نبی کریم ﷺ کا حلیہ مبارکہ

نبی کریم ﷺ کا حلیہ مبارکہ

اللہ تعالیٰ نےرسول اللہﷺ کوبے مثال حسن و جمال عطا فرمایا تھا۔صحابہ کرام نے اپنے انداز سے رسول اللہﷺ کا جمال بیان کیا ہے۔حضرت جابرکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر حسن و جمال دنیا میں نہیں دیکھا۔آپﷺ کے سامنے چاند کا حسن و جمال بھی ماند پڑجاتا تھا۔حضرت علی کا بیان ہے کہ ہم نے ایسی پاک صورت پہلے کبھی دیکھی،نہ آئندہ دیکھیں گے۔یہاں یہ پیش نظر رہے کہ صحابہ کرامj کے ہاں مبالغہ آرائی نہیں تھی۔نہایت صاف گو تھے۔ حقائق پر مبنی گفتگو کرتے تھے۔ اس لئے ان بیانات میں شاعری و مبالغہ آرائی نہیں، حقیقت کا بیان ہے۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو حسن و جمال ہی ایسا عطا فرمایا تھا۔ کہ جو بھی دیکھتا، مبہوت رہ جاتا۔ ملا علی قاری نے امام قرطبی سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کا مکمل جمال دنیا میں ظاہر نہیں فرمایا۔اگر آپﷺ کا مکمل جمال ظاہر کردیا جاتا۔تو کسی میں آپﷺ کی طرف دیکھنے کی صلاحیت نہ ہوتی۔
ابن حجر نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو چہرے اور آواز کا حسن عطا فرمایا تھا۔اور تمہارے نبی ﷺ چہرہ انور کے جمال اور ابن حجر نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو چہرے اور آواز کا حسن عطا فرمایا تھا۔اور تمہارے نبی ﷺ چہرہ انور کے جمال اور آواز کی خوبصورتی میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ جمال محمدی کو حضرت عائشہ سے بہتر کون بیان کرسکتا ہے۔ام المومنین فرماتی ہیں۔
لَوْ سَمِعُوا فِي مِصْرَ أَوْصَافَ خَدِّهِ
لَمَا بَذَلُوا فِي سَوْمِ يُوسُفَ مِنْ نَقْدِ
لَوَّامِيْ زلِيخَا لَوْ رَأَيْنَ جَبِينَهُ
لَآثَرْنَ بِالْقَطْعِ الْقُلُوبَ عَلَى الْأَيْدِي
ترجمہ:’’ مصر والے اگر میرے محبوب کے رخسار مبارک کے اوصاف سُن لیتے تو حضرت یوسف کی قیمتیں لگانا بھول جاتے اور زلیخا کو ملامت کرنے والی عورتیں اگر میرے محبوب کی جبین مبارک کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے اپنے دل کاٹنے کو ترجیح دیتی۔‘‘
رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جمال عطا فرمایا تھا۔ جمال کو حسن پر برتری حاصل ہوتی ہے۔حسن رنگ کی سفیدی، جاذبیت اور ظاہری نقشے کے خوبصورت ہونے کو کہتے ہیں۔جبکہ جمال مجموعہ قد کے تناسب،اعضاء کے جوڑ بند کے درست ہونے اور اپنی جگہ موزوں ہونے کو کہتے ہیں۔گویا جمال جسم کے ہر حصے کے بے مثال ہونے سے عبارت ہے۔کہ ہر ہر عضو اتنا کامل ہو۔کہ اس سے آگے کمال کا تصور تک نہ ہو۔نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایساجمال عطا فرمایا تھا۔جس میں کائنات کا کوئی فرد آپﷺ کا شریک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام جب آپﷺ کا سراپا بیان کرتے ہیں۔تو ایک ایک عضو مبارک کی تعریف کرتے ہیں۔کہ بال مبارک ہلکا سا گھنگھریالا پن لئے ہوئےاوربے مثال تھے۔دندان مبارک آبدار موتیوں کی مانند تھے۔سفیدملیح چہرے کے ساتھ چمکدار دانت یوں لگتے جیسے یاقوت کے صندوق میں در نایاب ہوں۔آنکھیں بڑی ، سیاہ اور سرمگیں تھیں۔جن میں سرخ ڈورے تیرتے دکھائی دیتے۔ بصارت اس قدر طاقتور کہ آنحضرتﷺ اوج ثریا پر ستاروں کے جھرمٹ میں گیارہ ستاروںکو صاف اور واضح دیکھ لیتے۔
پیشانی مبارک کشادہ تھی۔سر مبارک بڑا تھا۔ ناک لمبی اور خمیدہ تھی۔ سینہ اور پیٹ برابر تھے۔سینہ مبارک کے اوپر والے حصے اور کندھوں پر چند بالوں کے سوابدن مبارک پر بال نہیں تھے۔پاؤں مبارک کے تلوے اتنے بھرپور اور ہموار تھے کہ زمین پر پاؤں کے نشانات میں یکسانیت ہوتی تھی۔ جسم مبارک کا بالائی حصہ لمبا تھا۔جب محفل میں تشریف فرما ہوتے تو سب سے نمایاں نظر آتے۔حضرت خدیجہ کے صاحبزادے ہند بن ابی ہالہ کے مطابق آنحضرتﷺ چودہویں کے چاند سے زیادہ حسین و جمیل تھے۔ حضرت ام مَعبد نےنہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں رسول اللہﷺ کا حلیہ بیان کیا ہے۔جس کا ترجمہ صفی الرحمٰن مبارکپوری کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:
