نبی کریم ﷺکے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو

نبی کریم ﷺکے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو

رسول اللہﷺ کا جسد اطہر ہمیشہ معطر رہتا۔آپﷺ جس راستے سے گزرتے۔وہ مہک اٹھتا۔صحابہ کرام راستے میں پھیلی خوشبو سے نبی کریم ﷺکاوہاں سے گزرنا معلوم کرلیتے۔یہ خوشبو رسول اللہﷺ کی ذاتی تھی۔آپﷺ کو عطر یا خوشبو لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ آپﷺ کا مبارک پسینہ منفرد خوشبو کا حامل تھا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت انس کی والدہ نے آپﷺ کا مبارک پسینہ ایک شیشی میں جمع کر رکھاتھا۔
آپﷺ کے مبارک ہاتھوں میں منفرد خوشبو ہوتی۔ہاتھ ملانے والا اپنے ہاتھ معطر کرکے لوٹتا۔اور عرصے تک یہ خوشبو محسوس کرتا۔ آپﷺ کے دست اقدس ریشم کی طرح ملائم تھے۔ان میں برف کی طرح خوشگوار ٹھنڈک رہتی۔دست اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو کے بارے میں درج ذیل روایات ملاحظہ ہوں۔

حضرت جابر بن سمرہ اپنے بچپن کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے، کچھ بچے موجود تھے۔ آپﷺ نے ان کو بلاکر ان کے چہروں پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا ، میرے رخسار پربھی نبی کریم ﷺ نے اپنا دست ِ اقدس پھیرا ۔ تو میں نے نبی کریمﷺ کے مبارک ہاتھوں میں (فرحت آمیز) ٹھنڈک محسوس کی۔ آپﷺ کا ہاتھ میں نے ایسا معطر پایا جیسے ابھی آپﷺ نےعطار کی ڈبیا سے ہاتھ نکالا ہو۔(مسلم :2329)

رسول اللہ ﷺ کا دست ِ اقدس ہمیشہ معطر رہا کرتا تھا چاہے آپ خوشبو لگاتے یا نہ لگاتے ۔جو شخص ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سے مصافحہ کرلیتا تو وہ دن بھر اپنے ہاتھوں میں نبی کریمﷺ کی خوشبو کو محسوس کرتا ۔اگر کسی بچے کے سر پر ہاتھ پھیر لیتے ،تو وہ اپنے سر کی خوشبو کی وجہ سے اپنے ہم جولیوں میں ممتاز ہوجاتا۔

حضرت مستورد بن شداد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں، کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔میں نے نبی کریم ﷺ کا دستِ اقدس تھاما ،تو مجھے سرکاردوعالم ﷺ کا دست ِ اقدس ریشم سے زیادہ نرم ملائم اور برف سے زیادہ ٹھنڈا لگا۔

حضرت ابو جحیفہ کی روایت ہے ۔کہ نبی ﷺ نے مسجد میں نماز پڑھائی اس کے بعد کھڑے ہوئے تو صحابہ کرام نبی کریم ﷺ سے ملنے لگے اور برکت کے لئے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ اپنے چہروں پر ملنے لگے، میں بھی حضوراکرمﷺ سے ملا، میں نے نبی کریم ﷺ کا دست ِ اقدس اپنے ہاتھوں میں تھاما ،تو میں نے آپﷺ کا دست اقدس برف کے اولوں سے زیادہ ٹھنڈا اور معطر پایا۔(مسلم :2329)

حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ بیمار تھا، نبی کریم ﷺ میری عیادت کیلئے تشریف لائے تو آپ ﷺ نے میرے سر اور سینے پر اپنا دست ِ اقدس شفقت کیلئے رکھا ،میں آج تک نبی کریم ﷺکے مبارک ہاتھ کا لمس اور اس کی ٹھنڈک اپنے جگر تک میں محسوس کرتا ہوں۔ (بخاری:5659)

ان خصوصیات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ کے مبارک ہاتھوں میں منفرد تاثیر رکھی تھی۔کتب حدیث اور سیرت میں مختلف واقعات ملتے ہیں۔جن میں نبی کریم ﷺ کےدست ِ اقدس کی تاثیر معجزاتی طور پر ظاہر ہوئی ہو۔درج ذیل روایات ملاحظہ ہوں:

غزوہ بدر میں حضرت عکاشہ بن محصن کی تلوار ٹوٹ گئی، نبی کریمﷺ نے ان کو ایک لکڑی عطا فرمائی، وہ لکڑی ان کے ہاتھ میں جا کر تلوار بن گئی ۔

غزوئہ اُحد میں ایک صحابی حضرت عبداللہ بن جحش کو حضوراکرامﷺ نے کھجور کی ایک خشک ٹہنی عطافرمائی، جو ان کے پاس جاکر تلوار کی صورت میں بدل گئی ۔

