اخلاص کی اہمیت

اخلاص کی اہمیت
(9) أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِتُبَاهُوا بِهِ الْعُلَمَاءَ، وَلَا لِتُمَارُوا بِهِ السُّفَهَاءَ وَلَا تَخَيَّرُوا بِهِ الْمَجَالِسَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَالنَّارُ النَّارُ۔ (ابن ماجہ، ابن ماجہ ابوعبد الله محمد بن یزید القزوینی م : 273ھ سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث : 254، ص: 93/1،دار احياء الكتب العربية – فيصل عيسى البابي الحلبي )
مفہوم حدیث:
نبی کریم ﷺ کے مبارک ارشاد کا مفہوم ہے کہ علماء پر بڑائی جتلانے ، بیوقوف لوگوں کے لڑنے جگھڑنے اور مجلسیں جمانے کے لیے علم حاصل نہ کرو . اور جو ایسا کرے گا اس کے لیے آگ ہے آگ.
تشریح:
اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے ہر عمل میں دو چیزیں مطلوب ہیں۔ پہلی چیز ہ تواضع کہ بندے کے دل میں عاجزی ہو، کسی قسم کی بڑائی بندے کے دل میں کوئی عمل کرتے ہوئے نہ ہو ۔ تکبر ایک ایسا مرض ہے جو دل کے خانوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ کوئی انسان ہزار کہے کہ میرے اندر تکبر نہیں لیکن وہ مرض کسی نہ کسی موقع پر سامنے آہی جاتا ہے اوراس کا علاج کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ لوگ میرے لیے کھڑے ہوں، میرا احترام کریں اور میرے کمال کا اعتراف کریں یہ بھی تکبر ہی کی ایک شکل ہے۔
دوسری چیز اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے یہ مطلوب ہے کہ بندہ جو بھی کام کرے اللہ کی رضا کے لیے کرے۔ خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے حصول کے لیےکوئی عمل کرنا یہ اس عمل کی مقبولیت کی دلیل ہے۔
اس روایت میں نبی کریم ﷺ نے علم حاصل کرنے والوں کو چند نصیحتیں فرمائی ہیں۔ کہ علم جو بھی حاصل کرے اس کی نیت خالص ہونی چاہیے، عاجزی اس کے پیش نظر ہو اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے علم حاصل کرے۔ اور اگر کوئی شخص اس لیے علم حاصل کرے کہ لوگ میری قدر کریں، میرے کمال کا اعتراف کریں ، وہ دیگر اہل علم پر بڑائی جتلانے کے لیے علم کے حصول میں محنت کرے۔ یا اس لئے علم حاصل کرے کہ علم حاصل کرنے کے بعد میں مجلسیں جماؤں گا، تقریریں کیا کروں گا ، لوگ میری طرف متوجہ ہوں گے، اور میری تعریفیں کریں گے، میرے گن گائیں گے یا اس لیے علم حاصل کرے کہ علم ہم حاصل نہ کرو ۔ اور علم اس لیےحاصل کر ےکہ میں لوگوں کے خلاف حجتیں قائم کروں گا ، جھگڑے کروں گا۔ تو ایسا علم اس کے لئے وبال جان بن جائے گا۔
علم کے حصول میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی مطلوب ہونہ اپنی بڑائی مطلوب ہو اور نہ اپنے کمال کا اعتراف مطلوب ہو ۔ ان امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب آدمی علم حاصل کرتا ہے تو وہ گو یا اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہوتا ہے۔ اور اس کا معاشرتی فائدہ یہ ہے کہ معاشرہ فرقہ واریت سے پاک ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!