راستے کے حقوق

راستے کے حقوق

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’إِيَّاكُمْ وَالجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ‘‘ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِيهَا، فَقَالَ: ’’إِذْ أَبَيْتُمْ إِلَّا المَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ‘‘ قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ’’غَضُّ البَصَرِ، وَكَفُّ الأَذَى، وَرَدُّ السَّلاَمِ، وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ المُنْكَرِ۔‘‘(بخاری،محمد بن اسمعیل بخاری،م: 256) صحیح البخاری-رقم الحدیث 6229،(ص :51ج :8) ناشر دارطوق النجاہ (ط :الاولیٰ 1422)

مفہوم حدیث:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا۔ راستے میں بیٹھنے سے پرہیز کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ!راستے میں بیٹھنا ہماری مجبوری ہے، کہ ہم اس میں کبھی کبھار بات چیت کر لیا کرتے ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ راستے میں بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کیا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ راستے کا حق کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ نظروں کو جھکائے رکھنا، گزرنے والوں کو تکلیف دینےسے پرہیز کرنا، سلام کا جواب دینا ،اچھا ئی کی تلقین کرنا اور برائی سے روکنا یہ راستے کے حقوق ہیں۔
تشریح:
ایک پرامن اور پرسکون معاشرے کی تشکیل اسلام کی اولین ترجیح ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے شریعت نے ہر چیز کے آداب اور حقوق مقرر کیے ہیں۔ انہی حقوق کی ادائیگی کا نام امن ہے ۔راستے سے انسانی ضروریات وابستہ ہیں اس لیے شریعت نے راستے کے بھی حقوق مقرر کیے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے اس فرمان میں راستے کے مختلف حقوق بیان فرمائے۔اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں اوائل اسلام میں صحابہ کرام معاشی لحاظ سے کچھ تنگ دست تھے۔ بیٹھنے کے لئے گھر میں جگہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ اگر کوئی مہمان یا ملاقاتی آ جاتا تو راستے میں کھڑےہو کر بات چیت ہو جاتی تھی ۔صحابہ کرامj کی اس مجبوری کے پیش نظر نبی کریم ﷺ نے راستہ میں کھڑے ہوکر بات چیت کی اجازت دی،لیکن ان شرائط کے ساتھ کہ نظریں جھکا کر رکھو،سلام کا جواب دیا کرو،اور گزرنے والے کو آپ کے کھڑے ہونے سے کوئی حرج نہ ہو،اچھائی کی تلقین کرتے رہو اوربرائی سے روکتے رہو۔ معلوم ہوا کہ اگر راستے کا استعمال اس طریقے سے کیا جائے، جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہو تو شریعت کی نگاہ میں یہ ناپسندیدہ ہے۔
ان تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنا طرز عمل بھی دیکھ لیں۔آئے دن راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔شادی بیاہ،سوگ،اور دیگر رسومات کے لئے راستے مصروف رکھنا ہماری عادت ہے۔اور اس کو ہم اپنا حق سمجھتے ہیں۔ہمارے اس عمل سے کتنے ہی راہ گیر متاثر ہوں،ہمیں پرواہ نہیں ہوتی۔یہ عادت ختم کرنی چاہئے۔اور لوگوں کے راستے کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!