بوریت سے نجات کا نسخہ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ ”
(صحیح بخاری، رقم الحدیث:6412ـ)
مفہوم:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ صحت اور فراغت ایسی دو نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اکثرلوگ دھوکے کا شکار رہتے ہیں ۔
تشریح:
جدید دور میں انسان کو کچھ ایسے مسائل کا سامنا ہے جن کا وجود قدیم زمانے میں نہیں تھا ۔چنانچہ ان میں سے ایک مسئلہ بوریت کا ہے۔اکتاہٹ کو بوریت سے تعبیر کرتے ہیں ۔آپ اپنے دوستوں اور جاننے والوں سے اکثر سنتے ہوں گے کہ چھٹی کا دن میرا بہت بور گزرتا ہے ،یا شام کو میں بڑی بوریت کا شکار رہتا ہوں ۔ہر عمر کے لوگوں میں یہ مسئلہ موجود ہے ۔ اگر اپنی زندگی اللہ کے تعلیم کردہ فطری طریقے کے مطابق گزاری جائے تو اس بیماری سے انسان محفوظ رہتا ہے ۔مسلمان کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے حقوق رکھے ہیں ۔ ایک اللہ تعالیٰ کے حقوق اور دوسرے نمبر پر بندوں کے حقوق ۔
اللہ تعالیٰ کے حقوق میں نماز اور دیگر عبادات شامل ہیں۔ بندوں کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ خیرخواہی کی جائے۔اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔
وَخَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ(المعجم الاسط:5787)

مفہوم: لوگوں میں بہترین وہ ہے جو ان کے لئے زیادہ فائدہ مند ہو ۔
انسانوں میں سے ہر طبقے کے اللہ نے مختلف حقوق رکھے ہیں۔ان سب کا خلاصہ یہی ہے کہ ہر انسان کےساتھ خیر خواہی کی جائے۔جو انسان ان دونوں حقوق یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والا ہو،اس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اپنے اوقات سے وہ اکتاہٹ کا شکار ہونے لگے،یا بالفاظ دیگر وہ بوریت کا شکار ہو۔
فرض کریں چھٹی کا دن ہے تو ایک مسلمان شریعت کے ہدایت کردہ طریقہ کار کے مطابق صبح سویرے اٹھے فجر کی نماز باجماعت ادا کرے ،ایک پارہ تلاوت کر لے اور اس کے بعد اشراق کے نوافل ادا کرے۔چونکہ چھٹی کا دن ہے مسجد میں کچھ ذکر اذکار کر لے ،کچھ مزید تلاوت کر لے ،چاشت کے نوافل پڑھ لے ۔اس طرح دن کا ابتدائی حصہ وہ مسجد میں گزار لے گا ۔ حقوق اللہ اس نے اپنی طرف سے ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔اب باقی کا دن اس کے پاس ہے تو ا س میں وہ اپنے محلے کے لوگوں کو اپنی ذات سے نفع پہنچانے کا اہتمام کرے ۔ محلے میں کوئی بیوہ خاتون ہو گی جس کا سودا لانے کا کوئی انتظام نہیں تو ایک نوجوان اس کے گھر کا سودا سلف لادے ۔اپنے رشتہ داروں کے ساتھ میل جول رکھے۔اس قسم کے درجنوں کام ہیں جو چھٹی کے دن ہم کر سکتے ہیں ۔اور جو دو ذمہ داریاں اللہ نے ہمارے اوپر مقرر کی ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد، انکو پورا کرنے کا بندوبست کر سکتے ہیں ۔
اب سوچئے کے کوئی مسلمان جو اس طریقہ کار کے مطابق زندگی گزارے اس کی زندگی میں بوریت کہاں سے آئے گی؟ مگرمسئلہ یہ ہے کہ ہم نے شریعت کو پس پشت ڈالا ہوا ہے اور جدید تہذیب و طریقہ کار کو اپنے اوپر اس طرح حاوی کیا ہوا ہے کہ ہر طبیعت میں چڑچڑا پن موجود ہے ۔ایک نوجوان جب رات کو دیر تک جاگے گا ،موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین کو اپنے سامنے رکھے گا تو اس کو ایک تو بے خوابی کی شکایت ہو گی اور اگلے مرحلے میں اس کی طبیعت میں چڑچڑاپن آئے گا ،اس کا وقت نہیں گزرے گا ،نماز وہ نہیں پڑھتا ،تلاوت وہ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق نہیںہے ۔نتیجتاً اس کی زندگی میں بوریت بھی ہوگی اور وہ ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار بھی ہوگا۔
اس روایت میں نبی کریمﷺنے فراغت کے لمحات اور صحت کو ایک نعمت قرار دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ کیوں کہ جب آپ صحت مند بھی ہیں اور آپ کے پاس فراغت کے لمحات بھی ہیں تو آپ اپنی دونوں ذمہ داریوں کو (حقوق اللہ اور حقوق العباد کو) اچھے طریقے سے انجام دے سکتے ہیں ۔بیماری یا مصروفیت میں انسان بہت سارے خیر کے کام کرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔عام طور پر لوگ ان نعمتوں کی قدر نہیں کرتے،فراغت اور صحت کے لمحات کو فضول کاموں میں گزار لیتے ہیں،بعد میں احساس ندامت ان کو گھیر لیتا ہے۔اس لئے اس روایت میں ا ن نعمتوں کی قدر کرنے کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے اور ان کی قدر دانی کا طریقہ یہ ہے ان لمحات کو اللہ کی رضا کے کاموں میں خرچ کیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!