہوتا آیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہر زمانے میں اہل ایمان کی مدد اور نصرت فرمائی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آج مسلمان اتنا ذلیل کیوں ہے؟ آج کے دور کو اگر ہم دیکھیں تو مسلمانوں کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ تعداد کے اعتبار سے اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ دنیا کی چھ ارب کی آبادی میں سے ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان ہیں۔ گویا کہ دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے اور اللہ تبارک و تعالی نے 57 مسلمان ممالک کو ہر اعتبار سے نوازا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمان غیر مسلم طاقتوں کا محتاج رہتا ہے۔

بطور مثال کے آپ پاکستان کو لے لیجیے تو اللہ تبارک و تعالی نے اس وطن کو افرادی اور دفاعی اعتبار سے طاقت بخشی ہے۔ معاشی طور پر اس کا دارومدار غیر مسلم اقوام پر ہے۔ عرب ممالک مشرق وسطی کے ممالک کو دیکھیے، معاشی طور پر وہ مضبوط ہیں لیکن دفاعی اعتبار سے کمزور ہیں۔ وہ غیر مسلم طاقتوں کے سامنے سر بسجود رہتے ہیں۔ دنیا میں ایک بھی ایسا مسلمان ملک نہیں ہے جو غیر مسلم طاقتوں کی دست اندازی سے محفوظ ہو اور سر اٹھا کر جینے جینے کا سلیقہ رکھتا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کی مدد کن کے ساتھ ہے؟ اللہ تعالی نے ہر دور میں اہل ایمان کی مدد کی ہے۔ مدد کا وعدہ بھی کیا ہے تو اس دور میں تو اہل ایمان یہی مسلمان ہیں. یہی 57 مسلمان ممالک ہیں اور ان کے اندر بسنے والے اہل ایمان ہیں تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا اللہ تعالی مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلم طاقتوں کی مدد کرتا ہے یا معاملہ کیا ہے؟ تو اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے. اللہ تعالی مدد ضرور کرتا ہے۔ ہر دور میں ایمان والوں کی اور جگہ جگہ یقین بھی دلاتا ہے کہ بَلِ  اللّٰهُ  مَوْلٰىكُمْۚ وَ  هُوَ  خَیْرُ  النّٰصِرِیْنَ

ترجمہ:(یہ لوگ تمھارے خیر خواہ نہیں) بلکہ اللہ تمھارا حامی و ناصر ہے، او ر وہ بہترین مددگار ہے۔

اللہ تعالی تمہارا کارساز ہے کہ تم اہل ایمان ہو تم نے اللہ پر ایمان رکھا ہے، تو بدلے میں اللہ تمہارے معاملات نمٹائے گا تمہارا کارساز ہوگا تمہیں مشکلات سے نکالے گا۔ اور وہ سب سے بہترین مددگار ہے کہ اس کی مدد سے آگے کسی کی مدد نہیں ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا اِنْ  یَّنْصُرْكُمُ  اللّٰهُ  فَلَا  غَالِبَ  لَكُمْۚ

ترجمہ: اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کو ءی  تم پر غالب آنے والا نہیں۔

کہ اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو کوئی طاقت تمہارے اوپر غلبہ اختیار نہیں کر سکتی، تم مغلوب نہیں ہو سکتے۔ جب اللہ تعالی تمہاری مدد کرے گا اور اسی طریقے سے مختلف روایات میں بھی اس چیز کا ثبوت ملتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اہل ایمان کی مدد کرتا ہے اور کرتا رہا ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ اس مدد کے کچھ ضوابط ہیں اللہ تبارک و تعالی مسلمانوں کی مدد ضرور کرتا ہے لیکن کچھ ضوابط کو سامنے رکھتے ہوئے کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ کا ارشاد ہے

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ

ترجمہ آیت: اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری  مدد کرے گا، اور تمھارے قدم جما دے گا۔

 اب اس میں ایک ضابطہ بتلا دیا

کہ اللہ تعالی کی مدد اسی وقت آئے گی جب پہلے تم اللہ کی مدد کرو گے۔ اب بندہ اللہ کی مدد کیسے کرے؟ اللہ کی مدد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین کی مدد کرے اللہ کے دین کی خدمت کرے اور اللہ تبارک  تعالیٰ کی مکمل اطاعت کرے۔ اس کے دین کے بول بالا کے لیے اپنی تمام تر جدوجہد صرف کرے۔ یہ اللہ کی مدد کرنے کامطلب ہے ۔ جب اہل ایمان اس طریقے سے اللہ تبارک و تعالی کی مدد کرتے ہیں تو بدلے میں اللہ تبارک و تعالی ان کی مدد کرتا ہے اور دنیا میں انہیں کامیابی اور سرفرازی عطا فرماتا ہے۔

