توکل کی حقیقت

توکل کی حقیقت

عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لو أنكم كنتم توكلون على اللہ حق توكله لرزقتم كما يرزق الطير تغدو خماصا وتروح بطانا۔ (ترمذی ،محمد بن عیسی الترمذی م: 279ھ ،جا مع الترمذی،رقم الحدیث: 2344،ص: 151،ج: 4 ،دار الغر ب الاسلامی -بیروت)

مفہوم حدیث:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا اگر تم اللہ جل جلالہ پر مکمل طریقے سے ایمان یا توکل کرتے تو تمہیں پرندوں کی طرح رزق دیتا ، جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ کے ساتھ واپس آتے ہیں ۔

تشریح:
اس روایت میں توکل کی اہمیت کا بیان ہے ،توکل ایمان کی حقیقت اور بنیاد ہے ۔انسان کا توکل جتنا زیادہ ہوتاہے اس قدر اس کا ایمان مضبوط اور حلاوت والا ہوتا ہے۔
توکل اللہ تعالیٰ پر بھروسے کو کہتے ہیں کہ اپنے شب و روز کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ،اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا یہ توکل کہلاتا ہے ۔لیکن ایک اہم بات سمجھ لیجیے کہ توکل بیکار بیٹھنے کا نام نہیں، بلکہ عمل اور محنت کر لینے کے بعد نتیجہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے کا نام توکل ہے۔ اس کی وضاحت یوں ہے کہ انسان کا جو بھی عمل ہوتا ہے وہ دو مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔
1۔آپ کی محنت
2۔اور محنت کے بعد اس کا فائدہ
محنت کے مرحلے میں یہ توکل نہیں ہے ،کہ میں گھر بیٹھ جاؤں، بیمار ہوں ،یا بیروزگار ہوں،اور میں گھر بیٹھ کر شفا یا رزق کا انتظار کرو ں،اس معاملے میں توکل نہیں ہوتا، بلکہ انسان نے محنت کرنی ہوتی ہے۔ اگر بیمار ہے تو شفا کے اسباب تلاش کرے، ڈاکٹر تلاش کرے، اگر بیروزگار ہے تو روزگار کا کوئی ذریعہ تلاش کرے،سبب اختیار کرنے کے بعد نتیجہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے یہ توکل ہے۔ توکل کرلینے کے بعد انسان کی دنیا بھی آسان اور آخرت بھی آسان ہو جاتی ہے۔
نبی کریم ﷺ سے ایک اور روایت ہے کہ ایک صحابی نبی کریم ﷺسے اونٹنی کے بارے میں پوچھتے میں کہ
’’یا رسول اللہﷺ! میں اونٹنی کو کھلا چھوڑ دو ں اور توکل کروں یا اس کو باندھ دوں اورتوکل کروں؟ ‘‘
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اِعْقِلْھَا ثُمَّ تَوَکَّلْ۔(سنن الترمذی :2517)
’’پہلے اونٹنی کو اچھے طریقے سے باندھواسکے بعد پھر توکل کرو‘‘۔
اس حدیث سے بھی یہی بات واضح ہوئی ہےکہ کہ جب کوئی بھی معاملہ ہو، انسان خود محنت کرے،مشقت اٹھائے، پھر اس کے بعد نتیجے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے اسی کا نام توکل ہے۔ اور اسی سے آدمی کے ایمان میں حلاوت پیدا ہوتی ہے ،اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!