’’چمکتا رنگ،تابناک چہرہ،خوبصورت ساخت،نہ توندلے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی۔جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر،سرمگیں آنکھیں،لمبی پلکیں، بھاری آواز،لمبی گردن،سفید و سیاہ آنکھیں،باریک اور باہم ملے ہوئےابرو، چمکدار کالے بال۔ خاموش ہوں تو باوقار، گفتگو کریں تو پرکشش۔ دور سے دیکھنے میں سب سے تابناک و پُرجمال، قریب سے سب سے زیادہ خوبصورت اور شیریں۔گفتگو میں چاشنی،بات واضح اور دو ٹوک،نہ مختصر نہ فضول،انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں۔درمیانہ قد، نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے،نہ لمبا کہ ناگوار لگے،دو شاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو سب سے زیادہ تازہ و خوش منظر ہے۔رفقاء آپ کے اردگرد حلقہ بنائے ہوئے،کچھ فرمائیں تو توجہ سے سنتے ہیں،کوئی حکم دیں تو لپک کے بجا لاتے ہیں، مطاع و مکرم،نہ ترش رو نہ لغو گو۔‘‘
ذیل میں رسول اللہﷺ کے حلیہ مبارکہ پر مشتمل شمائل ترمذی کی کچھ روایات درج کی جاتی ہیں۔
… عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ، وَلَا بِالْآدَمِ، وَلَا بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلَا بِالسَّبْطِ، بَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَلٰى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ، وَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً، وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ۔
ترجمہ:’’حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ نہ بہت لمبے قد کے تھے نہ پستہ قد(جس کو ٹھگنا کہتے ہیں ،بلکہ آپﷺ کا قد مبارک درمیانہ تھا) اور نیز رنگ کے اعتبار سے نہ بالکل سفید تھے چونے کی طرح نہ بالکل گندم گوں کہ سانولہ پن آجائے (بلکہ چودھویں رات کے چاند سے زیادہ روشن پرنور اور ملاحت لئے ہوئے تھے)حضوراکرم ﷺ کے بال نہ بالکل پیچیدہ تھے اور نہ سیدھے تھے (بلکہ ہلکی سی پیچیدگی اور گھنگریالا پن تھا) چالیس سال کی عمر ہونے پر اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو نبی بنایا، اور پھر دس برس مکہ مکرمہ میں رہے ،اس مدت کے درمیان میں حضور اقدس ﷺ پر وحی بھی نازل ہوتی رہی،اس کے بعد دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور پھر ساٹھ سال کی عمر میں حضور اقدسﷺ نے وصال فرمایا،اس وقت آپ ﷺ کے داڑھی اور سر مبارک میں بیس بال بھی سفید نہ تھے ۔‘‘
ملاحظہ: اس روایت میں رسول اللہﷺ کی عمر شریف ساٹھ برس اوربعثت کے بعد مکہ مکرمہ میں آنحضرتﷺ کا قیام دس برس بتایا گیا ہے۔حالانکہ مشہور روایات کے مطابق نبی کریمﷺ کی عمر شریف تریسٹھ برس اور مکہ مکرمہ میں آنحضرتﷺ کا قیام نبوت کے بعد تیرہ برس تھا۔کسور کا بیان ترک کرنا اہل عرب کے ہاں رائج تھا۔اس روایت میں حضرت انس نے اسی رواج کے مطابق کسر کو ترک کرتے ہوئے تیرہ کی بجائے دس اور تریسٹھ کی بجائے ساٹھ ذکر کردیا۔
… عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبْعَةً، لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ، حَسَنَ الْجِسْمِ، وَكَانَ شَعْرُهُ لَيْسَ بِجَعْدٍ وَلَا سَبْطٍ، أَسْمَرَ اللَّوْنِ، إِذَا مَشٰى يَتَكَفَّأُ۔
ترجمہ: ’’حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ درمیانہ قد تھے ،نہ زیادہ طویل ،نہ پستہ قامت، نہایت خوبصورت معتدل بدن والے، حضوراقدس ﷺ کے بال نہ بالکل پیچیدہ تھے اور نہ بالکل سیدھے (بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی اور گھنگریالا پن تھا) آپﷺ گندمی رنگ تھے ۔جب حضوراقدسﷺ راستہ چلتے تو آگے جھکتے ہوئے چلتے۔
… عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مَرْبُوعًا بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، عَظِيمَ الْجُمَّةِ إِلَى شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ الْيُسْرَى، عَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، مَا رَأَيْتُ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ۔
ترجمہ: ’’حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ ایک مردِ میانہ قد تھے(قدرے درازی مائل جیسا کہ پہلے گزر چکا)آپ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان دیگر لوگوں کی بہ نسبت قدرے زیادہ فاصلہ تھا (جس سے سینہ مبارک کا چوڑا ہونا بھی معلوم ہوگیا)گنجان بالوں والے تھے جو کان کی لو تک آتے تھے ،آپ ﷺ نےایک سرخ( دھاری دار )جو ڑا (یعنی لنگی اور چادر) زیب تن فرمایا تھا ،میں نے آپﷺ سے زیادہ حسین کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘‘
نوٹ: حضرت براء نے اس روایت میں ’’کوئی چیز‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا۔یعنی انسان تو ایک طرف،چاند اور خوبصورتی کے دیگر مروجہ معیارات میں سے کوئی چیز رسول اللہﷺ کے جمال کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔چاند کی مثال محض سمجھانے کے لئے دی جاتی ہے۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ چاند کو رسول اللہﷺ کے حسن و جمال سے کوئی نسبت نہیں۔
… عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ إِذَا وَصَفَ رَسُولَ اللَّهِﷺ قَالَ: “لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِﷺ بِالطَّوِيلِ الْمُمَغِطِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ، وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ، لَمْ يَكُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلَا بِالسَّبْطِ، كَانَ جَعْدًا … عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ إِذَا وَصَفَ رَسُولَ اللَّهِﷺ قَالَ: “لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِﷺ بِالطَّوِيلِ الْمُمَغِطِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ، وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ، لَمْ يَكُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلَا بِالسَّبْطِ، كَانَ جَعْدًا رَجِلًا، وَلَمْ يَكُنْ بِالْمُطَهَّمِ وَلَا بِالْمُكَلْثَمِ، وَكَانَ فِي وَجْهِهِ تَدْوِيرٌ أَبْيَضُ مُشَرَبٌ، أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ، أَهْدَبُ الْأَشْفَارِ، جَلِيلُ الْمُشَاشِ وَالْكَتَدِ، أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبَةٍ، شَثْنُ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، إِذَا مَشَى تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ فِي صَبَبٍ، وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا، بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ، وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، أَجْوَدُ النَّاسِ صَدْرًا، وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً، وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيكَةً، وَأَكْرَمُهُمْ عِشْرَةً، مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ، يَقُولُ نَاعِتُهُ:لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ: ’’ابراہیم بن محمد جو حضرت علی کی اولاد میں سے ہیں (یعنی پوتے ہیں)وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی جب حضور اقدسﷺ کے حلیہ کا بیان فرماتے تو کہا کرتے تھے کہ حضور اقدس ﷺ نہ بالکل دراز قامت تھے ،نہ زیادہ پستہ قد،بلکہ میانہ قد تھے۔آپ ﷺ کے بال مبارک نہ بالکل پیچیدار تھے، نہ بالکل سیدھے۔ بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لئے ہوئے تھے۔ نہ آپﷺ موٹے بدن کے تھے نہ گول چہرے والے۔ البتہ تھوڑی سی گولائی آپ ﷺکے چہرے مبارک میں تھی (یعنی چہرہ انور نہ بالکل گول تھا نہ بالکل لمبا بلکہ دونوں کےدرمیان تھا)۔حضور اقدسﷺ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا۔آپﷺ کی مبارک آنکھیں بالکل سیاہ تھیں اور پلکیں دراز۔بدن کے جوڑوں کے ملنے کی ہڈیاں موٹی تھیں(مثلاً کہنیاں اور گھٹنے)اور ایسے ہی دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ بھی موٹی اور پرگوشت تھی۔آپﷺ کے بدن مبارک پر (معمولی طور سے زائد)بال نہیں تھے(یعنی بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ انکے بدن پر بال زیادہ ہوجاتے ہیں ،حضور اقدسﷺ کے بدن مبارک پر بازو،پنڈلیوں وغیرہ کے علاوہ اور کہیں با ل نہیں تھے)آپﷺ کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی ،آپﷺ کے ہاتھ اور قدم مبارک پُر گوشت تھے ،جب آپﷺ تشریف لے جاتے تو قدموں کو قوت سے اٹھاتے، گویاکہ پستی کی طرف چل رہے ہیں۔ جب آپﷺ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدن مبارک کے ساتھ توجہ فرماتے(یعنی یہ کہ صرف گردن پھیر کر کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اس لئے کہ اس طرح دوسرے کے ساتھ لاپرواہی ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات متکبرانہ حالت ہوجاتی ہے بلکہ سینہ مبارک سمیت اس طرف توجہ فرماتے) آپ ﷺکے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپﷺ انبیاء کرام کا سلسلہ ختم کرنے والے تھے۔ آپﷺ سب سے زیادہ سخی دل والے تھے، اور سب سے زیادہ سچی زبان والے۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت والے تھے اور سب سے زیادہ شریف گھرانے والے تھے (غرض دل وزبان،طبیعت و خاندان، ذاتی و نسبی اوصاف، ہر چیز میں سب سے افضل تھے)آپﷺ کو جو شخص یکایک دیکھتا مرعوب ہوجاتا تھا،(یعنی آپ ﷺکا وقار اس قدر زیادہ تھا کہ اچانک دیکھنے والا رعب کی وجہ سے ہیبت میں آجاتا تھا ) البتہ جو شخص پہچان کر میل جول رکھتا تھا وہ آپﷺ کے اخلاق کریمہ کا گھائل ہوکر آپﷺ کو محبوب بنا لیتا تھا۔ آپﷺ کا حلیہ بیان کرنے والا صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے حضور اقدسﷺ جیسا باجمال و باکمال نہ حضوراکرمﷺ سے پہلے دیکھا ،نہ بعد میں دیکھا۔‘‘
…عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ:رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ، وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَإِلَى الْقَمَرِ، فَلَهُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ۔
ترجمہ: ’’حضرت جابربن سمرۃ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ چاندنی رات میں حضور اقدس ﷺ کو دیکھ رہا تھا۔ حضور اقدس ﷺ اس وقت سرخ جوڑا زیب تن فرما ئے ہوئےتھے،میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی آپﷺ کو،بالآخر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ حضور اکرم ﷺ چاند سے کہیں زیادہ حسین اور منور ہیں۔
… عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ: أَكَانَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ السَّيْفِ؟ قَالَ:لَا، بَلْ مِثْلَ الْقَمَرِ۔
ترجمہ:’’ ابو اسحٰق کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت براء h سے پوچھا کہ کیا حضور اقدس ﷺ کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح شفاف تھا ،انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ بدر کی طرح روشن گولائی لئے ہوئے تھا۔‘‘
وضاحت: تلوار کی تشبیہ میں یہ نقصان تھا کہ اس سے زیادہ طویل ہونے کا وضاحت: تلوار کی تشبیہ میں یہ نقصان تھا کہ اس سے زیادہ طویل ہونے کا شبہ پیدا ہوتاتھا۔نیز تلوار کی چمک میں نورانیت کی بجائے خالص سفیدی غالب ہوتی ہے۔حضرت براء نے اسلئے چاند سے تشبیہ دی۔یہ تشبیہات بات سمجھانے کے لئے ہیں۔ورنہ ایک کیا،ہزار چاند مل کر بھی رسول اللہﷺ جیسی نورانیت سے خالی رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!