اللہ تعالی کی مدد کے حصول کے کچھ ضوابط ہیں۔ سب سے پہلا ضابطہ مومن بننا ہے کہ صحیح طریقے سے ایمان لایا جائے۔  میرے اور آپ کے لیے ایمان وہ معتبر ہے جس طرح صحابہ کرام کا ایمان تھا۔فرمایا کہ اَمِنُوا كَمَا اَمَنَ النَّاسُ مجھے اور آپ کو حکم ہے کہ اے لوگو! ایمان لاؤ اس طریقے سے جیسےیہ لوگ ایمان لائے۔ اور پھر فرماتے ہیں کہ لوگوں سے مراد صحابہ کرام ہیں۔گویا کہ صحابہ کرام میرے اور آپ کے لیے ایمان اور حق کا معیار بنائے گئے ہیں کہ میں اور آپ ایمان لائیں گے اسی طریقے سے جیسے صحابہ ایمان لائے۔ جیسے ان کا اللہ پہ توکل تھا، جیسے ان کا بھروسہ تھا، جیسے ان کی ایمانی طاقت تھی، جیسے ان کے اندر دینی حمیت اور غیرت تھی وہ تمام چیزیں جب ہم اپنے اندر پیدا کریں گے۔ تو پھر ہم صحیح اہل ایمان کہلائیں گے اور اللہ تبارک و تعالی کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی لازمی شرط کو ہم پورا کریں۔

 چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے

اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا

ترجمہ: بے شک اللہ ان لوگوں کا دفاع کرے گا جو ایمان لے آءے ہیں۔

اللہ تبارک و تعالی اہل ایمان کی مدافعت کرتا ہے اللہ اگر دفاع کرتا ہے، حفاظت کرتا ہے تو اہل ایمان کی کرتا ہے کہ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ

ترجمہ:  یقین رکھو کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں، اور اس دن بھی کریں گے جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔

ہم مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو دنیا میں ہم پر ایمان لاتے ہیں۔ ایمان کا مطلب میں نے عرض کر دیا کہ ایمان وہ معتبر ہے جو صحابہ کا تھا۔ اب صحابہ کرام کے ایمان کا مطالعہ کیا جائے کہ ان کا توکل کس درجے کا تھا؟ ایمان کس درجے کا تھا؟ اور وہ چیزیں ہر مسلمان اپنے اندر پیدا کرے تو اللہ تبارک و تعالی کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی یہ پہلی ایک شرط ہوگی جو میں اور آپ پوری کریں گے۔

 دوسری بنیادی شرط یہ ہے کہ ظلم کا دنیا سے خاتمہ ہے. مسلمان دوسرے پہ ظلم نہ کرے دوسرے پہ کیا کسی بھی انسان پر, کسی بھی جانور پر, کسی بھی ذی روح پر ظلم کرنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی اور یہاں صورتحال یہ ہے کہ مسلمان مسلمان کا دشمن ہے. مسلمان مسلمان دور رہا  ایک بھائی اپنے خونی بھائی کا دشمن ہوتا ہے اس کا حق دباتا ہے تو یہ دوسری بڑی شرط ہے کہ ظلم کا خاتمہ ہو کمزور طبقات کی مدد اور دستگیری ہو۔

چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ان الله ینصر هذه الامة بضعیفها بدعوتهم واخلاصهم کہ اللہ تبارک و تعالی اس امت کی مدد کرتا ہے ان کے ضعیف لوگوں کی وجہ سے، کمزور طبقات کی وجہ سے اس امت کی مدد کی جاتی ہے۔ ان کمزور لوگوں کی دعاؤں کی وجہ سے، ان کمزور لوگوں کے اخلاص کی وجہ سے اور ان کمزور لوگوں کی نمازوں کی وجہ سے، اللہ تبارک و تعالی امت کی مدد کرتے ہیں تو کمزور طبقات میں اللہ تبارک و تعالی نے یہ امتیاز رکھا ہے۔ کہ جب معاشرے میں کمزوروں کی مدد کی جائے، مظلوموں کا ساتھ دیا جائے۔ جو بیچارہ پسا ہوا ہے چاہے معاشی طور پر ہو یا کسی طور پر پریشان حال ہے، تو اس امت کا بنیادی فرض یہ ہے کہ اس کی مدد کے لیے پہنچے۔ اللہ تبارک و تعالی اس طریقے سے ایک مسلمان یا مسلمان پوری امت کی مدد فرمائے گا۔ بشرطیکہ ہر ہر مسلمان دنیا سے ظلم کے خاتمے کے لیے اٹھ کھڑا ہو اور اپنے معاشرے میں جو کمزور اور بے کس لوگ ہیں ان کی مدد کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے، یہ دوسری بڑی شرط ہے۔

