اسلام کے دو اہم اعمال

اسلام کے دو اہم اعمال

عَنْ عَمَرِو بْنِ عَبَسَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللہِ، مَنْ مَّعَکَ عَلٰی ھٰذَا الْأَمْرِ؟ قَالَ:’’حُرٌّ وَ عَبْدٌ‘‘ قُلْتُ:مَا الْاِسْلَامُ؟ قَالَ: طِیْبُ  الْکِلَامِ، وَ اِطْعَامُ الطَّعَامِ۔‘‘ (ابن حنبل،احمد بن حنبل، م:241ھ،مسند احمد بن حنبل،رقم الحدیث:19435، ص:32/177، موسسہ الرسالہ، ط: الاولیٰ1421ھ)

مفہوم حدیث:
حضرت عمرو بن عبسہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میںنےرسول اللہﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! اسلام کیا چیز ہے؟ تو نبی کریم ﷺ نے  ارشاد فرمایا کہ اچھی گفتگو کرنا اور لوگوں کو کھانا کھلانا۔

تشریح:
انسان کو اللہ جل جلالہ نے قوت گفتار کی وجہ سے حیوانات سے ممتاز بنایا ہے کہ انسان اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے اور یہ گفتگو انسان کو دوسرے انسانوں سے بھی ممتاز کرتی ہے۔
گفتگوکسی بھی شخص کی شخصیت کاآئینہ دارہواکرتی ہےکہ اگرآپ کسی شخص سےبات کریں،اس کی گفتگوسنیںتوچندلمحات میںہی آپ اس کے اوصاف اور قباحتوں سے واقف ہوجائیںگے۔گفتگوکی اہمیت کی و جہ سےقرآن کریم نے مسلمانوںکوگفتگو کےآداب سکھائےہیں۔مثلاً ایک بہت بڑا ادبی اصول گفتگوکایہ ہےکہ جب انسان کوئی بات کرےتوصاف ستھری ا ور سیدھی بات کرے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا ۔
(سورۃ الاحزاب:۷۰)
’’اےلوگو! اللہ تعالیٰ سےڈرواورصاف ستھری اورسیدھی بات کیاکرو ۔‘‘

قولِ سدید ایسی بات کوکہتےہیںجوسیدھی سادھی ہوکہ مخاطب اس کوایک لمحے میں سن کرسمجھ لے۔ آج کل جوذومعنی اورلچھےدارقسم کی گفتگو کی جاتی ہے وہ شریعت کی نظرمیںناپسندیدہ ہے۔ یہ گفتگوکاپہلااصول ہے۔

ایک اصول گفتگو کا یہ ہے کہ کہ جب بھی بات کرنی ہوتوکوئی اچھی بات کی جائے۔نبی کریم ﷺ نےارشادفرمایاکہ یاتوخاموش رہو اوراگربات کرنی ہو تو کوئی اچھی بات کرو، جس سےمخاطب کوکوئی فائدہ ہو، اسکےپاس کوئی اچھامیسج جائے۔
ایک ادب گفتگوکاہےکہ جب بھی بات کرنی ہوںتولہجہ نرم ہوناچاہیے ۔
چنانچہ قرآن کریم میںاللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰd کا واقعہ نقل کیا، جب ان کوفرعو ن کے پاس بھیجا جارہا تھا توساتھ انہیںنصیحت فرمائی گئی کہ فرعون کے ساتھ نرم لہجہ میں گفتگوکرنا۔ فرعون اس روئےزمین پراللہ تعالیٰ کاسب سے بڑا باغی تھا۔جب اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰd جیسےپیغمبرکونرم لہجے میں گفتگوکرنےکی تلقین فرمائی،تو ایک مسلمان کے ساتھ دوران گفتگو لہجہ سخت کیسے رکھا جاسکتا ہے؟
اس لیےگفتگوکےمختلف آداب ہیں اوران میںسب سےزیادہ قابل توجہ ادب یہ ہے ،کہ لہجہ نرم رکھا جائے۔ وہ لوگ جن کی ما تحت میں کچھ افرادہوں، ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہےکہ اپنےماتحتوںکےساتھ ہرممکن طریقہ سے نرم اندازسے گفتگوکیاکریں۔
اس روایت سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اپنےملنے جلنے والے، اپنے بھائیوں،اورپڑوسیوںسےجب بھی گفتگوکرنی ہوتواپنے لہجے کو بطور خاص مدنظر رکھنا چاہیے کہ لہجے میں سختی نہ آئے۔
درس حدیث نمبر:39

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!