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ مجھے اسلام لانے کے بعد تین بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ رسول اللہﷺ کی رحلت،حضرت عثمان کی شہادت اور میرا توشہ دان۔ لوگوں نے پوچھا کونسا توشہ دان؟ تو فرمایا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔مجھ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا۔تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک توشہ دان میں کچھ کھجوریں ہیں۔فرمایا لے آؤ۔میں کھجوریں نکال کر لے گیا۔ رسول اللہﷺ نے اپنا دست مبارک ان پر رکھا اور فرمایا۔دس آدمیوں کو بلاؤ۔میں نے بلایا۔وہ آئے اور کھجوریں کھا کر سیر ہوکر چلے گئے۔د س دس کی جماعت نے باری باری وہ کھجوریں کھائیں ۔یہاں تک کہ پورا لشکر سیر ہوگیا۔ اور توشہ دان میں اب بھی کھجوریں باقی تھیں۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا۔ اے ابوہریرۃ! جب تمہارا دل چاہے اس توشہ دان میں ہاتھ ڈال کر کھجوریں نکال کر کھاتے رہو لیکن اس کو انڈیلنے سے پرہیز کرنا۔حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا۔پھر حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان  کے ادوار میں بھی کھاتا رہا۔جب حضرت عثمان شہید ہوگئے۔تو میرا مال چوری ہوگیا۔اس میں یہ توشہ دان بھی تھا۔میں تمہیں کیا بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کتنی کھجوریں کھائی ہونگی۔؟ دو سو وسق سے زیادہ کھائی ہونگی۔اس میں یہ توشہ دان بھی تھا۔میں تمہیں کیا بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کتنی کھجوریں کھائی ہونگی۔؟ دو سو وسق سے زیادہ کھائی ہونگی۔

ایک مرتبہ بارش میں حضرت قتادہ عشاء کی نماز میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا ۔نماز کے بعد میرے پاس آنا۔نماز کے بعد وہ حاضر ہوئے تو رسول اللہﷺ نے ان کو ایک لکڑی عطا فرمائی ۔اور فرمایا کہ یہ پکڑ لو یہ تمہیں (اس اندھیری اور طوفانی رات میں) روشنی دے گی۔

آپ ﷺ کے دست مبارک میں شفا تھی، غزوہ خیبر کے موقع پرجب حضرت علی المرتضیٰ  آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا تھے تو آپﷺ نے اپنا لعاب دہن ان آنکھوں میں لگا دیا۔جس سے حضرت علی المرتضیٰ  شفایاب ہوگئے۔

رسول اللہﷺ نے حضرت ابوزید انصاری کی داڑھی پر اپنا دست اقدس پھیرا۔ دست اقدس کے لمس کی برکت سے تقریباً سو(۱۰۰) سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔حضرت ابوزیدکی اپنی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہوجاؤ۔ پھر آپﷺ نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا کی: الٰہی! اِسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کردے۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے تقریباً سو (۱۰۰) سال سے زائد عمر پائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ ہی رہے، ان کاچہرہ آخر وقت تک بھی صاف اور روشن رہا۔

سفر ہجرت کے موقع پر رسول اللہﷺ حضرت ابوبکر، حضرت عامر بن فہیرہ اور حضرت عبداللہ بن اریقط (گائیڈ) کے ساتھ حضرت امّ مَعبد  کے پاس پہنچے۔اور ان سے گوشت اور کھجور خریدنا چاہا۔ لیکن ان کے پاس سے کچھ نہ ملا۔ ان کے خیمے میں ایک بکری پر آپﷺ کی نظر پڑی۔تودریافت فرمایا یہ بکری یہاں کیوں ہے؟ حضرت امّ مَعبد  نے جواب دیا: یہ بکری کمزور و لاغر ہونے کی وجہ سے دیگر بکریوں سے پیچھے رہ گئی اور یہ چل پھر بھی نہیں سکتی۔ حضور اقدسﷺ نے پوچھا: کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں۔ حضوراقدسﷺ نے فرمایا اگر اجازت ہوتو دودھ دوہ لوں؟ عرض کیا: میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان۔اگر آپﷺ اس سے دودھ دوہ سکتے ہیں۔ تو ضرور دوہ لیجئے۔نبی کریم ﷺ نےوہ بکری منگوائی۔ بسم اللہ پڑھ کر اس کے تھنوں پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا ۔ اُس نے نبی کریم ﷺ کے لئے اپنے دونوں ٹانگیں پھیلا دیں۔ رسول اللہﷺ نے بڑا برتن منگوایا۔اور اپنے دست اقدس سے اس قدر دودھ دوہا کہ برتن لبریز ہوگیا۔آپﷺ نےامّ مَعبد کو دودھ پلایا۔وہ سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا۔ سب سیر ہوگئے تو آخر میں آپﷺ نے دودھ نوش فرمایا۔ پھر دوسری بار آپﷺ نے دودھ دوہا۔یہاں تک کہ برتن بھر گیا۔ اور اس کو امّ مَعبد کے پاس رہنے دیا۔ پھر آپﷺ نے ان (امّ مَعبد) کو (مسلمان کرکے) بیعت کیا۔اور وہاں سے آگے تشریف لے گئے۔

حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتیک ابورافع یہودی کو جہنم رسید کرکے واپس آرہے تھے، کہ اُس کے مکان کے زینے سے گرگئے اور اُن کی پنڈلی ٹوٹ گئی۔ وہ بارگاہِ مصطفیٰﷺ میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی ٹانگ پھیلاؤ۔ وہ صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنا پیر پھیلادیا، حضور اقدسﷺ نے اس پر اپنا دست ِشفاء پھیرا، آپﷺ کے دست ِشفاء کے پھیرتے ہی میری پنڈلی ایسی درست ہوگئی جیسے کہ وہ کبھی ٹوٹی ہی نہ تھی۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!