 تیسری بڑی شرط یہ ہے کہ دین کا ماحول پیدا کیا جائے نمازوں کا ماحول اپنے گھروں میں اور اپنے محلوں میں پیدا کیا جائے۔ اس نماز کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ یہ نماز بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کا ذریعہ ہے۔ اگر معاشرے سے نماز ختم ہو گئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ معاشرہ اللہ تعالی سے یکسر کٹ چکا ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان جو رابطہ تھا جب وہ رابطہ ہی نہیں رہا تو اللہ کی مدد کہاں سے آئے گی؟ قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے

 یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ  تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ  یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ یُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَاؕ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ

ترجمہ: اے ایمان والو! کیا میں تمھیں ایک ایسی تجارت کو پتہ دوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دلا دے؟

( وہ یہ ہے کہ) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاو، اور اپنےمال و دولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ یہ تمھارے لیے بہترین بات ہے، اگر تم سمجھو۔ اس کے نتیجے میں اللہ تمھاری خاطر تمھارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ان باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ایسے عمدہ گھروں میں بساءے گا جو ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں واقع ہوں گے۔ یہی زبردست کامیابی ہے۔ اور ایک اور چیز تمھیں دے گا جو تمھیں پسند ہے(اور وہ ہے) اللہ کی طرف سے مدد، اور ایک ایسی فتح جو عنقریب حاصل ہوگی، اور (اے پیغمبر) ایمان والوں کو (اس بات کی ) خوشخبری سنا دو۔

یعنی کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت نہ بتلاؤں جو تمہیں ایک بڑے عذاب سے نجات دے گی تجارت دو طرفہ ہوتی ہے آپ کچھ بھیجتے ہیں اس کے بدلے میں کچھ نفع لیتے ہیں اور خریدار کچھ ادا کرتا ہے اس کے بدلے میں اپنی مطلوبہ چیز حاصل کرتا ہے۔ تو تجارت دو طرفہ ہوتی ہے اللہ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں ایک ایسی تجارت کا پتہ بتلاتا ہوں۔ جس میں خسارہ نہیں ہے۔

 دنیا میں آپ تجارت کرتے ہیں کبھی آپ کو فائدہ ہوتا ہے کبھی نقصان ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی یہاں ضمانت دے رہا ہےکہ میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتلا رہا ہوں جس میں کوئی خسارہ نہیں ہے۔ اس میں ہماری طرف سے کیا ہوگا ہم نے کیا پیش کرنا ہے؟

تو تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ایمان لاؤ اللہ پہ وَرَسُولِه اس کے رسول پر اوروَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ

اس کے راستے میں جہاد کرو۔ ہر قسم کی جدوجہد کرو اللہ تبارک و تعالی کے راستے میں، چاہے تمہیں مال سے جہاد کرنا پڑے، جان سے جہاد کرنا پڑے، اپنی بدنی مشقتیں صلاحیتیں استعمال کرنی پڑیں اللہ کے راستے میں استعمال کرو اورذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو اگر تم علم رکھو تو اب یہ آپ کی طرف سے ہے کہ آپ نے ایمان رکھا اور دین کے لیے ہر قسم کی جدوجہد کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا اور اس جدوجہد میں نماز بھی آتی ہے، روزہ بھی آتا ہے، زکوۃ بھی ہے اور بوقت ضرورت دین کے لیے اسلحہ اٹھانا بھی ہے۔ اگر وہ طے شدہ ضابطوں کے اندر ہو تو جب یہ چیزیں آپ اپنی طرف سے پیش کریں گے تو بدلے میں اللہ کیا دے گا یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ تو وہ تمہیں معاف کر دے گا۔ تمہارے گناہوں کو ختم کر دے گا اور وَ یُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰر  اور وہ تمہیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اب یہ دو طرفہ معاملہ ہے آپ نے کچھ پیش کیا اور بدلے میں اللہ تعالی نے آپ کو معاف کر دیا آپ کو جنت میں داخل کیا۔ اور آگے فرمایا وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا

اور ایک اور چیز اللہ تمہیں بطور اضافے کے عطا کرے گا، بونس میں تمہیں ملے گی اور وہ ایسی چیز ہے جسے تم پسند کرتے ہو اور وہ کیا ہے؟نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ اللہ کی مدد آئے گی اور قریبی فتح تمہیں ملے۔ تو اللہ کی مدد کو مشروط کیا گیا جب آپ اپنی طرف سے کچھ پیش کریں گے اللہ کی بارگاہ میں کہ ایمان لائیں گے، جدوجہد کریں گے، دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں گے، ظلم کے خلاف اپنی حد تک آواز اٹھائیں گے۔ جب یہ تمام شرائط آپ پوری کریں گے تو فرمایا کہ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے پھر مدد آئے گی۔

