اللہ کے پسندیدہ نوجوان

اللہ کے پسندیدہ نوجوان
عَنْ أَبِي عُشَّانَةَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَعْجَبُ مِنْ الشَّابِّ لَيْسَتْ لَهُ صَبْوَةٌ
(مسند احمد، رقم الحدیث:17371)

مفہوم حدیث:
حضرت عقبہ بن عامر ؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اس نوجوان سے خوش ہوتا ہے، جو( نوجوانی کی) نادانیوں (خواہشات نفس)سے دور ہو۔
تشریح:

انسانی زندگی میں نوجوانی ایک ایسا دور ہے جس میں انسان عام طور پر خواہشات کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہے ۔مختلف گناہوں کی طرف اس کا رجحان ہوتا ہے۔ شیطان عام طور پر ایک نوجوان پر زیادہ شدت سے حملہ آور ہوتا ہے۔ تو جو انسان اپنی زندگی کے اس دور کی حفاظت کر لے ،اپنی جوانی کو پاکیزہ رکھے،خواہشات سے اپنی جوانی کو آلودہ نہ کرے تو وہ اللہ کے خاص بندوں میں شمار ہوتا ہے ۔جوانی کا مرحلہ دو کمزوریوں کے درمیان ہوتا ہے۔اس سے پہلے بچپن کی کمزوری اور بعد میں بڑھاپے کی کمزوری ہوتی ہے۔اس لئے جوانی کی اہمیت زندگی میں زیادہ ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو سوالات ہوں گے ان میں جوانی کے بارے میں الگ سے پوچھا جائے گا کہ جوانی کن کاموں میں بسر کی ہے؟
ایک روایت میں آتا ہے کہ اللہ قیامت کے دن سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دیں گے۔ یہ ایسا دن ہو گا جس میں اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا ۔عرش کے سائے کے نیچے جن سات قسم کے لوگوں کو جگہ ملے گی، ان میں ایسا نوجوان بھی ہوگا جو نوجوانی میں عبادت کرتا ہو(بخاری:۶۶۰)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہےکہ اللہ تعالی نے جس بندے کو بھی علم دیا، جوانی میں دیا اور ساری بھلائی جوانی میں ہے ۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت کیں:
’’(ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے) کہا کہ ہم نے ایک نوجوان کو اپنے بتوں کا ذکر کرتے سنا ہے جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔‘‘
’’وہ (أصحاب کہف) چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ہدایت میں مزید پختہ کر دیا۔‘‘
’’اور ہم نے ان (یعنی یحیی علیہ السلام) کو ابتدائے عمر ہی سے حکمت سے نوازا تھا۔(احیاء علوم الدین للغزالی :1/ 144)

یہ نوجوانی میں عبادت کرنے کی فضیلت اور اہمیت ہے ۔اس رو ایت میں بھی یہی پیغام ہے کہ اللہ اس نوجوان سے خوش ہوتے ہیں ۔جو نوجوانی کی نادانیوں سے دور ہو۔ یعنی گناہوں کے پیچھے بھا گنا ،وقت ضائع کرنا،خواہشات ِ نفسانی پر عمل کرنا ۔ آج کل کے دور میں نظروں کی حفاظت کرنااور اپنی حیاء اور پاک دامنی کو محفوظ نہ کرنا،یہ تمام نوجوانی کی نادانیاں ہیں ،جو آدمی ان نادا نیوں سے اپنے آپ کو پاک رکھے ۔تو اللہ ایسے نوجوان سے خوش ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!