مہمان کا اکرام

مہمان کا اکرام

وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ۔ (مسلم،مسلم بن حجاج القشیری(م :261ھ،صحیح المسلم، رقم الحدیث74،ص1/68، داراحیاء التراث العربی،بیروت)

مفہوم حدیث:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔
تشریح:
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ہر ایک بندے پر ایک دوسرے کے حقوق مقرر کیے ہیں۔ان حقوق میں سے ایک حق مہمان نوازی ہے۔ کہ اگر کوئی مہمان آپ کے پاس آتا ہے تو اس کا آپ کے اوپر حق ہے کہ آپ اس کا اکرام کریں۔اس کی مہمان نوازی کریں،شریعت کی تعلیمات بڑی آسان ہوا کرتی ہیں، شریعت آپ کو اس چیز کا پابند نہیں کرتی کہ آپ کوئی ایسا کام کریں جوآپ کے بس میں نہ ہو۔مہمان نوازی کے سلسلے میں بھی شریعت نے بڑی آسان تعلیمات دی ہیں کہ جو کچھ آپ کے بس میں ہے آپ مہمان کے لیے کریں ۔
حضرت سلما ن رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ
نَھَانَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَّتَکَلَّفَ لِلضِّیْفِ مَا لَیْسَ عَنْدَنَا۔ (مجمع الزوائد:13629)
’’نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ مہمان نوازی کے لیے ایسا کام نہ کریں جو ہمارے بس میں نہ ہو ، (تکلفات میں نہ پڑیں۔بلکہ جو کچھ گھر میں موجود ہو وہ مہمان کے سامنے لاکر حاضر کریں)۔‘‘
یہ شریعت کا ایک سیدھا سادہ اصول ہے،اس کے برعکس ہماری ترجیحات مختلف ہوتی ہیں ۔جب ہمارا کوئی مہمان ہم سے ملنے آتا ہے،اگر وہ ہماری جان پہچان کا ہو اس کے ساتھ دوستی ہوگی ،یا ہمارا کوئی مفاداس سے وابستہ ہوگا تو پھر اس کے لیے مختلف قسم کےتکلفات کئے جاتے ہیں، اور اپنی استطاعت سے بڑھ چڑھ کر اس کے لیے اہتمام کیا جاتا ہے۔اور بعض اوقات اس اہتمام کے سلسلے میں مشکلات بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔لیکن اگر کوئی غریب مسلمان ہم سے ملنے آئے جس سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو، تو بعض اوقات اس کو مہمان خانے میں بٹھانے سے بھی گریز کیا جاتا ہے،اس کے اکرام کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔
شریعت کی تعلیمات کا تقاضا یہ ہے کہ میں اور آپ اپنی ترجیحات تبدیل کریں، اگر کوئی ملنے کے لیے آپ کے گھر آتا ہے تو اس کو مہمان سمجھتے ہوئے اس کا حق ادا کریں،البتہ کسی تکلف میں نہ پڑیں ۔
حضرت سلمان فارسی h کا ایک واقعہ ہے کہ انکے پاس کچھ مہمان آئے،جو کچھ گھر میں موجود تھاانہوں نے مہمانوں کوپیش کیا۔ روایت میں آتا ہے کہ روٹی کے ساتھ نمک انہوں نے مہمان کی خدمت میں حاضر کیا اور فرمایا کہ ہمیں نبی کریم ﷺنے تکلف سے منع کیا ہے۔ تو یہ جو کچھ تھا آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ مہمان نے نمک میں ڈالنے کے لیے کوئی چیز مانگی جو حضرت سلمانh کے ہاں نہیں تھی، تو انہوں نے اپناوضو کرنے والا برتن سبزی والے کے پاس رہن رکھوا کر ان کا مطالبہ پورا کیا ۔(کھانے کے بعد) مہمان نے دعا کی کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے ہمیں موجودہ حالات پر قناعت کرنے کی توفیق عطا کی۔ تو حضرت سلمان hنے فرمایا کہ اگر تم موجود ہ رزق پر قناعت کرتے تو پھر میرا وضو کا برتن سبزی والے کے پاس نہ رکھا ہوتا ۔(مستدرک حاکم: 7146)
اس روایت سے یہ ادب معلوم ہوا کہ مہمان کو چاہئےکہ میزبان جو کچھ بھی پیش کرے، اسے محبت کے ساتھ قبول کرے، اور کسی قسم کی شکایت نہ کرے۔
مہمان اور میزبان کے سلسلے میں یہ بڑی سیدھی سادھی تعلیمات ہیں۔ اگر ان پر عملدرآمد ہو اور ہر آنے والے ملاقاتی کو اہمیت دی جائے، اللہ تعالیٰ کا بندہ سمجھ کراس کو مہمان کا حق دیا جائے، تو پھر معاشرے میں محبتیں پھیلتی ہیں اور لوگوں کے درمیان اچھے تعلقات پروان چڑھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!