اسی طریقے سے ایک اور شرط ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کے دین کی نصرت کی جائے۔ جیسے میں نے پہلے عرض کیا قرآن کریم میں اس کا بھی ذکر ہے

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّنَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕقَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ

ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ (کے دین) کے مددگار بن جاو، اسی طرح جیسے عیسی بن مریم (علیہ السلام) نے حواریوں سے کہا تھا کہ: وہ کون ہیں جو اللہ کے واسطے میرے مددگار بنیں؟ حواریوں نے کہا : ہم اللہ کے(دین کے) مددگار ہیں۔

  مجھے اور آپ کو حکم ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کے مددگار بنو اس کے دین کی نصرت کرو اس کے دین کی خدمت کرو کیسے عیسی بن مریم نے اپنے حواریوں سے اپنے براہ راست صحبت یافتہ حضرات سے کہا تھا کہ اللہ تبارک و تعالی کے معاملے میں میری مدد کون کرے گا، دین کی نصرت میرے ساتھ کون مل کر کرے گا؟ تو حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں اور ہم آپ کے شانہ بشانہ ہو کر دین کی خدمت کریں گے، نصرت کریں گے۔

یہ ایک بنیادی شرط ہے کہ دین کی نصرت کے لیے جب اپنے آپ کو تیار کریں گے تو بدلے میں اللہ کی مدد آئے گی۔ ایک اور بنیادی شرط وی یہ کہ دنیاوی وسائل مہیا کرنا، اپنے آپ کو تیار کرنا۔ قرآن کریم میں اس کا بڑا واضح حکم ہے کہ وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا مِّنْ قُوَّةٍ اسْتَطَعْتُمْ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ

ترجمہ: اور مسلمانو جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاونیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کےلیے تیار کرو

ان کفار ان غیر مسلم طاقتوں کے مقابلے میں اپنے آپ اپنے آپ کو طاقت سے لیس کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کے معاملے میں۔ اب یہاں پر مجھے اور آپ کو تیاری کا حکم دیا اور تیاری میں دو الفاظ استعمال کیے پہلے فرمایا من قوۃ کہ طاقت حاصل کرو اور پھر خاص طور پر اسلحے کی طاقت کے بارے میں فرمایا ومن رباط الخیل اس زمانے میں گھوڑے ہوتے تھے آلات جہاد تھے آج کل اسلحہ ہے جدید ٹیکنالوجی ہے تو رباط الخیل  اسلحے کے میدان میں دفاعی میدان میں اپنے آپ کو طاقتور بنانا ہے۔ جو پہلے قوت فرمایا اس میں عموم ہے اس میں ہر طرح کی طاقت ہے، اس میں تعلیمی طاقت بھی ہے، اس میں اخلاقی برتری بھی ہے، اس میں معاشی برتری بھی ہے، اس میں معاشرتی برتری بھی ہے کہ ان تمام میدانوں میں مسلمان اپنے آپ کو تیار کریں۔ معاشی طور پر وہ غیر مسلم طاقتوں سے آگے ہوں۔ اخلاقیات کے میدان میں ان سے آگے ہوں، معاشرت اور معیشت کے میدان میں ان سے آگے ہوں، تعلیم کے میدان میں ان سے آگے ہوں، ذرا دنیا کا جو بھی جدید تقاضا ہو اس تقاضے پر عمل کرتے ہوئے اس میدان میں غیر مسلم طاقتوں سے اپنے آپ کو آگے بڑھائیں۔ یہ ہے غیر مسلم طاقتوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو تیار کرنا۔ ہر قسم کے میدان میں ان پر برتری دفاعی میدان میں بھی اور دیگر میدانوں میں بھی جب یہ تمام شرائط ہم پوری کریں گے اب اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی کی مدد کا میں اور آپ انتظار کریں گے اور اللہ کی مدد آئے گی۔ ایسا نہیں ہوگا کہ میں یہاں سے سر پر کفن باندھ کر نکل جاؤں کہ میں امریکہ پہ حملہ کروں گا تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ میری جان جائے گی۔ انفرادی طور پر مجھے ہو سکتا ہے ثواب مل جائے اللہ کے ہاں اجر مل جائے لیکن اس طریقے سے اللہ کی مدد کا انتظار کرنا۔ حماقت ہوتی ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالی نے اپنی مدد کو مشروط کیا ہے۔ کہ پہلے تم کچھ کرو ان ضوابط سے گزرو پہلے ذرا معاشرتی طور پر محنت ہو ایمان پر محنت ہو، طاقت کے معاملے میں محنت ہو مادی وسائل کا حصول ہو۔ ان تمام چیزوں میں اپنے اپ کو خود کفیل کرو اور اس کے بعد پھر اللہ تبارک و تعالی کی مدد کا انتظار کرو۔ پھر اللہ جل جلالہ مدد فرماتے ہیں تو فرمایا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ اگر تم اللہ کے دین کی نصرت کرو گے، اللہ کے دین کی مدد کرو گے ان تمام تر ضوابط کے مطابق تو یَنْصُرْكُمْ  اللہ تعالی بھی تمہاری مدد کرے گا اور گزشتہ اقوام میں آپ دنیا کی تاریخ دیکھیے دنیا کی تاریخ گواہی دے گی کہ جب اہل ایمان اس طریقے سے دنیا میں رہتے رہے۔ تو اللہ تعالی کی مدد ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ بنی اسرائیل بڑی معروف قوم گزری ہے۔ میرے اور آپ کے لیے ان کے واقعات میں بڑا درس اور بڑا سبق ہوتا ہے اس لیے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالی نے ان کے واقعات کو بیان کیا یہ قوم بڑی لاڈلی تھی لیکن یہ عروج و زوال سے گزرتی رہی ہے۔ کبھی ان پہ عروج آتا کبھی ان پہ زوال آتا، پھر یہ دنیا میں عروج حاصل کرتے پھر ان پہ زوال آتا۔ سورہ بنی اسرائیل میں اس کا ذکر ہے۔

وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا

ترجمہ: اور ہم نے کتاب میں فیصلہ کرکے بنو اسراءیل کو اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچاو گے، اور بڑی سرکشی کا مظاہرہ کرو گے۔

یعنی ہم نے بنی اسرائیل کے بارے میں یہ طے کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور ظاہر ہے جب جب قوم فساد مچائے گی تو اللہ تعالی انہیں ذلیل کرے گا رسوا کرے گا تو تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا

چنانچہ ج ان دو واقعات میں سے پہلا واقعہ پیش آیا تو ہم نے تمھارے سروں پر اپنے ایسے بندےمسلط کردے جو سخت جنگجو تھے، اور تمھارے شہروں میں گھس گے، اور یہ ایک ایسا وعدہ تھا جسے پورا ہوکر رہنا ہی تھا۔

یعنی جب پہلی مرتبہ انہوں نے زمین میں فساد مچایا تو اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے کچھ طاقتور اقوام ان پہ حملہ آور ہوئیں۔ وہ ان کے گھروں میں گھس گئے۔ ان کو ذلیل اور رسوا کیا اور یہ اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے ایک وعدہ تھا جو پورا ہوا کہ جب تم فساد بچاؤ گے دین کے راستے سے ہٹو گے، اللہ تعالی کے دین کی نصرت سے انکار کرو گے، تو اللہ تمہیں ذلیل و رسوا کرے گا۔

چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع علیہ السلام یہ حضرت موسی علیہ السلام کے پہلے جانشین تھے۔ ان کے دور میں بنی اسرائیل ذرا اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے۔ جب راہ راست میں آئے تو اللہ تعالی نے انہیں برتری عطا کی، عروج عطا کیا، انہیں بیت المقدس پر فتح عطا کی۔ اس قوم پر فتح ان کو ملی جس قوم سے لڑنا ان کے لیے موسی علیہ السلام کے دور میں وبال جان بنا ہوا تھا۔ موسی علیہ السلام سے انہوں نے کہا کہ اذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ ہمارے بس میں نہیں ہے قوم عمالقہ سے لڑنا۔ لیکن جب یوشع بن نون علیہ السلام کے دور میں انہوں نے اپنی اصلاح کی۔ پیغمبر کی بات پر کان دھرے تو اللہ نے ان کی مدد کی ان کو نصرت عطا کی اور ان کو عروج ملا۔ یہ عروج 300 سال تک جاری رہا۔ اسی عروج کے دور میں حضرت داؤد علیہ السلام آئے، حضرت سلیمان علیہ السلام آئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ان کے 300 سالہ دور عروج کا نقطہ کمال آ چکا تھا۔ بھرپور طریقے سے انہوں نے دنیا پر حکومت کی۔ عزت اور فتح کے شادیانے بجائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد ان کے درمیان اختلافات پھوٹ پڑے۔ حضرت سلیمان کی عظیم سلطنت کو انہوں نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ آپس میں اختلافات کی وجہ سے جب اللہ کے دین سے ہٹے۔ اپنا اتحاد پارہ پارہ کیا اختلافات ان میں نمودار ہوئے تو اللہ تعالی نے ان پر غیر مسلم طاقتوں کو مسلط کیا جو اس زمانے میں غیر مسلم بھی اللہ کے باغی طاقتیں تھیں اور بنی اسرائیل کی دونوں سلطنتیں جو حضرت سلیمان کی عظیم یادگار تھی اللہ تبارک و تعالی نے غیر مسلم طاقتوں کے ہاتھوں ان کو نیست و نابود کیا اور انہیں غلام بنا کر بابل لے جایا گیا۔ سو سال تک یہ بابل میں غلامی کی زندگی بسر کرتے رہے۔ اب اللہ تبارک و تعالی نے دوبارہ انہیں عروج عطا کیا۔ عروج کی وجہ کیا تھی؟ حضرت عزیر علیہ السلام نے مصلحانہ کوششیں شروع کی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے ان کی آواز پر کام دھرے جب انہوں نے اپنی اصلاح کا سوچا تو اللہ تعالی نے دوبارہ ان کو عروج عطا کیا۔ دوبارہ انہیں سلطنت ملی پھر انہیں بادشاہتیں ملی۔ دنیا میں ان کو عروج ملا لیکن جب انہوں نے اللہ کے حکم سے روگردانی کی تو اس مرتبہ اللہ تبارک و تعالی نے ان پر رومی طاقتوں کو مسلط کیا جنہوں نے ان کو غلام بنایا بیت المقدس کونیست و نابود کیا اور بنی اسرائیل کے لاکھوں افراد کو قتل کیا تو یہ بنی اسرائیل کی داستان ہے کہ جب کبھی وہ اللہ کی مدد کے لیے دین کی نصرت کے لیے تیار ہوتے تھے، اپنی اصلاح کرتے تھے تو اللہ کی جانب سے مدد آتی تھی۔ اور جب کبھی وہ روگردانی کرتے تھے، پیغمبروں کی تعلیمات سے منہ پھیرتے تھے تو اللہ تبارک و تعالی انہیں پیغمبروں کی نسل ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و رسوا کرتے تھے۔ آپ اپنی امت کو دیکھ لیتے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اسلام کا آغاز بڑی بے سروں سامانی کی حالت میں ہوا۔ صحابہ کرام ابتدا میں بڑی قسم پرسی کا شکار تھے۔ چھپ چھپ کر نمازیں پڑھتے تھے ہر اعتبار سے کمزور لیکن دین پہ سختی سے کاربند  اللہ تعالی کے دین کی نصرت کے لیے ہر وقت تیار پھر اللہ نے نصرت فرمائی اللہ کی مدد آئی اور مدینہ منورہ کی شکل میں مسلمانوں کو ایک ٹھکانہ ملا۔ اور ہر میدان میں اللہ تبارک و تعالی نے ان کی مدد کی۔ لیکن یہ مدد اس وقت آئی جب صحابہ کرام ہر اعتبار سے دنیا میں بے نظیر قوم تھی۔ اخلاقی اعتبار سے ان کا ثانی نہیں تھا۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال صحابہ کرام سے بڑھ کر کوئی کر نہیں سکتا تھا۔

ایک واقعے سے آپ اندازہ لگائیں کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کے حق کے حوالے سے جس قدر حساس تھے، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ یہ بڑے نامور صحابی ہیں بڑے خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ یہ پردیسی تھے آزاد کردہ غلام تھے اور اس زمانے میں عربوں کے کلچر میں غلاموں یا آزاد کردہ غلاموں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ یہ تو اسلام نے آکر یہ تفریقات ختم کی۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت بلال ایک مرتبہ کسی مجلس میں شریک تھے۔ کوئی مشورہ ہو رہا تھا حضرت ابوذر نے کوئی مشورہ پیش کیا۔ حضرت بلال نے فرمایا کہ یہ مشورہ غلط ہے حضرت ابوذر کو غصہ آیا اور فرمایا او کالی ماں کے بیٹے تم میری بات کو غلط کہتے ہو۔ حضرت بلال حبشی رنگ کے کالے تھے۔ حضرت ابوذر نے ان کو یہ سخت جملہ کہا: کہ اے کالی ماں کے بیٹے تم میری بات کو غلط کہتے ہو! حضرت بلال کو یہ بات بری لگی لگنی بھی چاہیے تھی۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اور یہ معاملہ کہہ سنایا۔ پیچھے ابوذر بھی آگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر کو ذرا نصیحت فرمائی اور سخت انداز میں نصیحت فرمائی۔ فرمایا کہ تمہارے اندر جاہلیت کی عادات ابھی باقی ہیں۔ تمہارے اندر جاہلیت کے اثرات ابھی باقی ہیں۔ یہ جو نسلی تفاخر ہے کہ وہ کالا ہے میرا رنگ اور ہے یہ تو نسلی تفاخر جاہلیت سے متعلق ہے۔ اسلام نے تو اس کو مٹایا ہوا ہے اور تمہارے اوپر جاہلیت کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ حضرت ابوذر پہ اس کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ باہر نکلے اور جب حضرت بلال نکلے تو حضرت ابوذر ان کے سامنے زمین پر لیٹ گئے۔ اپنا ایک رخسار زمین پہ رکھا، حضرت بلال سے فرمانے لگے کہ جب تک تم مجھے معاف نہیں کرو گے میرا یہ رخسار اسی طریقے سے خاک میں لوٹتا رہے گا۔ یہ صحابہ کرام کا معاشرہ تھا کہ غلطی ہوئی بشری تقاضے کے تحت لیکن فوری طور پر معافی کا وہ انداز اختیار کیا کہ بھائی تو کیا دشمن بھی معاف کر دیتا ہے۔ تو اخلاقی طور پر جب اس برتری پہ تھے تو اللہ تبارک و تعالی نے ہر میدان میں پھر ان کی مدد کی۔

