نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی

نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی

قدیم زمانے میں بادشاہوں کے ہاں سرکاری خطوط پر مہر لگانے کا رواج تھا۔ اگر کسی خط پر مہر موجود نہ ہو تو سرکاری سطح پر اس کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ مہر لگانے کے لئے عام طور پر انگوٹھی کا ستعمال کیا جاتا تھا۔ نبی کریمﷺ سے ابتداء میں انگوٹھی کا استعمال ثابت نہیں ہے۔صلح حدیبیہ کے بعد جب نبی کریم ﷺ نے اسلام کے پیغام کو عرب کے باہر پہنچانے کے لئے مختلف بادشاہوں کو خطوط لکھنے کا ارادہ کیا ۔تو آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ اگر خط پر مہر نہ لگی ہو، تو بادشاہ اس کو اہمیت نہیں دیں گے۔ لہٰذا خط پر مہر لگانا ضروری ہے۔اور مہر کے لئے نبی کریم ﷺ کو تجویز دی گئی کہ آپ انگوٹھی بنوا لیجئے۔چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے روم کے بادشاہ کو خط لکھنا چاہا تو آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ بادشاہ بغیر مہر لگے خط کو اہمیت نہیں دیتے۔تو آپ ﷺ نے اس مقصد کے لئے چاندی کی انگوٹھی بنوالی۔

یہ انگوٹھی چاندی کی تھی۔اور اس کا نگینہ حبشی تھا۔حضرت انس آپﷺ کے دیرینہ خادم ہیں۔ان کی روایت ہے۔

كَانَ خَاتَمُ النَّبِيِّﷺ مِنْ وَرِقٍ، وَكَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا۔

ترجمہ: ’’نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی۔اور اُس کا نگینہ حبشی تھا۔

بعض روایات میںنگینہ بھی چاندی کا ہونا مذکور ہے۔ آپﷺ کی انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی جانب تھا۔اور اس پر محمدرسول اللہ کندہ کروایا ہوا تھا۔ پہلی سطر میں آپ ﷺ کا اسم گرامی محمد تھا۔دوسر ی سطر میں رسول تھا۔ اور تیسری سطر میں لفظ اللہ لکھا ہوا تھا۔

آپﷺ کے طرز عمل سے عام لوگوں کے لئے کیا راہنمائی ملتی ہے۔ذیل میں اس کو بیان کیا جاتا ہے۔

۔1. عام لوگوں کے لئے انگوٹھی کی حیثیت کیا ہے۔علمائے کرام کی آراء اس باب میں مختلف ہیں۔اتنی بات طے ہے۔ کہ مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔البتہ یہ سنت ہے یا نہیں ۔؟علماء کرام کے اس میں دو نقطہ نظر ہیں۔بعض حضرات فرماتے ہیں کہ انگوٹھی پہننا سنت ہے۔اور دیگر فرماتے ہیں کہ ہر آدمی کے لئے انگوٹھی پہننا سنت نہیں ۔بلکہ حاکم، بادشاہ، قاضی یا وہ شخص جس کو مہر لگانے کی حاجت ہو،اس کے لئے مسنون ہے۔ جیسے نبی کریم ﷺ نے ابتداء میں انگوٹھی کا استعمال نہیں فرمایا۔لیکن جب مہر لگانے کی ضرورت پڑی تو اس ضرورت کے تحت رسول اللہ ﷺ نے انگوٹھی بنوالی۔حاکم اور بادشاہ کے لئے تو مسنون ہے البتہ عام آدمی اگر پہننا چاہتا ہے۔تو اس کے لئے سنت کا درجہ تو نہیں البتہ جائز ہے۔

۔2. مرد چاندی کی انگوٹھی بنوانا سکتا ہے۔سونے کا استعمال مرد کے لئے شریعت نے جائز نہیں رکھا۔مرد تقریباً پانچ گرام چاندی کی انگوٹھی استعمال کرسکتا ہے۔البتہ عورتوں کے لئے وزن کی کوئی قید نہیں ہے۔

۔3۔   کس ہاتھ میں پہننی چاہئے ۔دائیں ہاتھ میں یا بائیں میں۔؟اتنی بات مسلمہ ہے کہ دونوں ہاتھوں میں پہنی جاسکتی ہے۔البتہ بہتر کیا ہے؟ تو اس میں علمائے کرام کی رائے مختلف ہیں چونکہ رسول اللہ ﷺ سے اکثر روایات میں دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا ثابت ہے ۔اس وجہ سے بعض علمائے کرام بالخصوص امام بخاری اور امام ترمذی کے ہاں دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا بہتر ہے۔لیکن بعض روایات میں حضرت حسن اور حضرت حسین  کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔اس لئے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے میں کوئی حرج نہیں۔

۔4۔ مردوں کے لئے شہادت کی انگلی اور ساتھ والی انگلی میں انگوٹھی پہننے کو علماء مکروہ لکھتے ہیں۔ ہاتھ کی چھوٹی انگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی میں مرد انگوٹھی پہن سکتا ہے۔ مرد کے لئے ایک ہی انگوٹھی استعمال کرنا بہتر ہے۔ ایک سے زائد انگوٹھیاں استعمال کرنے کو فقہاء فضول خرچی میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ خواتین کے لئے ایک انگوٹھی استعمال کرنے کی پابندی نہیں۔وہ جس انگلی میں بھی چاہیں،انگوٹھی پہن سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Feedback
Feedback
How would you rate your experience
Next
Enter your email if you'd like us to contact you regarding with your feedback.
Back
Submit
Thank you for submitting your feedback!