نیا لباس پہننے کی دعا

نیا لباس پہننے کی دعا

عن أبي مطر، أنه رأى عليا أتى غلاما حدثا، فاشترى منه قميصا بثلاثة دراهم، ولبسه إلى ما بين الرسغين إلى الكعبين، يقول ولبسه: الحمد للّٰہ الذي رزقني من الرياش ما أتجمل به في الناس، وأواري به عورتي، فقيل: هذا شيء ترويه عن نفسك أوعن نبي اللہ صلى اللہ عليه وسلم؟ قال: ’’هذا شيء سمعته من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم‘‘ يقوله عند الكسوة: ’’الحمد للّٰه الذي رزقني من الرياش ما أتجمل به في الناس، وأواري به عورتي۔‘‘ (ابن حنبل ،احمد بن حنبل م: 241ھ،مسند احمد بن حنبل رقم الحدیث:1355، ص:458، ج:2،ناشر:مو سسہ الرسالہ ط:1421الاولیٰ ھ )

مفہوم حدیث:
حضرت ابو مطررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تین درہم کاکپڑا بازار سے خریدا ،اور اس کے بعد ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں ،جس نے مجھے زینت کے کپڑوں میں سے ایسا لباس عطا کیا جس کے ذریعے لوگوں میں زینت اختیار کرتا ہوں اور اپنا ستر چھپاتا ہوں۔ اور اس دعا کے پڑھنے کے بعد فرمایا کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہی دعا پڑھتے دیکھا تھا۔

تشریح:
اس روایت سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں، ایک یہ کہ انسان کو ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ بالخصوص اگر اللہ جل جلالہ انسان کو کسی نئی نعمت سے نوازے، جیسے نیا لباس آپ کو عطا کرے۔ توایسے موقعے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔ اور اگر ہوسکے تو اس موقع کی مناسبت سے جو الفاظ رسول اللہ ﷺسے منقول ہوں، ان مبارک الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں قناعت کا وصف اختیار کرنا چاہیے۔ قناعت کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جتنی بھی نعمتیں دی ہیں انسان ان پر اکتفا کرے، اور دنیاوی معاملات میں اپنے سے اوپر والے کونہ دیکھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ جو آپ نے سنا کہ تین درہم کا کپڑا خریدا،اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ تین درہم کا کپڑا اس زمانے میں بڑا معمولی لباس سمجھا جاتا تھا۔ اور بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ آپ کے دورِ خلافت سے متعلق ہے۔ یعنی امیرالمومنین ہیں، اسلامی ریاست کے حکمران ہیں، لیکن تین درہم کے معمولی لباس پر اکتفا کر رہے ہیں ۔
میرے اور آپ کے لئے اس میں بڑا اہم سبق ہے کہ ناشکری سے گریز کرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں ایک چیز عام ہے کہ نعمتوں کے لحاظ سے اپنے سے بڑے کو دیکھا جاتا ہے، کہ فلاں کی تنخواہ کتنی ہے ،فلاں کی کی آمدنی کتنی، ہے میری آمدنی کم ہے ،میرا لباس کم ترہے ۔جب انسان اس قسم کے خیالات دل میں لاتا ہے تو وہ نہ صرف ناشکری کرتا ہے، بلکہ اس کی زندگی کا اپنا پن ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے قناعت اختیار کرنی چاہیے۔ قناعت اختیار کرنے سے انسان اللہ جل جلالہ کا شکر گزار بندہ بنتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں اطمینان اور سکون آجاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!