اسلام کے دو بنیادی اعمال اور گفتگو کے آداب

عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ قَالَ : أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: مَا الْإِسْلَامُ ؟ قَالَ : طِيبُ الْكَلَامِ ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ
(مسند احمد،رقم الحدیث:19435)
مفہوم حدیث:
حضرت عمرو بن عبسہ ؓکہتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ!اسلام کیا ہے؟تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اچھی گفتگو کرنا،دوسروں کو کھانا کھلانا۔
تشریح :
حضرت عمر بن عبسہ ابتداء میں مسلمان ہونے والے حضرات میں سے ہیں۔قبیلہ بنوسلیم سے ان کا تعلق تھا۔اصحاب صفہ میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے۔ایک مرتبہ انہوں نے عکاظ کے بازار میں نبی کریمﷺ سے کچھ سوالات کئے تھے۔جو امام احمد بن حنبل نے نقل کئے ہیں۔آج کے درس میں ان کے سوالات پر مشتمل طویل روایت کا ایک حصہ پڑھا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس روایت میں اسلام کے دو بنیادی امور کی نشاندہی کی ہے۔ بنیادی طور پر اسلام لوگوں کی خدمت کرنے کا نام ہے۔ اگر کسی سے ممکن ہو سکے تو وہ دوسروں کو کھانا کھلایا کرے ، دوسروں کی مالی خبرگیری کیا کرے۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم دوسروں کے ساتھ گفتگو اچھی کرنی چاہیے۔ دوسروں کے ساتھ اچھی گفتگو کرنا یہ وہ درجہ ہے جو ہر مومن اور ہر مسلمان حاصل کرسکتا ہے ۔کیونکہ اس پر کسی قسم کے اخراجات نہیں ہوتے ۔گفتگو انسان کا وہ امتیاز ہےجو اسے جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو قوت گویائی سے نوازا ہے وہ اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے۔ وہ جو کچھ محسوس کرتا ہے اس کا اظہار کر سکتا ہے۔ یہی گفتگو انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوا کرتی ہے۔ آپ جب کسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں توچند لمحات میں آپ اس کے اوصاف اور قبائح پر مطلع ہوتے ہیں اس کی گفتگو آپ کو بتا دیتی ہےکہ اس شخص کی خاصیت کیاہے ۔ اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن کریم میں جگہ جگہ اللہ تبارک و تعالی نے گفتگو کے آداب بیان فرمائےہیں۔ چنانچہ ایک جگہ بیان فرمایا کہ
قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا(الاحزاب70)
مفہوم: جب بات کرنی ہو، گفتگو کرنی ہوتو صاف ستھری اور سیدھی بات کیا کرو۔
جیسے کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ لچھے دار گفتگو کرتے ہیں ،ذو معنی بات ہوتی ہےکہ ایک جملے کے کئی مطلب ہوتے ہیں ۔شریعت میں اس قسم کی گفتگو کو ناپسند تصور کیا جاتا ہے۔ بات وہی پسندیدہ ہے جو صاف ستھری ہو ،جس کا ایک مطلب ہو ۔ سننے والا اُسے آسانی کے ساتھ سمجھ جائے۔ایک اصول یہ بیان فرمایا کہ
وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً(البقرۃ:83)
کہ لوگوں سے اچھی بات کیا کرو۔
جب بھی کوئی بات کرنی ہو تو آ دمی کوئی اچھی بات کرےکہ جس سے کوئی پیغام دوسروں تک پہنچ جائے۔ جس کا کوئی نہ کوئی مطلب نکلتا ہو۔ بیکار قسم کی باتیں کرنا نا پسند ہے۔ اس سے بہتر ہے ،کہ انسان خاموش رہے ایک جگہ ارشاد فرمایا
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا (سروۃ طہٰ: 44)
بات کرتے وقت اپنے لہجے کو نرم رکھا کرو۔
دو جلیل القدر انبیاء کرام حضرت موسی ؑاور حضرت ہارون ؑ جب فرعون کے دربار میں جارہے تھے توانہیںیہی نصیحت کی گئی کہ جب فرعون سے بات کرنی ہوتو اپنے لہجے کو نرم رکھنا۔ نرم لہجے میں اس سے گفتگو کرنا۔ فرعون اس وقت روئے زمین پر اللہ جل جلالہ کا سب سے باغی بندہ تھا۔ اگر اپنے سب سے بڑے باغی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو سخت لب و لہجہ گوارا نہیں ہے۔ تو ایک عام انسان جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم سخت لب و لہجہ کیسے اپنا سکتے ہیں؟۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی گفتگو اور بات چیت کو ان اصولوں کے دائرے میں لایاجائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!