کھانا کھلانے کی فضیلت

کھانا کھلانے کی فضیلت

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ قَالَ: ’’تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ۔ (بخاری،محمد بن اسماعیل البخاری،م:256ھ،صحیح البخاری،رقم الحدیث:12، ص:1/12، دار طوق النجاہ،ط:1422ھ)

مفہوم حدیث:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا، اسلام کے اعمال میں سے سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر ایک کو سلام کرنا خواہ وہ تمہیں جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔

تشریح:
اسلام میں مخلوقِ خدا کی خدمت کو اہم مقام حاصل ہے۔مخلوق کی خدمت خالق تک پہنچنے کا آسان راستہ ہے۔اسلامی تعلیمات اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ مخلوق کی خدمت کے حوالے سے بظاہر معمولی نوعیت کے امور کو بھی باقاعدہ موضوع بنا کر سمجھایا گیا ہے۔اس روایت میں بھی دو ایسے آسان افعال کا ذکر ہے،جن کا تعلق مخلوقِ خدا کی خدمت سے ہے۔
یہ نہایت آسان ہے کہ آپ راستے میں آتے جاتے کسی کو سلام کریں، خواہ آپ اس کو جانتے ہوںیانہ جانتےہوں۔ اسی طرح بندوں کو کھانا مہیا کرنا بھی نہایت عظیم عمل ہے۔
کھانا کھلانا ایساعمل ہےکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ اس کی تاکید فرمائی ہے، اور استطاعت کے باوجود لوگوں کو کھانا نہ کھلانے پر مذمت بیان فرمائی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ایک جگہ جنتی لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیںکہ یہ جنتیوں کا ایک نمایاں وصف ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔اہلِ جہنم کے نمایاں اوصاف بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کی آیت ہے:
مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۝۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۝۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۝۴۴ۙ (سورۃ المدثر:۴۲ تا ۴۴)
’’جب جہنمی لوگوں سے سوال ہوگا کہ تم کو جہنم میں کس چیز نے  پہنچایا ہے؟ تو وہ جواب میں کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے  تھے اور مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔‘‘
ان دونوں آیات میں یہ واضح کردیا کہ کھانا کھلانا اہل جنت کے اوصاف میں سے ہے اور کھانا نہ کھلانا یا بخل کرنا اہلِ جہنم کے اوصاف میں سے ہے۔ معاملہ میرے اور آپ کے ہاتھ میں ہے کہ ہم جنتیوں کا وصف اختیار کرتے ہیں جا جہنمیوں کا۔نیز یہ بھی سمجھ لیجئے کہ کھانا کھلانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی کو مہنگا کھانا کھلائیں یا پرتکلف ڈش کھلائیں۔ بلکہ یہ تو آپ کی وسعت پر ہے کہ آپ کتنا اختیار کرتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کے وسعت کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے جس شخص کا جتنا بس چلے، جتنا اس کا اختیار ہو اسی قدر وہ لوگوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!