نبی کریم ﷺ کا لباس

نبی کریم ﷺ کا لباس

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اہل عرب کا عمومی لباس دو چادروں پر مشتمل ہوتا تھا۔جس چادر سے جسم کے اوپر والے حصے کو ڈھانپتے اسے ردا کہا جاتا۔اور جس چادر سے جسم کے نچلے حصے کو ڈھانپا جاتا اسے ازار کہا جاتا۔نبی کریم ﷺ کا عمومی لباس بھی یہی تھا۔اسی لباس میں رسول اللہﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا۔ حضرت ابوبردہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے ہمیں پیوند لگی ہوئی ایک چادر اور موٹی لنگی دکھائی۔ اور فرمایا۔کہ آنحضرتﷺ کا وصال ان دو کپڑوں میں ہو۔

چادر مبارک لمبائی میں چار ہاتھ اور چوڑائی میں اڑھائی ہاتھ ہوتی۔ایک روایت کے مطابق لمبائی چھ ہاتھ اور چوڑائی تین ہاتھ اور ایک بالشت ہوتی۔

لباس کے معاملے میں نبی کریم ﷺ تکلف نہ فرماتے۔جس طرح کا بھی لباس میسر ہوتاآپﷺ زیب تن فرما لیتے۔عام طور پر نبی کریم ﷺ نے سادہ لباس زیب تن فرمایا ہے ۔لیکن قیمتی کپڑوں کا پہننا بھی نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے۔چنانچہ ایک روایت میںہے کہ نبی کریم ﷺ نے ستائیس اونٹنیوں کے عوض ایک جوڑا خریدکر زیب تن فرمایا۔ غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے ایک رومی جبـہ زیب تن فرمایا تھا،جو ظاہر ہے غیر ملکی اورقیمتی تھا۔ قیمتی لباس بھی نبی کریمﷺ نے پہنا ہے۔اگرچہ وقتی طور پر ہے۔البتہ عمومی لباس آپﷺ کا سادہ ہوتا تھا۔

                  آپﷺ کو سفید رنگ مرغوب تھا۔عموماً آپ کا لباس سفید رنگ کا ہواکرتا تھا۔البتہ بعض روایات میں نبی کریم ﷺ سے سبز اور سرخ (دھاری دار) رنگ کے جوڑے زیب تن فرمانا بھی ثابت ہے۔درج ذیل روایات ملاحظہ فرمائیے

حضرت ابی رِمثہ رفاعہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺکو دو سبز کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔

رسول اللہﷺ کو سرخ یمنی چادر مرغوب تھی۔ حضرت براء فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں نے آپ ﷺ کو سرخ (دھاریوں والی) چادر میں ملبوس دیکھا۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کوئی خوب صورت منظر نہیں دیکھا۔

نبی کریم ﷺ کا عمومی لباس دو چادروں پر مشتمل تھا۔البتہ آپﷺ سے کرتا پہننا بھی ثابت ہے۔شمائل ترمذی کی روایت ہے

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:كَانَ أَحَبَّ الثِّيَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺالْقَمِيص۔

ترجمہ: ’’حضرت امّ سلمیٰ  سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو تمام کپڑوںمیں سے کرتہ زیادہ پسند تھا۔

کُرتا آنحضرت ﷺ کوپسند تھا۔کیونکہ یہ جسم کو زیادہ بہتر طریقے سے ڈھانپ لیتا ہے۔آپ ﷺ کی قمیص کے جو اوصاف احادیث میں مذکور ہیں ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں

٭… آپ ﷺ کی قمیص کا رنگ عموماً سفید ہوا کرتا تھا۔
٭ …آپ ﷺ کی قمیص تقریباً نصف پنڈلی تک ہوا کرتی تھی۔
٭ … آپ ﷺ کی قمیص کی آستین عموماً پہونچے تک ہوا کرتی تھی۔ بعض روایات میں آستین کا انگلیوں تک ہونا بھی مذکور ہے۔علماء نے یوں تطبیق دی ہے۔کہ قمیص کی آستین کلائیوں تک ہوتی،البتہ جبہ یا عبا کی آستین انگلیوں تک ہوتی تھی۔
٭… قمیص اور قمیص کی آستین کشادہ ہوا کرتی تھی۔
٭… قمیص میں گریبان سینہ کے مقام پر ہوتا تھا ۔

سراویل (شلواریا پائجامہ) کا استعمال

رسول اللہﷺ کی عادت شریفہ لنگی باندھنے کی تھی۔سراویل (شلوار یا پائجامہ) پہننے کے بارے میں علماء کی آراء مختلف ہیں۔اتنی بات طے ہے۔کہ رسول اللہﷺ کے پاس شلوار موجود تھی۔جو بعض روایات کے مطابق آپﷺ کے ترکہ میں بھی شامل تھی۔

