ایمان مومن کی زندگی کا محور ہے

ایمان مومن کی زندگی کا محور ہے
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَثَلُ الْمُؤْمِنِ ، وَمَثَلُ الْإِيمَانِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِي آخِيَّتِهِ يَجُولُ ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى آخِيَّتِهِ ، وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَسْهُو ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْإِيمَانِ ، فَأَطْعِمُوا طَعَامَكُمُ الْأَتْقِيَاءَ ، وَوَلُّوا مَعْرُوفَكُمُ الْمُؤْمِنِينَ
(صحيح ابن حبان،رقم الحدیث:616)

مفہوم حدیث:
حضرت ابو سعید خدری ؓ نبی کریم ﷺ سےننقل کرتے ہیں کہ مومن اور ایمان کی مثال ایسے ہے جیسے ایک گھوڑا کھونٹےکے ساتھ بندھا ہوا ہو ،اور وہ گھوم کر واپس اپنے کھونٹے کی طرف ہی آتا ہے ۔بے شک مومن غلطی کرتا ہے پھر واپس ایمان کی طرف ہی آتا ہے ،پس تم اپنا کھانا پرہیز گار اور نیک مسلمانوں کو کھلاؤاور مؤمنین کے ساتھ اچھائی کیا کرو۔
تشریح:
ایک مومن کا ایمان اس کے لیے اس کی زندگی کا مر کز اور مدار ہوتا ہے ، اس کی زندگی کے تمام معاملات ایمان کے گرد گھومتے ہیں وہ ہر وہ کام کرتا ہے جس کا ایمان تقاضا کرتا ہو اورہر اس کام سے اجتناب کرتا ہے جو ایمان کے منافی ہو اور ایمان کو کمزور کرتا ہو ۔اس کے تعلقات بھی ایمان ہی کے گرد گھومتے ہیں ۔چنانچہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا تعلق رکھتا ہے اور مسلمان کی خدمت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
اس روایت میں نبی کریم ﷺ نے مومن اور ایمان کے تعلق کو ایک مثال کے ساتھ بیان فرمایاکہ جیسے ایک گھوڑاکھونٹےکے ساتھ باندھا ہوتا ہے اور اپنے کھونٹے ہی کے گرد گھومتا رہتا ہے ۔ایسے ہی مومن بھی ایمان کے ساتھ بندھا ہوتا ہے وہ ایمان کے گرد گھومتا رہتا ہے ۔ایمان ہی اس کی زندگی کا مرکز اور مدار ہوتا ہے ۔لہذٰ ا تم مسلمانوں کے ساتھ تعلق مضبوط کرو یا مسلمانوں کی خدمت کرو ،کیونکہ تمھارے اور اس کے درمیان ایمان قدر مشترک ہے ۔خدمت نہ صرف انسان بلکہ جانور کی بھی کرنی چاہیے۔اسی طرح کھانا کھلانے کی قید صرف مسلمانوں تک ہی نہیں ،بلکہ اس کی فضیلت ہر انسان کے لیے ہے ۔خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو ۔صرف انسان ہی نہیں جانوروں کو بھی کھلانے کے فضائل موجود ہیں ۔البتہ مسلمانوں کو کھلانے کے فضائل زیاہ ہیں،خاص پور پر جو نیک ہوں ان کی خدمت کرنا اور ان کو کھانا کھلانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کھانا جسم کو توانائی فرہم کرتا ہے ،اگر آپ ایک نیک آدمی کو کھانا کھلائیں گے اور اس کھانے کی وجہ سے اس کے جسم میں توانائی پیدا ہوگی اور وہ اس توانائی کو اللہ کی اطاعت میں صرف کرے گا ۔تو کھانا کھلانے کی وجہ سے آپ بھی ایک طرح اس کی عبادت میں شریک ہوں گے اور آپ کو بھی ثواب ملے گا ۔دوسری بات یہ کہ جب وہ آپ کے ہاں سے کھانا کھائے گا تو وہ آپ کو دعا دے گا ،اس کی دعا اللہ کے ہاں مقبول ہوگی اور آپ کو بھی فائدہ ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ مہمان کو تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے میزبان کے لئے دعا کرو کہ اس کے ہاں نیک لوگ مہمان بنیں تاکہ اس کی سعادت میں اضافہ ہو۔روایت کا مفہوم ہے کہ جب نبی کریمﷺ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ آپ کی خدمت میں روٹی اور تیل لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا اور ان کے لئے یہ دعا فرمائی:
«أفطر عندكم الصائمون وأكل طعامكم الأبرار وصلت عليكم الملائكة» ”تمہارے پاس روزے دار افطار کیا کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں، اور تمہارے لیے دعائیں کریں“۔(ابوداوئود)
اس لئے نیک لوگوں کی خدمت کو ترجیح دینی چاہئے تاکہ ان کی دعا ملے اور ان کی نیکیوں میں بھی ہمارا حصہ ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!