خیانت سے بچیں

خیانت سے بچیں

قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الغُلُولَ فَعَظَّمَهُ وَعَظَّمَ أَمْرَهُ، قَالَ: ’’لاَ أُلْقِيَنَّ أَحَدَ كُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ، عَلَى رَقَبَتِهِ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللہِ  أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ، وَعَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللہِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ، وَعَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللہِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ، أَوْ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللہِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ۔‘‘ (بخاری ،محمد بن اسماعیل البخاری م: 256ھ،صحیح البخاری،رقم الحدیث :3073ص :74،ج:4/ناشر :دارطوق النجاہ،ط: الاولیٰ 1422ھ)

مفہوم حدیث:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا مفہوم ہےکہ نبی کریم ﷺایک مرتبہ خطبہ دینے کےلیے کھڑے ہوئےاورآپ نے غلول یعنی خیانت کا تذکرہ کیا۔اوراس کو آپ نےعظیم جرم اور بھاری گناہ قرار دیا،اور آپﷺ نے ارشاد فرمایاتم میں سے کوئی شخص قیامت میں مجھ سے اس حال میں نہ ملےکہ اس کی گردن پر بکریاں ممیا رہی ہوں،یا گھوڑے ہنہنا رہےہوں۔اور وہ مجھ سے کہےیا رسول اللہ میری مدد کیجیےاور میں اس سے کہوںمیں تمھارے معاملے میں کچھ اختیار نہیں رکھتاکیونکہ میں تم تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا چکا تھا۔اور اس کی گردن پر سونے یاچاندی کےٹکڑے لادے ہوں،اور وہ مجھ سے مدد طلب کرےاور میں اس سے کہوںکہ میں تمہارے معاملے میں کچھ اختیار نہیں رکھتامیں تو تم تک پیغام پہنچا چکا تھا۔اور یا اس کی گردن پرکپڑے کے ٹکڑےحرکت کررہے ہوں،اور وہ مجھ سے مدد طلب کرےاور میں اس سے کہوںمیں تمہارے معاملےمیںاختیار نہیں رکھتا میںتوتم تک پیغام پہنچا چکا تھا۔
تشریح:
قرآن کریم کی ایک آیت ہےکہ جو شخص خیانت کرے گاقیامت والے دن وہ اپنی خیانت کردہ ،یا چوری کردہ چیز کو لے کر حاضر ہوگا۔لفظ ِغلول خاص طور پرمال غنیمت میں چوری کو کہا جاتا ہے۔لیکن اس کا استعمال ہر قسم کی خیانت اور چوری میں ہوتا ہے۔شریعت نے مسلمان کی تربیت اس منہج پر کی ہےکہ مسلمان اعلیٰ قسم کا امین ہو۔ اس لیےرسول اللہ ﷺ نے خیانت کوجرم قرار دیا۔ آج جو روایت پڑھی گئی ہے،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چوری اور خیانت ایسا جرم ہے کہ اس گناہ کی نحوست کی وجہ سے وہ آدمی رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے بھی محروم رہے گا۔
رسول اکرم ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔اور اس میں خیانت کو آپ نے بد ترین جرم قرار دیا،اور مختلف اموال کا ذکرکیااس زمانے میں گھوڑے،مویشی،کپڑا اور سونے ہی کو مال سمجھا جاتا تھا۔ نبیﷺنے مال کی ان مختلف اقسام کاذکر فرمایا اور امت کو وصیت فرمائی کہ ایسا نہ ہوکہ تم دنیا میں چوری کرو،اور خیانت کرو،اور قیامت والے دن وہ مال تمہاری گردن میں لادا ہوا ہو۔چاہے وہ گھوڑے ہوں ،بکریاں ہوں،چاہے وہ سونا یا چاندی ہو، کپڑے ہوں،یا آج کل کے اعتبار سے کرنسی کی چوری ہو،خواہ کسی بھی قسم کی چوری ہو، قیامت والے دن انسان وہ مال اپنی گردن پر لاد کر حاضر ہوگا اور رسول اللہ ﷺ سے جب وہ امداد طلب کرے گایا شفاعت طلب کرے گا۔تو نبی کریم ﷺ اس کی شفاعت سے انکار فرمائیں گے، کہ میں تمہارے معاملے میں اختیار نہیں رکھتا میں تو تم تک پیغام پہنچا چکا تھا۔اب تم نے اس پر عمل نہیں کیااور خیانت کے مرتکب ہوئے ہو، لہٰذا آج بارگاہ الٰہی میں قیامت کے دن میری شفاعت سے تم محروم رہوگے۔
اس روایت میں میرے اور آپ کے لیے بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ جو لوگ ملازمت پیشہ ہوتے ہیں،جائےملازمت اور دفتر ان کے لئے امانت کی جگہ ہے،دفتر میں جتنی بھی اشیاء ہوں ،وہ ملازم کے پاس امانت ہوتی ہیں۔بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام لمحات میں امانت و دیانت کا پابند ہے۔کسی قسم کی خیانت کرنا نبی کریم ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!