مسند ابی یعلیٰ میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے ۔وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کے ہمراہ ایک دن بازار گیا۔ آپﷺ ایک دکان میں تشریف فرما ہوئے ۔ ایک سرا ویل (پائجامہ) چار درہم میں خریدا۔ بازار کےایک وزان (تولنے والا) سے حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ۔وزن کرو اور خوب اچھی طرح ٹھیک وزن کرو۔ وزن کرنے والا کہنے لگا۔میں نے یہ بات کسی سے نہیں سُنی۔ حضرت ابو ہریرہ  نے اس سے فرمایا :افسوس ہے تجھ پر، تو نہیں جانتا آپ ﷺ ہمارے نبی ہیں۔ وہ شخص تراز وچھوڑ کر حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک کی طرف جھکا اور چاہا کہ دست ِ مبارک کو بوسہ دے۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنا دست ِ مبارک کھینچ لیااور فرمایا اے فلاں! ایسا عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔میں بادشاہ نہیں ہوں۔میں تمہی میں سے ایک ہوں۔ آپﷺ نے سراویل لے لی۔ حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ میں نے چاہا کہ میں اٹھالوں ۔آپﷺ نے فرمایا مال کا مالک زیادہ حق دار ہے کہ وہ خود اپنے مال کو اُٹھائے ۔البتہ اگر وہ کمزور یا مجبور ہو اور اٹھانے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ تو ایسے مسلمان بھائی کا مال لے جانے میں مدد دینی چاہئے۔ حضرتابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا پہننے کے لئے سراویل خریدی ہے ۔فرمایا ہاں! میں اسے سفر و حضر اور دِن اور رات میں پہنوں گا۔ اس لئے کہ مجھے خوب ستر پوشی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے بہتر ستر پوش دوسرا لباس نہیں دیکھا

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے سراویل (شلوار) خریدی ہے۔اور ظاہر ہے کہ پہننے کے لئے ہی خریدی ہوگی۔متعدد روایات میں رسول اللہﷺ سے شلوار پہننا بھی ثابت ہے۔نیز صحابہ کرام بھی رسول اللہﷺ کی اجازت سے پہنتے تھے۔

لنگی یا شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا

رسول اللہﷺ اپنی لنگی نصف پنڈلی تک رکھتے تھے۔ٹخنوں سے لنگی یا شلوار نیچے لٹکانا آپﷺ کو ناپسند تھا۔ ایک روایت میں آپﷺ کا ارشاد ہے۔جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا کپڑا (ٹخنوں سے نیچے) گھسیٹے۔ اللہ تعالیٰ اسکی جانب قیامت کے دن نظر عنایت نہیں فرمائے گا۔(بخاری:3665) اس روایت میں تکبر کی وجہ سے ٹخنوں سے لباس نیچے لٹکانے کی ممانعت بیان فرمائی گئی۔البتہ ایک روایت میں علی الاطلاق ممانعت بھی موجود ہے۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے کہنبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا۔کہ مسلمان کا لباس آدھی پنڈلی تک رہنا چاہئے۔نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان کی اجازت ہے۔لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو۔وہ جہنم کی آگ میں ہے۔

اس سلسلے میں درج ذیل روایت بڑی سبق آموز ہے

’’حضرت عبید بن خالد کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں جارہا تھا۔میں نے ایک شخص کو پچھلی جانب سے کہتے سنا۔کہ اپنی لنگی اوپر اٹھاؤ۔اس سے نجاست سے (نجاست ظاہری اور باطنی یعنی تکبر وغیرہ سے) نظافت زیادہ رہتی ہے۔اور کپڑا زمین پر گھسٹنے کی وجہ سے میلا اور خراب ہونے سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ میں نے کہنے والے کی طرف متوجہ ہوکر دیکھا تو وہ رسالت مآبﷺ تھے۔میںنے عرض کیا۔یارسول اللہﷺ! یہ ایک معمولی سی چادر ہی تو ہے ۔(یعنی اس سے تکبر کا کیا اندیشہ ہوسکتا ہے۔نیز اس کی حفاظت کی ضرورت ہی کیا ہے ) تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’اگر کوئی اور مصلحت تیرے نزدیک نہیں،تو کم از کم میرا اتباع تو کہیں گیا نہیں‘‘۔میں نے حضوراقدسﷺ کے ارشاد پر آپﷺ کی لنگی کو دیکھا تو وہ نصف پنڈلی تک تھی۔

اس روایت میں خط کشیدہ جملہ نہایت اہم ہے۔آپﷺ صحابی کو تلقین فرمارہے ہیں۔کہ وجوہات و مصالح کے پیچھے مت پڑو۔محض میری اتباع اور سنت پر عمل کرتے ہوئے لنگی یا شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھو۔

اس روایت میں خط کشیدہ جملہ نہایت اہم ہے۔آپﷺ صحابی کو تلقین فرمارہے ہیں۔کہ وجوہات و مصالح کے پیچھے مت پڑو۔محض میری اتباع اور سنت پر عمل کرتے ہوئے لنگی یا شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھو۔

نبی کریمﷺ کاٹوپی استعمال فرمانا

نبی کریمﷺ اپنے سر مبارک کو ڈھانپنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ اکثر ٹوپی یا عمامہ کا استعمال فرماتے۔ رسول اللہﷺ کے زمانے سے ٹوپی پہننا شرفاء کا طرز عمل رہا ہے۔ایک روایت میں ہدایت دی گئی ہے کہ ٹوپی گول ہونی چاہئے۔رسول اللہﷺ سے تین قسم کی ٹوپیوں کا استعمال ثابت ہے۔ایک قسم کی ٹوپی وہ جو سر سے چپکی ہوئی ہو،دوسری قسم کی وہ جو سر سے کسی قدر اونچی ہو،تیسری قسم وہ جو نسبتاً بڑی ہو اور کان بھی اس سے چھپ جاتے ہوں۔ البتہ ٹوپی کوئی بھی ہو،سنت ادا ہوجائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!