مصیبت کے آغاز سے ہی صبر کرنا چاہئے

مصیبت کے آغاز سے ہی صبر کرنا چاہئے

عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَقُولُ اللہُ سُبْحَانَهُ: ’’ابْنَ آدَمَ إِنْ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى، لَمْ أَرْضَ لَكَ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ۔‘‘ (ابن ماجہ،ابو عبداللہ محمد بن یزید،م:273ھ،سنن ابن ماجہ ،رقم الحدیث:1597، ص:1/509، دار احیاء الکتب العربیہ)
مفہوم حدیث:
ایک حدیث قدسی میں نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیںجس کا مفہوم یہ ہے۔ کہ اے آدم کے بیٹے اگر تم مصیبت کے ابتدائی وقت پر صبر کرو اور مجھ سے ثواب کی امید رکھو تو میں تمہارے لیے جنت سے کم اجر پر راضی نہیں ہوگا ۔
تشریح:
یہ دنیا انسان کے لئے ایک امتحان گاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہاں آزمائش کے لیے بھیجا ہے۔ مختلف طریقوں سے انسان کو آزمایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار انسان پر مصیبت بھیج کر اس کی آزمائش کی جاتی ہے۔ گھریلو معاملات میں تنگی پیدا ہوجاتی ہے ، یا رزق میں تنگی آجاتی ہے، ماحول میں گھٹن کا سامنا انسان کوکرنا پڑتا ہے۔ اس قسم کی مصیبت کا شکار کرنے کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ انسان کا ردعمل کیا ہے، اگر انسان صبر سے کام لے تو اس کے لیے بڑا اجر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۱۰
(سورۃ الزمر:10)
’’صبر کرنے والوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ بغیر حساب کے اجر عطا فرمائیں گے۔‘‘
یعنی دیگر لوگوں کو کسی معیار کے مطابق اجر دیا جائے گا۔ مگر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بغیر کسی قسم کے حساب سے اپنی بارگاہ رحمت سے اجرعطا فرمائیں گے۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ جب کسی آدمی کے بیٹے کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ تم نے میرے بندے کے بیٹے کی جان قبض کر لی؟تو وہ کہتے ہیں کہ جی کر لی۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ تم نے اس کے جگر کا ٹکڑا اس سے لے لیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جی لے لیا۔پھر اللہ تبارک وتعالیٰ دریا فت فر ماتے ہیں کہ میرے بندے نےپھر کیا کیا،اس کا رد عمل کیا تھا ؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ آپ کے بندے نے آپ کی حمد و ثناء کی ،اس کے بعد ’’اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ‘‘پڑھا تو اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے بندے کے لیے جنت میں ایک محل بنا دو،اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو۔(ترمذی :1021)
اس قسم کی اور بھی روایات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان مصیبت و صدمے کے وقت بغیر بے صبری کا مظاہرہ کیے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرے،اس کو برداشت کرے اور صبر کرے ،چاہے مصیبت کسی بھی قسم کی ہو ،جانی نقصان ہو ،مالی نقصان ہویا اور کسی قسم کی مصیبت ہو ۔انسان اس پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانیاں فراہم کرتے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!