ذی الحج کے ابتدائی عشرے میں بال اور ناخن نہ کاٹنے کے حکم کی شرعی حیثیت

ذی الحج کے ابتدائی عشرے میں بال
اور ناخن نہ کاٹنے کے حکم کی شرعی حیثیت

مفہوم حدیث:
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہمہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے جب تم میں سے کوئی شخص ذوالحج کا چاند دیکھ لے ،اس کا قربانی کرنے کا اردہ ہو، تو اسے چاہیے کہ اپنی قربانی کا جانور ذبح ہونے تک اپنے بال نہ کاٹے ،اور اپنے ناخن نہ تراشے۔

تشریح:
ذوالحجہ کے ابتدائی عشرے میں مسلمان حج جیسی عظیم عبادات سر انجام دیتے ہیں۔ اور عام طور پر جب حاجی حج کے لیے جاتا ہے، تو حج سے پہلے عمرہ کی عبادت بھی سر انجام دیتا ہے۔عمومی طور پر ذی الحج کے یہ ابتدائی دن حاجی کے احرام کی حالت میں گزرتےہیں۔اور احرام کی حالت میں حاجی کے اوپر کئی طرح کی پابندیا ں ہوتی ہیں،کہ وہ اپنے بال نہیں کاٹ سکتا، جسم کے کسی بھی حصے کے خوشبو کا استعمال اس کے لئے ممنوع ہے۔ یہ اعمال اللہ تبارک و تعالیٰ کو انتہائی پسند ہیں۔ اس لئے حاجیوں کی مشابہت کے لیے نبی کریم ﷺ نے اپنےاس فرمان میں دیگر مسلمانوں کو بھی ہدایت کی ہے، کہ ان دنوں میں تم لوگ بھی اپنے بال نہ کاٹو ،اپنے ناخن نہ تراشو، تاکہ حاجیوں کے ساتھ تمہاری مشابہت ہوجائے۔اور بعض مشائخ اس کا اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ وہ حج کے دنوں میں اپنے اپنے وطن میں رہ کر بھی خوشبو کا استعمال نہیں کرتے تھے کہ چونکہ حاجی احرام کی حالت میں ہیں اور وہ خوشبو کا استعمال نہیں کرسکتے، ہم اپنے وطن میں ہیں ہم حج کے لئےنہیں جا سکے، لیکن کم ازکم حاجیوں کی مشابہت تواختیار کرسکتے ہیں۔اس لیے وہ ناخن تراشنا ،بال کاٹنا، بلکہ خوشبو کے استعمال سے بھی گریز کرتے تھے۔
اس بارے میں دو باتیں سمجھنےکی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس حکم کا درجہ استحبابی ہے، اگر کوئی ثواب کے حصول کے لئےاس پر عمل کرنا چاہتا ہے، تو وہ اس پر عمل کرسکتا ہے ، اگر کوئی عمل نہ کرے تو اس کے لیے کوئی گناہ نہیں۔ عام طور پر لوگ اس حکم میں بڑا مبالغہ کرتے ہیں۔ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اس عمل کا درجہ ایسے ہے جیسے آپ نفل پڑھتے ہیں، پڑھنے کا ثواب ملتا ہے نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔ اس حکم پر عمل کرنے کی بھی یہی کیفیت ہے،کہ اگر کوئی عمل کرتا ہے حاجیوں کے ساتھ مشابہت کے لئے،تو وہ عمل کرلے یقیناً اس کو اجر ملے گا۔ لیکن اگر کوئی عمل نہ کر سکے تو اس کے لیے کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے۔
اور دوسری بات یہ سمجھ لیںکہ اس پر عمل کرنا مستحب ہے اور صفائی کا اہتمام کرنا لازم ہے۔ اگر ان دس دنوں میں کسی کے غیرضروری بال بڑھ جاتے ہیں،یا ناخن اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ صفائی میں خلل واقع ہوتا ہے، اس کے لیے صفائی پر عمل کرنا لازم ہوگا ۔یعنی اسے چاہئے کہ اپنے ناخن تراش لے ،یا اپنے بال صاف کرلے۔ کیونکہ نفل کےثواب کے لئے فرض کو چھوڑا نہیں جاسکتا۔
ان دو امور کو خوب سمجھ لیں۔اس کے بعد اگر کوئی اس پر عمل کرنا چاہتا ہے تو یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ سے اسے اجر ملے گا۔بلکہ اس حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے ممکن ہے اللہ تعالیٰ کو ایک مسلمان کی یہ ادا پسند آجائے، اور آئندہ سالوں میں اسے بھی اللہ تعالیٰ حرمین کی حاضری نصیب فرما دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!