فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کیجئے

عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺمَثلُ المؤمنين في تَوادِّهم ، وتَرَاحُمِهِم ، وتعاطُفِهِمْ . مثلُ الجسَدِ إذا اشتكَى منْهُ عضوٌ تدَاعَى لَهُ سائِرُ الجسَدِ بالسَّهَرِ والْحُمَّى(مسلم:2586)
مفہوم حدیث:
حضرت نعمان بن بشیر ؓکی روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ،کہ مومنین کی مثال باہمی پیار محبت، رحمت اور شفقت اورمہربانی برتنے میں ایک جسم کی طرح ہے ۔ جب جسم کا کوئی ایک عضو بیمار ہوتا ہےتو پورا جسم اس کے ساتھ اضطراب اور بخار میں شریک ہوتا ہے۔
تشریح:
اللہ تبارک و تعالی نے کلمہ گو مسلمانوں کو بھائی قرار دیا۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے ۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ(الحجرات:10)
مومن آپس میں بھائی ہیں
مسلمان خواہ دنیا کے کسی گوشے میں رہائش پذیر ہووہ آپس میں بھائی بھائی ہیںکہ ان کے مفادات مشترکہ ہیں۔نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی متعدد روایات میں اس مضمون کو بیان فرمایا ہے ۔ اس روایت میں بھی رسول اللہ ﷺ نے یہی پیغام دیاکہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جس طرح جسم کے مختلف اعضا ہوتے ہیں اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتو باقی جسم بھی اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ اگر آپ کے سر میں درد ہو یا محض ایک ناخن میں بھی درد ہوتو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے ، اضطراب کا شکار ہوتا ہے۔
مسلمان خواہ دنیا کے کسی گوشے میں رہائش پذیر ہو ۔اگر اسے کوئی تکلیف ہوتو دوسرے گوشے میں رہائش پذیر مسلمان کو اس کی تکلیف کا احساس کرنا چاہیے ۔ایک طویل عرصے تک عالم اسلام کے مسلمانوں نے ایک وحدت کے تحت وقت گزارا کہ مفادات مشترکہ ہوا کرتے تھے ۔ایک دوسرے کے درد میں شرکت ہوا کرتی تھی ۔اب صورتحال تبدیل ہے۔ ایک تو مادیت کا غلبہ ہےکہ ہر آدمی کو اپنے انفرادی مفادات کا احساس ہوتا ہے ۔انفرادی مفادات کے احساس نےہمیں اس قدر بے حس بنا دیاکہ پڑوسی کی خبر نہیں ہوتی ،بھائی کی خبر نہیں ہوتی ۔
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ قومی ریاستوں کے اپنے کچھ تقاضے ہیں۔چنانچہ آج دنیا کے مسلمان مختلف ممالک میں تقسیم ہیں،جغرافیائی سرحدیں الگ الگ ہیں۔اگرچہ دنیا کے مسلمانوں کے ممالک الگ ہیں،سرحدیں الگ ہیں،لیکن نظریاتی طور پر مسلمان آج بھی ایک ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی مسلمان ہیں، وہ رسول اللہﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں ۔اللہ تبارک و تعالی پر ایمان رکھتےہیں۔ تو یہ جو نظریاتی طور پر ہم ایک اخوت میں بندھے ہیںاس کا تقاضاآج بھی یہی ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ایک دوسرے کے درد کا احساس کریں ۔فلسطین کے مسلمان ایک عرصے سے اسرائیل کے ظلم و ستم کا شکار ہیں ۔ اسرائیل ان پر حملےکر رہا ہے ،بمباریاں ہو رہی ہیں۔بچے اور بوڑھے اور عورتیں لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔تو اس صورت حال میں ہم سب کا بنیادی فرض ہے کہ کم از کم ان کو اپنی دعاؤں میں تو یاد رکھیں۔
مسلمان کہیں پر بھی ہو وہ دوسرے مسلمان کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے اپنی حدتک کوشش تو کر سکتا ہے۔ اب ہم چونکہ مجبور ہیں،ہمارے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں تو کم ازکم دعا میں اور احساس میں تو ان کو شریک کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہاں پر بیٹھ کر ان کی تکالیف کا احساس ہواللہ کے حضور گڑگڑا کر ان مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کریں ۔ دنیا جہان میں کہیں پر بھی مسلمان تکلیف کا شکار ہو، تو اس کی تکلیف دور کرنے کے لیے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے ،ہمیں کرنا چاہیے۔ یہی اسلامی اخوت کا تقاضہ ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!