بدر میں 313 اترتے ہیں اللہ جل جلالہ فرشتوں سے مدد فرماتے اور اعلان بھی کرتے ہیں کہ اللہ جل جلالہ تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا اور اگر یہ یکبار کی تمہارے اوپر حملہ آور ہوں تو اللہ جل جلالہ پانچ ہزار فرشتوں سے مدد کرے گا۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی اور سیرت کی کتابوں کو آپ دیکھ لیجیے صحابہ کرام کے بیانات یہ واضح کرتے ہیں کہ فرشتوں نے عملی طور پر بدر کی لڑائی میں قتال میں حصہ لیا تھا۔

 ایک صحابی کہتے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ یہ فرماتے ہیں کہ بدر میں ایک صحابی کسی مشرک کا پیچھا کر رہے تھے۔ ابھی وہ اس مشرک تک پہنچے نہیں تھے کہ اچانک وہ مشرک زمین پر گر پڑا اور ایک آواز سنائی دی۔ کہ آگے بڑھو وہ صحابی آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں۔ اس مشرک کی صورتحال تو اس کے ناک پھٹی ہوئی تھی۔ پورا چہرہ ایسا نیلا تھا جیسے کوڑوں کوڑوں کی زد میں آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی۔ تیسرے آسمان کے فرشتے تھے جنہوں نے اس صحابی کی مدد کی۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور حضرت ابوبکر کو ارشاد فرمایا کہ تم میں سے ایک کے ساتھ جبرائیل ہیں اور دوسرے کے ساتھ میکاءیل  ہیں۔ اور بھی متعدد روایات ہیں کہ کس طریقے سے اللہ تبارک و تعالی نے غزوہ بدر میں مسلمانوں کی نصرت فرمائی۔ لیکن یہ نصرتیں اس وقت تھی جب مسلمان اللہ کے دین کی مدد کے لیے اور دین پر عمل کے لیے تن من دھن سے آمادہ تھے۔ وہ دین کے لیے ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار تھے ان کے معاشرے میں عدل تھا انصاف تھا ظلم کا خاتمہ کر چکے تھے۔ بے حیائی کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ اب حیا کا دور دورہ تھا۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال تھا۔ نمازوں کا ماحول تھا۔ پیغمبر کی اطاعت ایک دوسرے سے آگے بڑھ کے کی جاتی تھی۔ تو اللہ تبارک و تعالی نے پھر اس طریقے سے دنیا میں انہیں سرفرازی دیتا ہے۔

 دفاعی میدان میں صحابہ کرام کو یہ برتری دی کہ کہا تم 313 مسلمان بدر کی لڑائی میں بے سر و سامان کی حالت میں میدان میں موجود ہیں۔ اور کہاں یہ تعداد بڑھتے بڑھتے فتح مکہ میں 10 ہزار تک پہنچی۔ حنین میں اس سے آگے پہنچی۔ تبوک میں 30 ہزار صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ مسلمانوں کی فوج میں موجود تھے۔ دفاعی طور پر اللہ نے مسلمانوں کو وہ استحکام عطا کیا کہ آگے جا کر ایران اور روم کی سلطنتیں مسلمانوں کی قدموں میں جھک گئی۔ یہ دفاعی میدان میں اللہ نے مدد کی معاشی میدان کو آپ دیکھیں تو جہاں مسلمان ایک ایک لقمے کے محتاج تھے۔ معاشی طور پر تنگ تھے لیکن جب انہوں نے اللہ کے دین کی مدد کی، تو اللہ تعالی نے معاشی طور پر مسلمانوں کو اتنی فراوانی عطا کی کہ حضرت عمر کے دور میں کسری کے دربار کے خزانے وہ سارے عمر فاروق کے سامنے رکھے ہوئے تھے اور حضرت عمر جھولیاں بھر بھر کر مسلمانوں کو جواہرات دے رہے تھے۔

