جنت کے دروازے پر ایک امیر اور غریب کی ملاقات کا واقعہ

جنت کے دروازے پر ایک امیر اور غریب کی ملاقات کا واقعہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِلْتَقیٰ مُؤْمِنَانِ عَلیٰ باَبِ الْجَنَّۃِ، مُؤُمِنٌ غَنِیٌّ، وَمُؤُمِنٌ فَقِیْرٌ،کَانَا فِی الدُّنْیَا، فَاُدْخِلَ الْفَقِیْرُ الْجَنَّۃَ، وَحُبِسَ الْغَنِیُّ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یُّحْبَسَ، ثُمَّ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ، فَلَقِیْہِ الْفَقِیْرُ، فَیَقُوْلُ: اَیْ اَخِیْ مَاذَا حَبَسَکَ؟ وَاللّٰہِ لَقَدِ احْتُبِسْتَ حَتّٰی خِفْتُ عَلَیْکَ ، فَیَقُوْلُ: اَیْ اَخِیْ، اِنِّیْ حُبِسْتُ بَعْدَکَ مَحْبسًا فَظِیْعًا کَرِیْھًا، وَمَا وَصَلْتُ اِلَیْکَ، حَتّٰی سَالَ مِنِّی الْعَرَقُ، مَا لَوْ وَرَدَہُ اَلْفُ بَعِیْرٍ،کُلُّھَا آکِلَۃُ حَمْضٍ، لَصَدَرَتْ عَنْہُ رِوَائً
( مسند احمد، رقم الحدیث:2770)

مفہوم حدیث:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔دو مؤمن جنت کے دروازے پر ملیں گے، ایک مالدار ہو گا اور دوسرا فقیر، وہ دنیا میں دوست ہوں گے، پس فقیر کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور مالدار کو اتنی دیر کے لیے روک لیا جائے گا، جتنا اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر جب اس کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور وہ فقیر اس کو ملے گا تو وہ کہے گا: اے میرے بھائی! کس چیز نے تجھے روک لیا تھا؟ اللہ کی قسم! تجھے اتنی دیر کے لیے روکا گیا کہ مجھے تو تیرے بارے میں ڈر محسوس ہونے لگا، وہ کہے گا: اے میرے بھائی! مجھے تیرے بعد ایسی جگہ پر روک لیا گیا، جو بڑی ہولناک اور مکروہ تھی اور تیرے پاس پہنچنے تک مجھ سے اس قدر پسینہ نکلا کہ اگر حَمْض پودا کھانے والے ایک ہزار اونٹ اس کو پینے کے لیے آتے تو وہ سیراب ہو کر واپس جاتے۔
تشریح:
اللہ انسان کو جس حال میں رکھے، انسان کو اس پر راضی اور مطمئن ہونا چاہیے ۔اللہ تعالی کی اپنی مصلحتیںہوتی ہیں، اس کو بہتر معلوم ہے کہ انسان کو کس حال میں رکھنا ہے۔ اگر کسی آدمی کو اللہ دنیا میں اس طرح رکھیں کہ اس کے پاس مال و دولت کی کمی ہو۔ وہ دنیا میں کچھ تنگی کا شکار ہو، تو اسے اس اعتبار سے مطمئن ہونا چاہئے۔ کہ چونکہ میرے پاس دنیا میں سازوسامان کم ہے۔ تو قیامت والے دن میرا حساب کتاب کوئی لمبا چوڑا نہیں ہوگا ۔جلد از جلد میں جنت پہنچ جاؤں گا ۔دوسری طرف اگر کسی آدمی کو اللہ مال اور دولت کے اعتبار سے فراوانی عطا کرے۔ تو جہاں اس کے لیے دنیا میں سہولتیں ہوتی ہیں ۔وہاں ممکن ہے قیامت والے دن اس دولت کا حساب دینے میں کچھ دشواری پیش آئے۔اس روایت میں دو جنتیوں کا واقعہ مذکور ہے۔دونوں دوست ہوں گے۔ایک امیر اور دوسرا فقیر ہوگا۔جنت کے دروازے سے گزرتے وقت امیر کو روک لیا جائے گا اور فقیر کو داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔کافی دیر بعد جب امیر دوست کو جنت جانے کی اجازت ملے گی تو وہ اپنے فقیر دوست کو بتائے گا کہ مجھے بہت ہولناک جگہ پر روک لیا گیا تھا اور حساب کی سختی کی وجہ سے میرا اتنا پسینہ نکلا کہ ایک ہزار شدید پیاسے اونٹ بھی اس کو پیتے تو سیراب ہوجاتے۔یعنی حساب میں اتنی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔
صحابہ کرامؓ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نہایت دولت مند اور امیر شخصیت تھے۔چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل نے نبی کریم ﷺ سے کہا تھاکہ عبدالرحمن بن عوف سے کہہ دیںکہ وہ مہمان کا اکرام کیا کریں ،غریب کو کھانا کھلایا کریں، حاجت مند کی خبرگیری کیا کریں ،اس کی مدد کیا کریں ۔عطا اور سخاوت کی ابتدا ،اس شخص سے کریں جس کا نان و نفقہ ان کے ذمے ہو، ان کی کفالت میں ہو تو اللہ تعالی ان کے مال کا تزکیہ کر دے گا ۔
اگر کسی آدمی کو اللہ نے مال و دولت کے اعتبار سے فراوانی عطا کی ہے، وہ ان نصیحتوں کا خیال کرےجو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو کی گئی تھیں۔ تو امید ہے
کہ اللہ نے جہاں دنیا میں اس کو نعمتیںعطا کر رکھی ہیں قیامت والے دن بھی وہ نعمتوں تو میں رہے گا۔ مال کے حساب کے حوالے سے اسے پریشانی کا شکار نہیں ہونا پڑے گا ۔ خلاصہ یہ کہ اللہ انسان کو جس حال میں بھی رکھے انسان کو مطمئن ہونا چاہیے کہ مصلحتوں کے پیش نظر انسان کے لئے جو حالت بہتر سمجھی، اسی حالت میں اس کو رکھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!