فضول کاموں سے اجتناب کی اہمیت

فضول کاموں سے اجتناب کی اہمیت

عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’مِنْ حُسْنِ أِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہٖ۔‘‘ (ترمذی،محمد بن عیسیٰ الترمذی م:279ھ،سنن الترمذی،رقم الحدیث:2317، ص:558ج:4، ناشر:شرکہ مکتبہ المطبعہ مصطفیٰ البابی، مصر،ط:الثانیہ 1395ھ)

مفہوم حدیث:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کے بہترین مسلمان ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ فضول لایعنی کاموں کو چھوڑ دے۔
تشریح:
اللہ تبارک وتعالیٰ کی مکمل اطاعت اور فرماں برداری کا نام اسلام ہے کہ انسان ظاہری اور باطنی دونوں طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو۔باطنی طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے عقائد درست ہوں۔دین کے جو تصورات ہیں ان کے بارے میں انسان کے نظریات وہی ہوں، جو صحابہ کرامj کے ذریعہ میرے اور آپ تک پہنچے ہیں۔عقائد اور نظریات درست رکھنا یہ اللہ تعالیٰ کی باطنی طور پر اطاعت ہے۔
ظاہری طور پر اطاعت کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو جسم دیا ہے،اس کے مختلف اعضاء ہیں، ان اعضاء پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرے، ان کے ذریعے عبادات کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کی فکر کرے، یہی ایک اچھے مسلمان کا بنیادی حق ہے۔مقصد سے ہٹ کر کوئی بھی کام کیا جائے یا بات کی جائے جس کا براہ راست یا بلاواسطہ کوئی تعلق مقصد سے نہ ہو، تو وہ کام فضولیات کے زمرے میں آتا ہے۔
اس روایت میں نبی کریمﷺ نے بہترین مسلمان ہونے کی علامت یہ بیان فرمائی کہ وہ فضول اور لایعنی کاموں سے باز رہتا ہے۔ انسان کی یہ عمر جو اللہ تعالی نے اس کو دی ہے بڑی محدود ہے، اس کا ایک ایک لمحہ اپنے مقصد میں خرچ کرنا چاہیے۔اور مقصد سے ہٹ کر کوئی بات زبان سے نہ نکلے، اور مقصد سے ہٹ کر کوئی عمل انسان کے اعضاء سے سرزرد نہ ہو۔
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے فرماتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ میری والدہ نے کہا (هَنِیْأً لَكَ جَنَّۃ)اے کعب ! تمہیں جنت مبارک ہو۔
اب ان کی والدہ ان کو جنت کی خوشخبری دی رہی ہے، نبی کریم ﷺ نے یہ بات سن لی،تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ عورت کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر زبردستی کر رہی ہے۔ یعنی بغیر کسی دلیل کے اپنے بیٹے کے لیے جنت ثابت کررہی ہے۔یہ کون ہے؟ تو حضرت کعب نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !یہ تو میری والدہ ہے جنہوں نے مجھے جنت کی بشارت دی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی والدہ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ ہو سکتا ہے کہ کعب نے کبھی کوئی بات کی ہو جو لایعنی ہو، یا کبھی ایسی بات سے روکا ہو جس کا اس سے تعلق نہ ہو۔یعنی ممکن ہے کہ ان کی زبان اور اعضاء سے لایعنی گفتگو یا لا یعنی کام سر زد ہوئے ہوں۔
اندازہ لگائیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لایعنی بات اور کام کو جنت میں داخلے کے لیے رکاوٹ قرار دیا ہے۔ یعنی اگر انسان فضول و لایعنی باتوں کا عادی ہو،یا فضول کاموں کا عادی ہو، تو یہ اس کے لیے جنت میں داخلے سے ممانعت کا سبب بن سکتا ہے ۔اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم جو اپنے شب و روز میں فضول باتیں اکثر کرتے رہتے ہیں، یا فضول کام اکثر کرتے رہتے ہیں، ان سے انسان کو اجتناب کرنا چاہیے۔
یہی ایک حقیقی اور مکمل مسلمان کی علامات ہیں، اور یہی عادات انسان کو اپنے مقصد کے قریب کرتی ہے۔ اور جب انسان اپنے مقصد سے قریب ہوتا ہے تو پھر جنت میں داخلہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسان بنا دیتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!