 خلاصہ یہ ہے کہ جب مسلمان اللہ کے دین کی مدد کرے گا تو اللہ تبارک و تعالی بدلے میں اس کی مدد کرے گا۔ دفاعی میدان میں بھی مدد ہوگی، معاشی میدان میں بھی مسلمانوں کو فراوانی ملے گی۔ لیکن اس کے لیے مسلمانوں کو کچھ شرائط پوری کرنی ہوں گی۔ اللہ جل جلالہ کی اطاعت کرنی ہوگی۔ اپنی زندگی کو تبدیل کرنا ہوگا۔ انفرادی زندگی اگر میں اور آپ تبدیل کر لیں تو معاشرہ خود بخود تبدیل ہو جائے گا۔ اب میں اور آپ یہ چاہتے ہیں کہ حکومت تبدیلی لائے معاشرہ تبدیل ہو جائے۔ میں ویسا ہی رہوں، میں پنجاب پولیس کے شکوے کروں کہ وہ بڑی ظالم ہے جبکہ میں نے بہن کا حصہ دبایا ہوا ہے۔ دودھ میں ملاوٹ کروں، پھلوں میں میں خرد برد کروں اور جو میرا بس چلے ایک روپے کا ہی کیوں نہ ہو میں اس کو آگے پیچھے کرتا رہوں۔ پھر شکایت کروں کہ حکومت پنجاب پولیس کو تبدیل کیوں نہیں کرتی۔ تو یہ ہماری خام خیالی ہے پہلے مسلمان اپنے آپ کو تبدیل کرے گا انفرادی طور پر میں اپنے آپ پہ تبدیلی لاؤں گا، پھر اپنے گھر میں تبدیلی لاؤں گا، پھر اپنے محلے پر محنت کروں گا، اس طریقے سے سٹیپ بائی سٹیپ آگے بڑھوں گا تو اللہ تبارک و تعالی معاشرہ تبدیل کرتے ہیں ورنہ یہ جو آج کل کی صورتحال ہے یہ وہی صورتحال ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت میں ارشاد فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ تمہارے اوپر غیر مسلم طاقتیں پل پڑے گی۔ وہ تمہارے خلاف سازش ہی کریں گے اور ایک دوسرے کو تمہارے خلاف ایسی بلائیں گی جیسے دسترخوان پر ایک دوسرے کو بلایا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ یعنی اس وقت مسلمان کم ہوں گے جو غیر مسلم طاقت اس طریقے سے چیر پھاڑ کر کھانے کو تیار ہو….. تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تعداد میں زیادہ ہو گے لیکن وہ تعداد سمندر کی جھاگ کی طرح ہو گی۔ جس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی تمہارا رعب غیر مسلم سے ختم کر دے گا۔ اور اللہ تبارک و تعالی ان کے اندر وھن کو پیدا کردے گا۔ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ وھن کیا ہے تو آپ نے فرمایا دنیا سے محبت اور موت سے بھاگنا۔ بزدلی جب یہ مسلمانوں کے اندر پیدا ہوگی تو پھر یہ صورتحال پیدا ہوگی۔ جو میں اور آپ دیکھ رہے ہیں۔

 ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مومن نیک انسان برائی کے ماحول میں ہوگا۔ وہ اللہ سے دعا کرے گا اللہ کی جانب سے ارشاد ہوگا کہ تم اپنے بارے میں مانگو تو تمہیں عطا کریں گے۔ تمہارے ذاتی حواءج ہم پورے کریں گے لیکن معاشرے کے بارے میں تمہاری دعائیں قابل قبول نہیں ہیں شکوہ ہوتا ہے نا کہ اللہ کے نیک لوگ موجود ہیں۔ ان کی دعائیں کیوں نہیں قبول ہوتی بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی حرمین میں رو رو کے دعائیں ہوتی ہیں تو دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتی تو یہ حدیث سنیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ ایک نیک مسلمان مسلمان معاشرے کے لیے دعا کرے گا لیکن اللہ کی جانب سے ارشاد ہوگا کہ تم اپنے بارے میں مانگو۔ اپنے بارے میں مانگو گے، تو ہم قبول کریں گے۔ مسلمان معاشرے کے بارے میں تمہاری دعائیں ہمیں قبول نہیں ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے مجھے ناراض کیا تو میرے بھائی یہ وہی دور ہے جس میں میں اور آپ رہ رہے ہیں۔ اللہ کی مدد سے ہم محروم ہیں۔ محروم ہونے کی وجہ سے ہر محاذ پر مسلمان ذلیل اور رسوا ہے اللہ کی مدد سے محروم ہو کر صورتحال یہ ہے کہ دعائیں بھی اللہ تبارک و تعالی کے حضور قبولیت کا درجہ اختیار نہیں کرتی ان حالات کو اگر تبدیل کیا جا سکتا ہے تو اس ایک آیت کی روشنی میں کہ اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ تم اللہ کے دین کی مدد کرو اپنے آپ کو تبدیل کرو تو بدلے میں اللہ تمہاری تو بدلے میں اللہ تمہاری مدد کرے گا اللہ تبارک و تعالی مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *