نبی کریم ﷺ کی گفتگو کے انداز

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا، قَالَتْ:’’مَا كَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ هَذَا، وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ يُبَيِّنُهُ، فَصْلٌ، يَحْفَظُهُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ۔‘‘ (ترمذی،محمد بن عیسی الترمذی، م:279ھ،سنن الترمذی،رقم الحدیث:5/3639، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، مصر،ط: الثانية، 1395 ھـ)

مفہوم حدیث:
حضرت عائشہ کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ نبی کریم ﷺ تم لوگوں کی طرح مسلسل تیزی کے ساتھ گفتگو نہیں فرماتے تھے۔ بلکہ آپ ﷺ کی گفتگو میں
ہر لفظ اس طرح جدا جدا ہو ا کرتا کہ سننے والا شخص اس کو یاد بھی کرسکتا تھا۔
تشریح:
نبی کریم ﷺ کی گفتگو کا انداز اس قدر دلکش تھا کہ مخاطب اس کو سنتے ہی اپنے د ل میں بسا لیا کرتا ۔آپ ﷺ کی گفتگو نہ اس قدر طویل ہوتی کہ سننے والا اُکتا جائے ،اور نہ اس قدر مختصر ہوتی کہ سننے والے کو سمجھ ہی نہ آئے۔نبی ﷺ نہایت اعتدال اور توازن کے ساتھ کلام فرماتے تھے۔
چنانچہ اس روایت میں آپ نے سنا کہ حضرت عائشہ k نبی کریمﷺ کا طرز تکلم بیان فرما رہی ہیں۔کہ نبی کریم ﷺ کی گفتگو کے انداز میں تیزی نہیں تھی۔بلکہ آپ ﷺ جب بات چیت فرماتے تو ہر لفظ جدا جدا کر کے ادا فرماتے۔یہاں تک کہ سننے والا اگر چاہتا تو اس کو سن کر یاد بھی کرلیتا۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ بعض اوقات مخاطب کی ضرورت کے لئے ایک بات کوتین با ر بھی دہرایا کرتے۔(ترمذی،3640)
حضرت عبداللہ بن عباس h نبی کریم ﷺ کے کلام کی خوبصورتی کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ گفتگو فرماتے، تو ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے نبی کریم ﷺ کے دندان مبارک سے نور پھوٹ رہا ہو۔(سنن الدارمی،59)
یہ ہمارا بنیادی فرض ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک ایک عادت کو پڑھیں اور پھر اس پر عمل کریں، یہ ایمان کا تقاضا ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!